میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عافیہ کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی پر بات ہوسکتی ہے، عمران خان

عافیہ کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی پر بات ہوسکتی ہے، عمران خان

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۴ جولائی ۲۰۱۹

شیئر کریں

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا شکیل آفریدی کی بات کرتا ہے تو ہم عافیہ صدیقی کا مسئلہ بھی اٹھائیں گے ،بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت جوہری ہتھیار ترک کر دے تو پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار ترک کردے گا،مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں ۔ انہوں نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت جوہری ہتھیار ترک کر دے تو پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار ترک کردے گا۔انہوں نے امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی بڑھے ، امریکہ اور ایران کشیدگی سے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہونگے اور خطے کا امن اور معیشت متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان مصالحت کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں ۔پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں، ایک ارب سے زائد آبادی والا یہ خطہ جنگوں سے پہلے ہی متاثر ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ خطے میں مکمل امن اور خوشحالی چاہتے ہیں، ایٹمی ہتھیار کسی مسئلے کا حل نہیں ۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے ، امریکہ واحد ملک ہے جو پاکستان اور بھارت میں ثالثی کرا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 72 سال سے حل طلب مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں، مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت مہذب ہمسائے کی طرح رہ سکتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ تنازعات کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت جوہری ہتھیار ترک کر دے تو پاکستان بھی ترک کردے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی مسلح افواج پیشہ ور اور ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، پاکستان کا انتہائی جامع اور موثر جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے ۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکا شکیل آفریدی کی بات کرتا ہے تو ہم عافیہ صدیقی کا مسئلہ بھی اٹھائیں گے ، قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں امریکا سے بات ہو سکتی ہے ،امریکی اتحادی ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا ۔خطے میں دہشت گردی کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ امریکا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی رہے ہیں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 70 ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، افغانستان کے امن اور استحکام میں پاکستان کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ ہمسایہ ملک میں بدامنی سے براہ راست پاکستان پر اثرپڑتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 1500 کلو میٹر طویل سرحد ہے ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے امن لانے کی کوششوں پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر پیش رفت ہوئی، طالبان کے ساتھ حالیہ امن مذاکرات اب تک کے کامیاب ترین مذاکرات رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو حکومت کا حصہ بن کر عوام کی نمائندگی ملنی چاہئے ، افغان طالبان افغانستان کے باہر کارروائیاں نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے چار دہائیوں تک افغانستان میں جنگ لڑی، مگر افغانستان میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا، گزشتہ 19 برس کے دوران امریکا نے افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کیا ہے مگر ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ داعش پاکستان، امریکااور افغانستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے ۔ وزیراعظم نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ صدر ٹرمپ صاف گو انسان لگے جو لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں کرتے ، میرا پورا وفد بھی میٹنگ سے بہت خوش ہے ۔انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں