میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈاکٹر ماہا کیس ، پولیس کی مزید تفتیش میں سنگین انکشافات

ڈاکٹر ماہا کیس ، پولیس کی مزید تفتیش میں سنگین انکشافات

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ اگست ۲۰۲۰

شیئر کریں

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پستول سے گولی مارکر خودکشی کرنے والی جواں سال ڈاکٹر ماہا علی شاہ کافی عرصہ سے اپنے دوست جنید خان کے مبینہ تشدد اور رویے سے تنگ تھی۔پولیس تفتیش کے مطابق ماہا علی نے نومبر 2018 میں اپنی سابقہ رہائشی عمارت کی چھت سے کود کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی مگر کودنے کیلئے صحیح جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ناکام رہی، اس کی وجہ بھی دوست جنید خان کا رویہ تھا تاہم بعدازاں اپنی دوستوں کی مداخلت اور سمجھانے پر ماہا علی نے فوری طور پر ایسا نہیں کیا۔ڈاکٹر ماہا علی نے خودکشی کیوں کی؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے پولیس نے تفتیش کی تو اہل خانہ، ملازمین اور دوستوں نے کئی شواہد پیش کردیے۔ماہا علی کی ایک دوست کے موبائل فون کے ریکارڈ سے پولیس کو نومبر 2018 میں واٹس ایپ کے ذریعے کی گئی چیٹنگ سے بھی شواہد ملے ہیں جن کے مطابق متوفیہ نے اپنی قریبی دوست سے جنید خان کے پرتشدد رویہ کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ مرنا چاہتی ہے ۔اپنی دوست کو متوفیہ کے بھیجے گئے تحریری پیغام میں اس نے اپنی رہائشی عمارت سے کود کر مرنے کی کوشش کا بتایا مگر ناکامی کیلئے صحیح جگہ نہ ملنے کا جواز پیش کیا۔متوفیہ کی بہن فاطمہ نے بھی مختلف حوالوں سے ماہا علی کی خودکشی کی کوششوں اور ارادوں کا تذکرہ کیا ہے ۔تفتیشی ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر ینگ لیڈی ڈاکٹر کی خودکشی کا سبب بننے والے جنید خان سے ماہا علی کی ملاقات کئی سال پہلے ہوئی تھی، اس کے بعد سے ہی وہ آزاد ماحول اور بے راہ روی کا شکار ہوئی۔پولیس نے ماہا علی کی خودکشی کیس میں متعلقین کے ریکارڈ کیے گئے بیانات کے حوالے سے بتایا کہ جنید خان نے مبینہ طور پر ماہا علی کو منشیات کا عادی کیا، ا سے مختلف نجی پارٹیوں میں لے جاتا رہا تاہم بعد ازاں غلط اور پرتشدد رویہ کی وجہ سے ماہا علی اس سے عاجز آچکی تھی۔پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ماہا علی نے خودکشی کرنے کے لیے پہلے جنید خان سے ہی پستول لا کر دینے کا کہا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بعد اپنے نئے دوست تابش قریشی سے یہ فرمائش کی۔ تابش نے اپنے دوست سعید صدیقی سے ایک دو دن کیلئے نائن ایم ایم پستول حاصل کیا جو ماہا علی کو دے دیا۔تابش نے ابتدائی بیان میں بتایا کہ اس نے صرف پستول دیا جس میں گولیاں نہیں تھی مگر پولیس کے مطابق پستول میں تین گولیاں تھیں جن میں سے ایک ماہا علی خود پر فائر کر چکی جبکہ پستول سے دو گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔میرپورخاص سے تعلق رکھنے والے آصف علی شاہ اپنے بچوں کی پڑھائی اور ملازمت کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں۔ یہ خاندان دو ہفتے قبل ہی اس گھر میں کرائے پر شفٹ ہوا ہے ۔ ابھی کمروں میں سامان بھی سیٹ نہیں ہوا اسی بنیاد پر ماہا علی، ان کی چھوٹی بہن فاطمہ، آصف علی شاہ اور والدہ ایک ہی ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں سوتے تھے ، کمرے میں ڈبل بیڈ کے علاوہ دونوں بہنوں نے اپنے سونے کے لیے میٹرس رکھا ہوا تھا تاہم ماہا نے دوسرے کمرے کا باتھ روم سیٹ کر لیا تھا جہاں خودکشی کا واقعہ ہوا۔پولیس کے مطابق وقوعہ کے وقت متوفیہ ماہا علی کے والد آصف علی شاہ کے قریبی دوست رکن صوبائی اسمبلی کے گھر پر مل کر گئے تھے جبکہ کوئی اور مہمان بھی گھر پر آنے والے تھے ، متوفیہ کے بھائی علی کے دو دوست بھی ان سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے اور یہ تینوں دوست دوسرے کمرے میں تھے ، پولیس تفتیش کے مطابق وقوعہ کے وقت دو گھریلو ملازم بھی گھر پر تھے ۔خاتون ڈاکٹر کی موت کا سبب کوئی بھی فرد ہے تو پولیس نے مقدمہ درج کیوں نہیں کیا؟ اس سوال پر ایس ایس پی ایسٹ شیراز نذیر کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے طور پر ایسا نہیں کرسکتی، متوفیہ کے لواحقین اگر چاہیں تو ذمہ دار کے خلاف مقدمہ درج کرا سکتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں