کفن کی جیب
شیئر کریں
ایک انتہائی مالدار کنجوس بستر ِ مرگ پر تھا مرض بڑھتا گیا جوں جو ںدواکی کے مصداق اس کی دن بہ دن حالت بگڑتی جارہی تھی عیادت کو آتے جاتے لوگ اسے مشورے پہ مشورہ دیئے جارہے تھے تمہارا آخری وقت آگیاہے اللہ کے نام پر کچھ تو دیتے جائو وہ سنی ان سنی کردیتا۔۔ایک روز وہ لگتا تھا کہ گھڑی پل کا مہمان ہے عزیز و اقارب، دوست احباب اور محلے دار مالدار کنجوس کی چارپائی کے گرد جمع تھے کہ حالت سنبھل گئی اتنے میں مولوی صاحب تشریف لائے انہوںنے تلقین کے انداز میں کہا حضرت!وقت قریب ہے اللہ کے نام پر کچھ دیتے جائو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔ کنجوس نے ہمت کرکے سر اٹھایا کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مولوی صاحب کے چہرے پر رونق سی آگئی سب متوجہ ہوگئے تو اس نے جل کر کہا کم بختو، جان تو دے رہا ہوں اور کیا دوں؟۔ہمارے معاشرے میں روپے پیسے کے معاملہ میں بیشترلوگوںکا رویہ ایسا ہی ہے زندگی کی آخری سانسوں تک دولت کی محبت دل سے نہیں جاتی یہ المیہ بلکہ اسے سانحہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ مسلمان اس سلسلہ میں زیادہ’’ بدنام‘‘ ہیں شایداسی بناء پر کچھ عرصہ قبل ایک امریکی سینیٹرنے کہا تھا’’ پاکستانی دولت کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں‘‘۔ حالانکہ دولت کے لیے اتنی چاہت۔۔عجب رویہ۔اخلاقی قدروں کی پامالی انسان کو زیب نہیں دیتی نبی ٔ اکرم ﷺ نے یقینا اسی لیے دولت کو اپنی امت کے لیے فتنہ قراردیا ہے آئے روزاخبارات میں خبریںچھپتی رہتی ہیں جائدادکی خاطر بھائی نے بھائی کا خون کردیا۔۔ دیور ،جیٹھ یا سسرال نے بیوہ بھابھی،بہو کو گھر سے نکال باہر کیاحتیٰ کہ پیسے کی لالچ میں اب تو ناخلف بیٹے والدین کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔یہ سب دولت سے محبت کا شاخسانہ ہے جس نے بھلے برے کی تمیز،رشتوںکا احترام اوردلوںسے محبت کو ختم کرکے رکھ دیاہے ماہرین ِ نفسیات کا کہناہے کہ دولت اکھٹی کرنا ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے یہ دل میں اجاگرہو جائے تو پھر دولت سے محبت کی خواہش دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے رفتہ رفتہ یہ خواہش ۔ہوس میں تبدیل ہو جاتی ہے، جائز ناجائزمیں کوئی تمیز نہیں رہتی۔دولت کی ضرورت اور اہمیت سے کسی طور بھی انکار ممکن نہیں لیکن اپنے آپ کو دولت کا پجاری یا غلام بنا لینا صریحاً اپنی شخصیت سے ظلم،معاشرے کے ساتھ ناانصافی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ زیادتی ہے اس طرزِ عمل سے انسان کی شخصیت بری طرح مسخ ہوکررہ جاتی ہے اسی لیے مذہب اسلام نے میانہ روی کا حکم دیاہے اعتدال کا یہ راستہ انسان کو بہت سی مشکلات سے محفوظ رکھتاہے آخری الہامی کتاب قرآن حکیم میں دولت کو اپنا سب کچھ ماننے والوںکو سخت نا پسند کیاگیاہے ایسے لوگوںکے لیے وعید ہے ۔ایک کہاوت کے مطابق قارون کی دولت دنیا میں ایک بری مثال ہے یعنی وہ دولت جس سے بنی نوع انسانیت کے لیے کچھ نہ کیا جائے کڑی دھوپ میں تپتے صحراکی مانندہے دنیا میں بہت سے امیر کبیر لوگ موجود ہیں یا اس دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن جو انسانیت کی خدمت کے لیے سرگرمِ عمل رہے ان کا نام کسی نہ کسی انداز میں آج بھی زندہ ہے ۔دنیا بھرمیں حالات سے مایوس لوگ سوشلزم کی طرف مائل ہوئے لیکن وہ بھی اس کا کوئی مؤثر حل پیش نہ کرسکا اس تجربے کی ناکامی کے بعد لوگ اب تلک مختلف حل ڈھونڈتے پھررہے ہیں ۔ اسلام سے پہلے حاتم طائی کی شہرت سخاوت کے لیے مشہور تھی اس کا نام اب بھی سخاوت کی علامت سمجھا جاتاہے اسلامی تاریخ میں حضرت عثمانؓ ِ غنی اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کی سخاوت کا بڑا شہرا ہے۔ پاکستان ہی نہیں بھارت،بنگلہ دیش،میانمارسمیت بہت سے غریب ممالک میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں پاکستان نصف صدی سے جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوںتک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت عام لوگوںکی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں یہ خاندان جو چاہیں سیاہ و سفید کرنے پر قادرہیں بدقسمتی سے یہ لوگ ا سٹیٹ سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیںقانون ان کی مٹھی میںہے، آئین ان کی خواہش کا نام ہے جس کو موم کی ناک بناکر جدھر چاہیں گھمادیں۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے عوام کے لیے غربت کو بدنصیبی بنا دیاہے جس سے چھٹکارہ کسی طور بھی ممکن نہیں آرہا۔غربت سے تو اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے اور مستحقین کی مدد کرنے کا حکم دیاہے اسلام کا ایک بنیادی جز زکوٰۃ کا مقصد ہی کم وسائل لوگوں اور غریبوں کی کفالت کرناہے اسی لیے مذہب اسلام کو دین ِ فطرت کہاجاتاہے ۔کہتے ہیں کہ غربت ایسی خوفناک چیزہے یہ سب سے پہلے انسان کی غیرت پر حملہ کرتی ہے پھر شرم ،حیا اوردل کی طمانیت رخصت ہو جاتی ہے حضرت بابا فریدؓ نے اسی لیے کہا تھا
پیٹ نہ پییاں روٹیاں
تے سبھے گلاں کھوٹیاں
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں غربت کی بناء پر خودکشی کرنے والوںکی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ حکومت، سماجی تنظیموں اور صاحب ِ ثروت حضرات کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے اب تو فاقوں سے تنگ آکر والدین میں اپنے بچوں کو قتل کرنے کا رحجان پیداہورہاہے ۔ ایک عالمی ادارے نے دل ہلا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق دنیا کے غریب اور ترقی پذیرملکوں میں غربت کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتاجارہاہے75% سے زائد شہری خط ِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں زندگی کی ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم غربت کے مارے اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے پر مجبور ہیں سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچ چکے ہیں جبکہ اب گردوںکی خرید و فروخت نے ا یک کاروبار کی صورت اختیارکرلی ہے جس میں بعض ڈاکٹر بھی ملوث ہیں۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ جسم فروشی میں خوفناک اضافہ ہوتا جارہاہے یہ سب غربت جیسی لعنت کی وجہ سے ایسا ہورہاہے وسائل کی کمی،طبقاتی پریشانی اورذہنی الجھائو کے باعث بھی عام خاندان کے نوجوان منشیات کی طرف راغب ہوکر اپنے والدین کو مزید غربت میں دھکیل رہے ہیں اسی بناء پر امیر ۔امیر ترین اور غریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور غریب تو نسل در نسل
زندگی جبر ِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کی تفسیربنے ہوئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ تیسری دنیا کے بیشتر میں آج تک کسی بھی حکومت نے غربت ختم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں کیے اگر کسی نے ڈھیلے دھالے انداز میں ایسا کرنے کی
کوشش بھی کی تو افسر شاہی یاارکان ِ اسمبلی نے ان کاوشوںپر پانی پھیردیا اوروہ خود مالا مال ہوگئے اور یوں وہ غربت ختم کرنے کی بجائے غریب ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے اوریوںحکومتی کوششیں بار آور نہ ہو سکیںاگرپاکستان،بھارت بنگلہ دیش کے سرمایہ کاروں،سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں رحجان زورپکڑ گیا کہ وہ اپنا سرمایہ غیرملکی بینکوں میں جمع کروائیں اس کے لیے منی لانڈرنگ سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا اگر وہ سرمایہ ان کے اپنے ممالک میں لگایا جاتا تو اس سے ملکی معیشت کو نہ صرف استحکام ملے گا بلکہ روزگارکے اتنے مواقع میسر آسکیں گے کہ عام آدمی بھی دو وقت کی روٹی عزت سے کھا سکے گا پاکستان میں میاںنوازشریف فیملی ،شہبازشریف خاندان، آصف علی زرداری، انور مجیداومنی گروپ اور کئی دوسری شخصیات کے خلاف جعلی اکائونٹس، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے سینکڑوں مقدمات نیب اور دیگر عدالتوںمیں زیر ِ سماعت ہیںعدالتوںمیں پیشی کے وقت وہ اس انداز میں آتے ہیں جیسے کوئی فاتح مفتوحہ ملک میں آیا ہو صرف پاکستان میں سینکڑوں بدنصیب بچے تھرپار کرمیں غذائی قلت کا شکارہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کبھی چولستان میں قحط سے فاقے کرنے پر مجبور ہیں اور نہ جانے کتنے خون اور اپنے گردے بیچ کر بچوںکے لیے دووقت کی روٹی لے کر آتے ہیں۔یہی حالات بنگلہ دیش کے غریب ملاحوں کے ہیں چکا چوند بھارتی شہروںکے مضافات میں نہ جانے کتنی کہی ان کہی کہانیاں دم توڑرہی ہیں ،اور کون جانے مسائل در مسائل نے شام،عراق،میانمار،افریقی ممالک میں ہزاروں لاکھوں جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیوںکو جہنم بناکر رکھ دیا ہے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے ،بوڑھے والدین ، چھوٹے بہن بھائیوںکی ضرورتوںکے لیے کتنی بہنیں روز غربت کی سولی پر دلہنیں بن کر بیوہ ہوجاتی ہیں
مزدور کے بیٹے نے کھلونے نہ خریدے
لے آیا میلے سے بھی دو وقت کا کھانا
کاش معاشرے میں دولت سے محبت کرنے والے اتنا سوچ لیں کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی سکندر ِ اعظم جیسے لوگ جب دنیا سے گئے تو انکے دونوں ہاتھ خالی تھے دولتمند ۔ مسائل کے مارے لوگوںکو خوشیاں خریدکردے سکتے ہیںیقینا اس سے ان کو روحانی خوشی ضرور حاصل ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