میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومت سندھ نے آئی جی سے ایس ایس پی تک پولیس افسران کو اختیارات دیدیے

حکومت سندھ نے آئی جی سے ایس ایس پی تک پولیس افسران کو اختیارات دیدیے

ویب ڈیسک
منگل, ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اختیارات ملتے ہی آئی جی سندھ سمیت اعلی پولیس افسران نے اچھے اورنیک نام اہلکاروں اورافسروں کی فہرست بناناشروع کردی
رقم لے کرایس ایچ اوکی تعیناتی کادورگزرگیا‘ تھانیداروں کی تعیناتی کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ‘فیصلہ میرٹ پرکیاجائے گا
آئندہ پانچ سال تک پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت نہ کی گئی توایسانظام تشکیل پائے گاجس کی مثالیں دی جایا کریں گی
سفارش اوررشوت کے بغیرایس ایچ اوزبنائے جانے سے اچھے اورایماندارافسران سامنے آئیں گے ‘کرپشن کادروازہ بھی بند ہوگا
الیاس احمد
حکومت سندھ نے طویل عدالتی اور میڈیا پر کی گئی جنگ کے بعد بالآخر پولیس افسران کو ٹوٹے ہوئے دل سے اختیارات دے دیئے ہیں، سندھ ہائی کورٹ نے جس طرح 3 ستمبر کو تاریخی فیصلہ دیا ہے اس سے حکومت سندھ کے ارمان بھی ٹھنڈے پڑگئے ،اس کے باوجود صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے کہا کہ اوپر اللہ اور نیچے اللہ ڈنو (آئی جی سندھ پولیس) کے قوانین چل رہے ہیں یہ وہ دل کی بات تھی جو پچھلے ایک سال سے ان کے دل میں پنپ رہی تھی۔ حکومت سندھ شروع دن سے ہی غلام حیدر جمالی کی طرز کا آئی جی سندھ پولیس چاہتی تھی۔ غلام حیدر جمالی تو جی حضوری میں تو شاید چپڑاسی کو پیچھے چھوڑ گئے تھے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو پائوں پڑ کر ملتے تھے جب وہ آئی جی بنے تو انہوں نے حکمرانوں کے ساتھ اس طرح رویہ اختیار کیا جیسے کہ وہ آئی جی نہیں بلکہ حکومت کے ذاتی ملازم ہیں تب حکمرانوں کو یہ احساس ہوا کہ ایسا آئی جی تو انہیں خواب میں بھی نہیں مل سکتا پھر جس طرح غلام حیدر جمالی نے لوٹ مار کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے صرف سکھر کے ایک پیٹرول پمپ کو 7 کروڑ روپے ادا کیے کہ اس پیٹرول پمپ سے جہازوں کا تیل بھروایا گیا۔ اس سے بڑھ کر کیا کرپشن تھی کہ سکھر میں کیسے جہاز گیے اور ان جہازوں سے 7 کروڑ روپے کا تیل خریدکر پولیس نے کیا کارنامے سر انجام دیئے۔
جب غلام حیدر جمالی کوبالآخر سپریم کورٹ نے غلام حیدر جمالی کو دھکے دے کر نکال دیا۔ اس دن سندھ کے حکمراں خون کے آنسو روتے رہے کہ غلام حیدر جمالی کیسے چلے گئے ،موجودہ آئی جی کو طویل جدوجہد اور مزاحمت کے بعد بالآخر اختیارات دے دیئے گئے۔ اب جبکہ حکومت سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پولیس افسران کو تقرریوں و تبادلوں کے اختیارات دے دیے ہیںتو آئی جی سندھ پولیس کو ایڈیشنل آئی جی، ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز کے تبادلوں کے اختیارات مل گئے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کے تبادلوں کا اختیار دے دیا گیا ہے، ڈی آئی جی جیز کو ایس ایس پیز کے تبادلوں کے اختیارات مل چکے اور ایس ایس پیز کو ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کے تبادلوں کے اختیارات مل گئے ہیں۔جیسے ہی آئی جی سندھ پولیس کو تبادلوں تقرریوں کے اختیارات ملے ہیں انہوں نے فوری طور پر سونے کی کان (یعنی ایس ایچ اوز کی تقرری) کو بند کرکے ایک نیا سسٹم نافذ کردیا ہے، انہوں نے ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس میں آزاد خان، ذوالفقار لاڑک، ثاقب اسماعیل میمن، ذوالفقار مہر اور توقیر محمد نعیم کو شامل کیا گیاہے۔ یہ کمیٹی 800 انسپکٹرز، سب انسپکٹرز اور اے ایس آئیز سے انٹرویو لے گی ان کی سفارش کی جائے گی اور کمیٹی جن کو ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرر کے لیے قابل سمجھے گی ان ہی کو ایس ایچ او اور ہیڈ محرر لگا دیا جائے گا اور اب نوٹ لے کر ایس ایچ او لگانا مشکل ہوگیا ہے، اب کوئی پولیس افسر کسی سیاسی جماعت کے پاس ایس ایچ او لگنے کے لیے نہیں جائے گا۔ حکومت سندھ نے جب سے پولیس افسرا ن کو اختیارات دیئے ہیں سندھ پولیس میں اچھائی کی امید شروع ہوگئی ہے، اب پولیس افسران کو غلط کام کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے اور جب وہ پکڑے جاتے ہیں تو پھر ان کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے حال ہی میں کراچی میں پولیس افسران کو عام شہریوں کو پکڑنے اور حراست میں لیے جانے پر گرفتار کیا گیا ہے اس طرح اب پولیس افسران کو ایک احتسابی عمل کو شروع کیا گیا ہے۔ اگر آئندہ پانچ سال تک پولیس میں مداخلت نہ کی گئی تو پھر پولیس میں ایک نیا نظام آجائے گا جب پولیس افسران کو پتہ ہوگا کہ اب رشوت اور سفارش نہیں چلے گی تو پھر ایک نئی پولیس سامنے آئے گی سیاسی لوگوں کو بھی پتہ چلے گا کہ ان کی سفارش پر کوئی ایس ایچ او نہیں لگے گا تو پھر وہ آئندہ کوئی بھی غلط کام نہیں کریں گے۔
حکومت سندھ کے لیے پولیس کو بااختیار بنانے کا عمل گلے کی ہڈی بن گئی ہے کیونکہ پی پی پی قیادت کبھی بھی پولیس کو بااختیار نہیں بنانا چاہتی کیونکہ پی پی پی رہنما اپنے مخالفین کو پولیس کے ذریعے دبانا چاہتے ہیں وہ اس پولیس کے ذریعہ غریب لوگوں کو حراساں کرنا چاہتے ہیں۔ شاید پی پی پی رہنما آنے والے وقت کا انتظار کررہے ہیں جب پی پی کو وفاقی حکومت میں نمائندگی ملے گی تب سندھ پولیس میں دوبارہ سیاسی مداخلت شروع کی جائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں