میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسٹائل انڈسٹری

بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسٹائل انڈسٹری

جرات ڈیسک
پیر, ۲۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

حکومت نے گزشتہ روز رات کی تاریکی میں عوام پر پھر بجلی بم گرا دیا ہے۔ ملک میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 3 سے 7 روپے 50 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا۔ذرائع کے مطابق کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سمری کی منظوری دے دی ہے۔ نیپرا بھی رواں مالی سال کے لیے بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی منظوری دے چکا ہے۔قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے کرنے کی تجویز ہے جس کے تحت 100 یونٹ والے گھریلو صارفین کے لیے بجلی 3 روپے فی یونٹ 101 سے 200 یونٹ والے صارفین کے لیے بجلی 5 روپے جبکہ201 سے 300 یونٹ والے صارفین کے لیے 5 روپے 301 سے 400 یونٹ والے صارفین کے لیے 6 روپے 50 پیسے اور 400 سے 700 یونٹ والوں کے لیے ساڑھے 7 روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق اضافہ مئی کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجزکی مد میں کیا گیا۔ قیمت میں اضافے کا اطلاق جولائی کے بلوں پر ہو گا۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے باعث ایک بار پھر عوام پر بجلی بم گرایا گیا ہے۔ابھی چند روز قبل ہی حکومت نے بجلی مہنگی کی تھی لیکن حالیہ اضافے سے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکالنے کا منصوبہ ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اس اضافے سے عام آدمی کوجن مسائل ومصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے قطع نظر ملک کی صنعتوں کو بھٹہ بیٹھ جانے کا اندیشہ ہے جس کا سب سے زیادہ بڑا اور برا اثر ہماری برآمدات پر پڑے گا۔یہی وہ صورت حال جس کے پیش نظر ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی نمائندہ تنظیم اپٹما نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر اصلاح احوال کی فریاد کی ہے۔ خط میں وزیر اعظم کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے محابا اضافے سے ملکی صنعتیں خاص طورپر برآمدی نوعیت کی بنیادی صنعتیں کس بری طرح متاثر ہورہی ہیں،اس خط میں وزیراعظم کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ 2.2 فیصد سے کم ہو کر 1.76 فیصد رہ گیاہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافے اور اس کی فراہمی میں رکاوٹ کی وجہ سے عالمی خریداروں کو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں مناسب قیمت اور وقت پر مال بنا کر دینا شدید متاثر ہوا ہے،اور اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی منڈی میں پاکستان کے روایتی مخالف بھارت اور بنگلہ دیش اپنا حصہ بڑھا رہے ہیں۔بتایا جا رہا ہے کہ بھارت میں بجلی کے نرخ 6 سینٹ، بنگلہ دیش میں 8 جب کہ پاکستان میں 16 سینٹ فی یونٹ ہے۔ بنگلہ دیش میں شرح سود 6 فیصد، بھارت میں 5 سے 7 فیصد اور پاکستان میں 22 فیصد ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پاکستان کی سب سے بڑی اور ترقی یافتہ صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ یوں بھی صدیوں سے پاکستان کا ایک بہت بڑا علاقہ کپاس کی پیداوار کے لیے مشہور رہا ہے اور دنیا میں جب کپاس کی پیداوار کی رینکنگ ہوئی تو یہ ملک کبھی چوتھے اور کبھی پانچویں نمبر پر براجمان نظر آتا رہا، گزشتہ کئی صدیوں سے برصغیر کے کپڑے کی تجارت کرنے والے خاندان خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ پاکستان میں کئی معروف و مشہور خاندان ایسے ہیں جوکہ صدیوں سے پشت در پشت کپڑے کی تجارت سے وابستہ تھے۔قیام پاکستان کے بعد یہاں کے کپڑے کے تاجر درآمدی کپڑوں کی فروخت سے مالا مال ہو رہے تھے۔ 1970 کی دہائی میں بھی کئی بڑے کاروباری خاندانوں نے اس شعبے کو اپنایا اور ان علاقوں میں بھی ٹیکسٹائل ملیں قائم ہونے لگیں جہاں کپاس کی پیداوار نہیں تھی،ٹیکسٹائل ملوں کے قیام سے علاقے کے بے روزگار افراد کو روزگار میسر آیا۔ملک کے طول و ارض میں پھیلنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ملک کے بڑے بڑے صنعتکاروں کی وابستگی نے اس شعبے کو چار چاند لگائے اور پاکستان نے اس شعبے میں اپنا خاص مقام بنا کر عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنا حصہ ڈالا۔نائن الیون نے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت پر منفی اثر ڈالا۔ پھر ملک بھر میں دھماکوں نے بیرون ممالک تاجروں کے قدم روک لیے،جبکہ لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بڑھتے بلوں نے اس صنعت کو شدید متاثر کیا۔جس کی وجہ سے بہت سے صنعتکار دیگر ممالک کو ہجرت کرگئے۔حتیٰ کہ پاکستان ٹیکسٹائل کی صنعت میں دنیا کے ان ملکوں سے بھی بہت پیچھے چلا گیا جو کہ پہلے پاکستان سے کم درجے پر تھے۔ اس طرح اب اپٹما کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ کم ہو کر 1.76فیصد رہ گیا ہے۔ پاکستان جس قسم کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے ایسی صورت میں پاکستانی برآمدات میں 60 فیصد حصہ ادا کرنے والے اس شعبے کا جو ملکی معیشت میں اب بھی اپنا بڑا حصہ ادا کر رہا ہے اور ملک کے بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے میں پیش پیش ہے زوال پذیر ہونا ملکی معیشت کے لیے انتہائی بدشگونی کا باعث بن رہا ہے۔اپٹما اپنا مقدمہ طویل عرصے سے ایوان کے اقتداروں میں بیان کر رہا ہے، لیکن بہت ہی کم اس کی شنوائی ہو رہی ہے۔ اس وقت جب کہ برآمدات میں گزشتہ سے پیوستہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 13 فیصد کی کمی ہوچکی ہے۔ملک میں زرمبادلہ لانے کا اہم ذریعہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ہے جسے ایک طویل عرصے سے اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے خصوصی معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ بڑھانے کے لیے خصوصی فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے اپٹما کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کیا جانا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدام کئے جائیں،وطن عزیز دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے اور ایشیا میں بھارت اور چین کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان میں جیننگ اور ا سپیننگ کے ہزاروں یونٹ کپاس سے ٹیکسٹائل مصنوعات بنا رہے ہیں۔معیشت کی بہتری کیلئے کپاس کی فصل بہت اہمیت کی حامل ہے۔ملک میں کپاس کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد پنجاب سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کپاس کی فصل کاشتکار وں کیلئے نہ صرف منافع بخش ثابت ہوتی ہے بلکہ کپاس کی کاشت سے کثیر آبادی کو روزگار بھی ملتاہے۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے سے ایک طرف ملک میں ٹیکسٹائل ملز کو ان کی ضرورت کی کپاس ملک ہی میں دستیاب ہوسکے گی اور اس کی درآمد پر زرمبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ کاشتکار اپنی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قیمتی زرمبادلہ کی آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ موسمی حالات کے موافق کپاس کے بیج کی نئی اقسام متعارف کرائی جائیں تاکہ کپاس کی فصل کو موسمی حالات کے برے اثرات اور حشرات الارض کے حملوں سے محفوط بنایا جا سکے۔ جعلی زرعی ادویات کے انسداد کیلئے بھر پور کریک ڈاؤن کیا جائے۔اس وقت ملک کو زرمبالے کی شدید ضرورت ہے صرف کپاس کی کاشت میں اضافے اور ٹیکسٹائل ملز کو ضروری سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے پاکستان کو عالمی منڈی میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانا اور زرمبادلہ کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے،لیکن اگر حکومت نے آنکھیں بند کرکے اسی طرح کلہاڑا چلانے کی روش برقرار رکھی تو اس دودھ دینے والی گائے کو زندہ رکھنا مشکل ہوجائے گا جس کا خمیازہ بحیثیت قوم ہم سب کو بھگتنا پڑے گا۔ٹیکسٹائل انڈسٹری مالکان کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے میں یہ ترقی برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لئے مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،جس سے نہ صرف صنعتی پیدوار بڑھے گی،بلکہ ملکی ذر مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا اور بیروزگاری بھی کم ہو گی۔امید کی جاتی ہے کہ پاکستانی حکام اس جانب فوری توجہ دیتے ہوئے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں