جعلی بینک اکاؤنٹس ،جے آئی ٹی نے مزید 33 مشکوک اکاؤنٹس اور 334 ملوث افراد کا سراغ لگا لیا
شیئر کریں
علی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پہلی پیشرفت رپورٹ سیل شدہ لفافے میں سپریم کورٹ میں جمع کرادی جبکہ عدالت عظمیٰ نے تمام ماتحت عدالتوں کو اومنی گروپ کے منجمد اکاؤنٹس سے متعلق کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے روک دیا۔ پیر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے پہلی پیشرفت رپورٹ جمع کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وقت کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا رہا اور اب تک کی ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا۔
احسان صادق نے بتایا کہ مزید 33 مشکوک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے جن کی اسکروٹنی کی جارہی ہے اور اب تک کی تحقیقات میں 334 ملوث افراد سامنے آئے ہیں اور تمام افراد اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشنر کرتے رہے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط رہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی لانچز کا معلوم نہیں ہوا ٗذرا لانچ کے ذریعے رقم منتقلی کا بھی پتہ کریں ٗاحسان صادق نے کہا کہ ابھی لانچ تک نہیں پہنچے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بڑے اعتماد کے ساتھ جے آئی ٹی کو ذمہ داری دی ہے ٗاکاؤنٹس کا مقصد یہی ہے چوری اور حرام کے پیسے کو جائز بنایا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک اہم کردار عارف خان بھی ہے جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ وہ بیرون ملک ہے، کس ملک میں ہے ابھی ظاہر نہیں کر سکتا۔
احسان صادق نے کہا کہ جو ملزمان باہر ہیں انہیں واپس لانے کے اقدامات کر رہے ہیں جس کے لیے ملزمان کے ریڈ وارنٹ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں ٗ تحقیقات کیلئے نیب ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک سے ریکارڈ لے رہے ہیں۔سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ جعلی اکاونٹس میں کنٹریکٹرز نے رقم جمع کرائی ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا رقم کراس چیک کے ذریعے اکاؤنٹس میں جمع ہوئی؟ احسان صادق نے بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے کا جائزہ لینا پڑے گا، کمپنیوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اومنی گروپ کی کتنی شوگر ملز ہیں، سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا 16 شوگر ملز ہیں چیف جسٹس نے پوچھا کیا اومنی گروپ کسی کا بے نامی دار تو نہیں جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس میں رقم جمع کروانے والے ٹھیکیدار بھی تھے، سرکاری ٹھیکیداروں کے نام بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیے تاہم تمام ٹرانزیکشنز کا جائزہ لینا مشکل کام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کا خرچہ اومنی گروپ پر ڈالیں گے، پیسہ کوئی کھائے اور خرچہ سرکار کیوں کرے۔اس موقع پر اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید و عبدالغنی مجید کے وکیل نے جے آئی ٹی اخراجات دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے تمام اکاؤنٹس منجمد ہیں، ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسہ نہیں۔چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کوئی گھر بیچ کر اخراجات کیلئے جے آئی ٹی کو پیسے دیں جس پر وکیل نے کہا اثاثے اور بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں۔عدالت نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ اومنی گروپ کے اکاؤنٹس کھولنے کی درخواست پر فیصلہ نہ دے، آرٹیکل 184 کے تحت اسپیشل کورٹ کو حکم جاری کرنے سے روکتے ہیں اور خصوصی عدالت جعلی بینک اکاونٹس سے متعلق سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر کوئی حکم جاری نہ کرے۔عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت 10 روز کے لیے ملتوی کردی۔