میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی میں لینڈ مافیاکے بعد واٹر مافیا کو بھی کراچی پولیس کی سرپرستی

کراچی میں لینڈ مافیاکے بعد واٹر مافیا کو بھی کراچی پولیس کی سرپرستی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۴ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

(رپورٹ :حافظ محمد قیصر )کراچی میں لینڈ مافیاکے بعد واٹر مافیا کو بھی مکمل طور پر کراچی پولیس کی سرپرستی حاصل ہے جسکی وجہ سے آج تک کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور واٹر مافیا عام عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے اور متعلقہ ادارے کراچی واٹر اینڈ سیویج بورڈ کے کرپٹ افسران سمیت کراچی پولیس کی کالی بھیڑیں بھی اس مافیا کاحصہ ہیں عام طورپر سرکاری اراضی پر لینڈ مافیا کی جانب سے قبضے کی صورت میں کراچی پولیس جیسے شروع دن سے ہی غیرقانونی طور پر دفعہ 447اور 448کا استعمال کرکے لینڈ مافیا کو سپورٹ اور سہولت فراہم کرتی آرہی ہے اسی طرح کراچی شہر کی سب سے منظم اور مظبوط واٹر مافیا کے آگے کراچی پولیس ناکام دکھائی دیتی ہے اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی لائنوں کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے مختلف مقامات پر پلیٹس لگا کر بند کردیا جاتا ہے یا پھر لائنوں میں کلپ لگا کر کراچی کے عوام کا پانی چوری کرکے عوام کو ٹینکرز کی صورت میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہیپانی چوری کی صورت میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے کرپٹ افسران اور متعلقہ پولیس کی ملی بھگت سے واٹر مافیا کو سہولت فراہم کرتے ہوئے ایگریکلچر ایکٹ 1898دفعہ 430کے تحت مقدمے کا اندراج کیا جاتا ہیسب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایگریکلچر ایکٹ 1898سیکشن 430 یہ ہے کہ ملزم محکمہ انہار کے پانی کو بندکرکے اس پانی کا رخ اپنی زرعی اراضی کی طرف موڑ دے واضح رہے کہ سیکشن 430مجسٹریٹ ٹرائل ہے اور قابل ضمانت جرم ہیاور جرم ثابت ہونے پر ملزم کو5سال سزاکا قانون ہے کراچی پولیس کی جانب سے واٹر مافیا کے خلاف عام طور پر سیکشن 430کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے ملزم بآسانی 5سے 10ہزار روپے میں ضمانت حاصل کرلیتا ہے اور مقدمہ انوسٹی گیشن کے دوران ہی سی کلاس کردیا جاتاہے کیونکہ سیکشن 430 کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جیوڈیریکشن ہی نہیں ہے جبکہ سندھ گورنمنٹ کی جانب سے پانی چوری کی روک تھام اور کراچی کے عوام تک پانی کی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایکٹ 2015لاگو کیا گیا تھا جس کے مطابق واٹر مافیاکو لگام ڈالنے کیلیے پانی چوری کی صورت میں کم ازکم 14سال سزا اور 10لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ ہے اور پانی کی چوری ناقابل ضمانت جرم اور سیشن ٹرائل ہے دوسری جانب انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی نااہلی کی وجہ سے نہ تو انوسٹی گیشن آفیسر متعلقہ ڈپٹیی کمشنر کو بذریعہ نوٹس پانی کی چوری کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور نہ کراچی واٹر اینڈ سیریج بورڈ کے چئیرمین کو بذریعہ نوٹس اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ کے ٹیکنیشن عملے کو پابندکرے اور لائن کی مرمت کا کام کروائیاسی طرح انوسٹی گیشن آفیسر کمشنر کراچی کو بھی بذریعہ نوٹس پانی کی چوری کے بارے میں آگاہ نہیں کرتا ہے اگر مذکورہ طریقہ کار کے مطابق انوسٹی گیشن آفیسر متعلقہ حکام کو بھیجے گئے نوٹسز کی کاپی کو بھی مقدمے کا حصہ بنائے تو واٹر مافیا کو معزز عدالتوں سے سزائوں کا ریشو 100فی صد ہوگا اور پانی چوری کی وارداتوں پر کنٹرول بھی کیاجاسکتا ہیلیکن بدقسمتی سے آج تک کراچی پولیس نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایکٹ 2015 کا استعمال تک نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے واٹر مافیا کراچی کے غریب عوام کا دھڑلے سے خون چوس رہاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں