میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بنگلہ دیش میں پاکستانی طالب علموں کی جان کو خطرہ

بنگلہ دیش میں پاکستانی طالب علموں کی جان کو خطرہ

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۴ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

آج کل بنگلہ دیش میں پھوٹنے والے فسادات اور کرفیو حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ۔جنوبی ایشیا کے 17کروڑآبادی والے اس ملک میں سڑکوں پر احتجاج کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ مظاہروں کو ان کی شدت کے باعث بنگلہ دیشی تاریخ کے بدترین مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے۔ فسادات کی شدت کے پیش نظر امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی ہے ۔یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ 1971میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد سے ملک میں پبلک سیکٹر ملازمتوں کا ایک تہائی حصہ جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے لواحقین کے لیے مختص ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام امتیازی ہے اور وہ میرٹ کی بنیاد پربھرتیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس میں پرامن احتجاج سے شروع ہونے والا یہ معاملہ ملک گیر سطح پر بدامنی کا باعث بن چکا ہے۔ پولیس اور ملک میں برسر اقتدار عوامی لیگ کے طلبہ یونین جسے بنگلہ دیش چھاترا لیگ بھی کہا جاتا ہے، پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کر رہے ہیں۔ جس سے عوام میں بڑے پیمانے پر غصہ پھیل رہا ہے۔ ان پر تشدد مظاہروں میں اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں۔
حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی ہے اور ٹیلی فون سروسز کو محدود کر دیا ہے۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن سے پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی پی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ اب صرف طالب علم احتجاج نہیں کر رہے ،ایسا لگتا ہے کہ ہر طبقے کے لوگ احتجاجی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترقی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ کم تعلیم یافتہ افراد کے لیے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش تیار شدہ کپڑوں کی برآمدات کا پاؤر ہاؤس بن گیا ہے۔ یہ ملک عالمی منڈی میں تقریبا 40 ارب ڈالر مالیت کے کپڑے برآمد کرتا ہے۔ اس شعبے میں 40لاکھ سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں ،لیکن پڑھی لکھی نوجوان نسل کے لیے فیکٹریوں کی یہ نوکریاں کافی نہیں ہیں ۔بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واحد کے 15 سالہ دور حکومت نے دارالحکومت ڈھاکہ میں نئی سڑکیں پل کارخانے اور میٹرو ریل بنا کر کافی حد تک ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ پچھلی دہائی کے دوران ملک میں فی کس آمدنی تین گنا بڑھ گئی ہے اور عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں دو کروڑ 50لاکھ سے زیادہ افراد غربت سے نکل آئے ہیں اور اب بہتر زندگی گزار رہے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اس میں سے کچھ ترقی کا فائدہ صرف حسینہ کی عوامی لیگ کے قریبی لوگوں کو ہی ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ خاص طور پر حکمران جماعت کے قریبی لوگ اس میں زیادہ ملوث ہیں۔ ملک میں طویل عرصے سے کرپشن بغیر کسی احتساب کے جاری ہے۔ کرپشن میں ملوث بیشتر افراد حسینہ واجد کے قریبی ہیں ۔بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر شیخ حسینہ کے قریبی کچھ سابق اعلیٰ عہدے داروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں بحث جاری ہے ۔ان میں سے ایک سابق آرمی چیف، سابق پولیس چیف، سینئر ٹیکس افسران اور ملک میں بھرتی کرنے والے اہلکار شامل ہیں۔ حسینہ واجد نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ بدعنوانی ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور وہ اس کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے چپڑاسی کے خلاف کارروائی کی ہے جس کے اکاؤنٹ سے 400کروڑ نکلے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میرے گھر میں کام کرتا تھا میرا چپڑاسی تھا اور اب وہ 400کروڑ روپے کا مالک ہے۔ وہ ہیلی کاپٹر کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتا مگر سوال یہ ہے کہ اس نے اتنے پیسے کیسے بنائے ؟