فاتح تختۂ دار
شیئر کریں
حضرت محمد ﷺکے آخری نبی ہونے پر ہر مسلمان کا ایمان اور یقین ہے ۔ موجودہ پارلیمنٹ کی جانب سے انتخابی اصلاحات2017 ء کے بل کی منظوری کے پروسس کے دوران ختم نبوت کے حلف کو حذف اور دوبارہ شامل کرنے کے معاملے نے ایک مرتبہ پھر تحریک ختم نبوت ﷺکی یاد تازہ کردی ہے ۔ پاکستان کی ملی اور سیاسی تاریخ میں اس جیسی تحریک کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے ۔
تحریک ختم نبوت کے حوالے سے تاریخ سے رجوع کیا جائے تو ایسی جی دار اور بے ریاء شخصیات کے اُجلے اور منور چہرے سامنے آ جاتے ہیں جن کے دم سے کردار کی روایت کو دوام نصیب ہوا اور وفا کی حکایت نے سرشاری پائی ۔ آج کے دور کی طرح وہ زمانہ بھی ضمیر کے تاجروںاور وفاکے سوداگروں سے خالی نہیں تھا ۔ لیکن حق پرستوں اور وفا شعاروں کا ایک لشکر بھی موجود تھا ۔ اگر یہ حق پرست موجود نہ ہوتے تو نہ جانے مملکت پاکستان عقیدہ ختم نبوتﷺ کے معاملے پر کیسے سُر خرو ہوتی اور اور محمد عربی ﷺ سے ہماری وفا کے دعوے کی آبرو کیوں کر بچتی ۔؟
تحریک ختم نبوت کے لافانی اور لاثانی کرداروں میں ایک نام مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ کا بھی ہے ۔ علامہ محمد اقبالؒ سے براہ راست فیض حاصل کرنے اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی نیابت اور نیازمندی رکھنے والا یہ مرد مجاہد ہمیشہ سر بکف رہا اُن کا یہ اعزاز رہا کہ انہوں نے تحریک ختم نبوت میں وفا کو ارزانی کے پیمانے میں تُلنے نہیں دیا ۔ اس تحریک کا ایک اہم باب قائدین کے لیے سزائے موت کا حکم تھا ۔یہ حکم مولانامودی ؒ اور مولانا نیازی ؒ کے لیے سُنایا گیا تھا ۔ان دنوں انھوں نے کال کوٹھڑی میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔یہ ہماری قوم کے اُس دستے کے سالار تھے جس کے خون کا گروپ ’’ ایمانی غیرت اور حمیت‘‘ ہے ۔
مولانانیازی مرحوم نے اپنی اسیری کی داستان راقم کو خود سُنائی تھی ان کی اس داستان کو اشرف تنویر نے ایک کتاب کی صورت میں بھی شائع کیا تھا ۔ مولانا نیازی ؒ کا کہنا تھا کہ ’’ گرفتاری کے بعد ہمیں شاہی قلعے سے لاہور سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا مجھے اُس جگہ رکھا گیا جہاں بھگت سنگھ جیسے انقلابی قیدی کو رکھا گیا تھا ۔ اُس وقت یہ سینٹرل جیل ایشیاء کی سب سے بڑی جیل ہوتی تھی جس کا تین میل کا چکر تھا شادمان کالونی اسی جگہ پر بنی ہے ۔ اس احاطہ ء جیل کانام ’’ بم کیس ‘‘ تھا ۔ ڈی ایس پی فردوس شاہ کے قتل کے کیس کی سماعت ہوئی ۔ 7 مئی1953 ء ملٹری کورٹ نے فیصلہ سُنایا ۔ میرے ساتھ اُس وقت نو آدمی اور تھے جن میں میاں خلیل احمد بھی تھے ۔ ہم سب پر قتل کا الزام تھا ۔ ملٹری والوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’’ قتل کے الزام میں ہم آپ سب کو بری کرتے ہیں ۔ میرے علاوہ نو آدمی اس کیس میں ملوث تھے وہ چلے گئے ۔ مجھے ملٹری والوں نے روک لیا ۔
مجھ سے کہا گیا کہ آپ پر بغاوت کا الزام بھی ہے ۔؟ میں نے جواب دیا ہاں الزام تو ہے ۔ اس پر انہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکالا کہ تمہارے لیے یہ فیصلہ ہے ۔
’’ تمہیں گردن میں رسی ڈال کر موت واقع ہونے تک پھانسی کے تختے پر لٹکایا جائے گا ‘‘۔
کسی کی زندگی میں ایسا کوئی لمحہ آجائے تو وہ غیر معمولی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت مولانا نیازی ؒ کو جو حوصلہ دیا تھا اُس پر وہ خود حیران تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ جب مجھے یہ کہا گیا کہ تمہیں موت واقع ہونے تک رسی پر لٹکایا جائے گا تو میرے سامنے قرآن مجید کی یہ آیت آ گئی ۔۔ ’’اللہ نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ یہ ظاہر کردے کہ تُم میں سے عمل کس کا نیک ہے ( سورہ الملک) ۔
مولانا اپنے انٹرویو میں مزید کہتے ہیں ’’ سزا سنانے والے نے جب مجھے سزا سُنا دی تو میں نے کہا سُن لیا ۔ اُس نے کاغذ کا وہ ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’ براہ مہربانی اس پر دستخط کر دیجیے ‘‘ ۔۔
میں نے کہا کہ اس پر میں اُس وقت دستخط کروں گا جب پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ڈال دیا جائے گا ۔
اُس نے کہا کہ نہیں ۔ آپ کو اس پر ابھی دستخط کرنا ہوں گے ‘‘ ۔ میں نے جواب دیا میں کہ چُکا ہوں کہ میں اس پر اس وقت دستخط کروں گا جب پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ڈالا جائے گا ۔ میں آپ کے پنجے میں جکڑا ہواتو ہوںمجھے پھانسی کے تختے تک لے جاؤ اور لٹکا دو ۔ اس پر اُس نے انگریزی میں کہا کہ ’’ بہر حال میرے آفیسرز مجھے اس سے متعلق پوچھیںگے کہ کیا مولاناکوپھانسی کا نوٹس دے دیا گیا ہے کہ نہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر تُم اپنے افسروں سے اس قدر ڈرتے ہو تو میں تمہاری خاطر دستخط کر دیتا ہوں ۔دستخطوں کے ساتھ میں نے تاریخ بھی لکھی 7 مئی 1953 ۔ پھر میں نے کاغذ اُس میجر کو واپس کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’ بس اتنا ہی ؟ میںتو اس سے کہیں زیادہ کے لیے بھی تیار ہوں ۔ اگر میری ہزار جانیں ہوں تو میں انہیں بھی ناموس حضرت محمد ﷺ پر نثار کردیتا ۔
آگے چل کر مولانا کمال کی بات بتاتے ہیں کہ ’’ موت کے پروانے پر میرے دستخط حاصل کرلینے کے بعد اُسی میجر نے انگریزی میں پوچھا ’’ تمہارا مورال کیا ہے ؟؟‘‘ میں نے بھی انگریزی میں جواب دیا کہ تُم نے میرا مورا ل نہیں دیکھا ۔۔
میرا مورال بے حد بلند ہے آسمانوں تک بلند ۔
عشقِ مصطفیﷺکی سرشاری کا عالم بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’جب سب لوگ چلے گئے اورمیں اس وسیع و عریض کمرے میں اکیلا رہ گیا تو میں نے دل ہی دل میں خودسے کہا ’’ نیازی تو بڑی باتیں بنا رہا ہے یہ تو فوجی ہیں تمہیں پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیں گے ‘‘۔۔ اس وقت مجھ پر موت کا تھوڑا سا خوف طاری ہوامگر پھر میری زبان پر یہ شعر آ گیا
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زمان ازغیر جانے دیگر است
جانے دیگر است ۔۔۔۔ جانے دیگر است ۔۔۔ جانے دیگر است
اسی شعر سے حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے اُٹھتے اور پھر وہی حالت ہو جاتی تھی یہاں تک کہ انہوں نے اسی شعرکا ورد کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپُرد کر دی تھی ۔‘‘
تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا عبدالستار خان نیازی کوتحریک چلانے جبکہ مولانا مودودی ؒ کو پمفلٹ لکھنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی ۔ اس سزا کے خلاف ملک اور بیرون ملک سے شدید ردعمل آیا ، حکومت نے 14 مئی 1953 ء کو سزائے موت کو چودہ سال قید با مشقت میں بدل دیا ۔ بعد ازاں ایک حکومتی حکم جاری ہوا جس کے مطابق یہ دونوں شخصیات اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر سکتی تھیں لیکن دونوںنے اپیل دائر نہیں کی جسٹس محمد شریف نے از خود ان کیسسز کا جائزہ لیا اور سزا کو تین سال کر دیا ۔ مولانا نیازی ؒ دو سال دو ماہ اور کچھ دن جیل میں رہے بعد ازاں وہ بری ہو گئے تھے۔
گرفتاری کے دوران مولانا نیازیؒ ختم نبوت کے حوالے سے اپنا بیان بھی تیار کرتے رہے جو انہوں نے جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل انکوائری کمیشن کو پیش کیا تھا ۔ ایک سوپچاس صفحات پر مشتمل اس بیان پر کمیشن کے رُبرو سرکاری وکیل چوہدری فضل الہی ( جو بعد میں صدر پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے تھے ) نے کوئی بات کہی تو جسٹس منیرنے پوچھا کیا آپ نے وہ بیان پڑھا ہے ؟
جس پر وکیل سرکار نے جواب دیا ۔ جی کچھ حصہ پڑھا ہے ۔ اس پر جسٹس منیر نے کہا کہ ’’اس بیان کا مطالعہ کریں وہ ایک تاریخی دستاویز اور معلومات کی کان ہے ‘‘ ۔
انتخابی اصلاحات2017 ء کے بل کی منظوری میں ختم نبوت کے حلف کے حوالے سے جو کچھ ہوا اُس کے حوالے سے جرات مندانہ موقف رکھنے والے تمام مسلمان مبارکباد کے مستحق ہیں یہ عقیدہ ختم نبوت کا ہی ثمر ہے جنرل پرویز مشرف کے دور سیاسی طور پر فدویانہ طرز عمل کے حامل سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے لیئے بھی تحسین بھی سامنے آیا ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب عالم کے مناظر بدل رہے ہیں ، روایات خرافات کی نظر ہو رہی ہیں، قدرو منزلت کے نئے نئے پیمانے سامنے آ رہے ہیں ۔اپنی تاریخ کے ان لوگوں کے کردار سے نئی نسل کو آگاہ کرنا ضروری ہے جو کبھی طوفان سے مفاہمت کرکے ساحل پر پہنچنے کی آرزو نہیںکرتے تھے ، جنہیں حق کی خاطر ابتلاؤں اور جفاؤں کے ہچکولوں میں لطف آتا تھا ۔ ایسے لافانی کرداروں میں ایک نام مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ کا بھی ہے جن کا کردار انہیں تاریخ میں ابدیت عطاء کر گیا ہے ۔