میں نے یہ جاننے کے فوراً بعد ایکشن لیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے علاوہ گزشتہ 15سالوں کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کے لیے آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ تین انتخابات میں ایک مرتبہ بھی قابل اعتبار آزادانہ اور منصفانہ پولنگ نہیں ہوئی۔ شیخ حسینہ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ اپنا لیڈر خود منتخب نہ کر پانے کے جمہوری حق سے محرومی بنگلہ دیش کے لوگوں میں کس حد تک عدم اطمینانی کا باعث بن رہی ہے۔ مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بی این پی نے 2014 اور 2024 میں یہ کہتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کہ حسینہ کے دور میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات ایک غیر جانبدارنگراں انتظامیہ کے تحت کرائے جائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ 15سالوں میں 80ہزار سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں ۔بنگلہ دیش میں ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ حسینہ واجد بہت حد تک آمرانہ طرز حکومت کو اپنا رہی ہیں اور حکومت پر اختلاف رائے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ حکومت اور حکمران جماعت کے خلاف غصہ کافی عرصے سے پنپ رہا ہے۔ لوگ اب اپنا غصہ دکھا رہے ہیں اور اگر ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تو وہ احتجاج کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس صورتحال کا حل کیا نکلے گا اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ حسینہ واجد بدامنی سے کس طرح نمٹتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ عوام کے بڑھتے ہوئے غصے کو کم کرنے کے لیے کیا راستہ اپناتی ہیں۔ کوٹا سسٹم کے حامی اس کے مخالفین کو بنگلہ دیش کا غدار اور بنگلہ دیش کی 1971کی تحریک آزادی میں مارے جانے والوں کے خون سے غداری قرار دیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دونوں طرف جذبات عروج پر ہیں ۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں کوٹا کے خلاف احتجاج میں شریک مقامی طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں شیخ حسینہ واجد کے حالیہ بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبہ کے مطابق وزیراعظم نے کوٹا نظام کے خلاف احتجاج کرنے
والوں کو 1971کے جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے رضا کاروں سے تشبیہ دی۔ بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنہوں نے 1971کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اس خطاب کے بعد سے ہی احتجاج کرنے والے طلبہ اور برسر اقتدار عوامی لیگ کی طلبہ یونین کے درمیان جھڑپوں میں شدید اضافہ ہوا اور صرف ڈھاکہ میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش اور خصوصا ڈھاکہ میں تمام جامعات بند ہیں ۔پاکستانی طلبہ اور طالبات کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔ واضح رہے کہ پاکستانی طالب علم سارک ممالک کے ایک ایکسچینج پروگرام کے تحت بنگلہ دیش میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ایک پاکستانی طالبہ نے جو تین سال سے ڈھاکہ میں زیر تعلیم ہیں، میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ پہلے دن کلاس میں پہنچی تو وہ دن کافی ناقابل فراموش تھا ۔جب کلاس میں ہمارا تعارف ہوا تو اس وقت ایک ساتھی طالب علم نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ اچھا تو پاکستانی بنگلہ دیش میں پڑھنے آئے ہیں۔ ساتھ میں انہوں نے کہا کہ واہ واہ اب پاکستان کو یہ حالت بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔پاکستانی طالبہ کا کہنا تھا کہ ہمیں تو یہ بھی سننا پڑا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان سے طالب علموں کو بلا کر مقامی طالب علموں کی حق تلفی کی ہے۔ حکومت پاکستان کو موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں تعلیم کا معیار بہتر بنانا چاہیے تاکہ پاکستانی طلبہ کو دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ اس سے قبل بھی پاکستانی طلباء کو کرغزستان میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب 24 مئی کو مقامی طالب علموں نے پاکستانی طلبہ پر حملہ کر دیا تھا اور جس کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی طالب علم زخمی ہوئے تھے اور بآلاخر تقریبا 1500 سے زیادہ پاکستانی طالب علموں کو کرغزستان چھوڑ کر پاکستان واپس آنا پڑا۔
بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ تمام پاکستانی طلباء کو وہاں سے محفوظ طریقے سے نکال کر پاکستان واپس لائیں کیونکہ ان حالات میں ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں