پاناما کیس کا سبق
شیئر کریں
پاناماکیس کا پٹارہ کھلنے کے قریب ہے ۔ سپریم کو رٹ آف پاکستان میں مسلسل ڈیڑھ سال تک پاناما کیس کی سماعت کے دوران حکمراں خاندان کے بارے میںبدنامی کی ایسی دھول اُڑی ہے جس نے "شریف حاندان "کا چہرہ دھندلا دیا ہے ۔ پاکستان میں کسی وزیراعظم اور اُس کے خاندان کے خلاف کرپشن کے کیس کی سماعت کا یہ طویل دورانیہ ہے ۔ اس سے قبل سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے خلاف میمو کمیشن بنا ۔سنگین بدعنوانیوں کے الزام عائد ہوئے لیکن انہوں نے اپنی صدارت کے پانچ سال پورے کیے ۔ انہیں اکڑنا اور جھکنا دونوں اُمور پر عبور حاصل ہے۔ ایک ہندی کہاوت ہے کہ جو طاقت دکھائے اس کے آگے جھک جائو اور جو کمزور ہو اس کے آگے تن جائو ۔ وزیراعظم نواز شریف اس کے برخلاف طرزِ عمل کے عادی ہیں۔اس لیے 1990کی دہائی میں بھی صرف دو سال حکومت کرکے اقتدار سے نکال باہر کیے گئے ۔یہ تیسری بار ہے اور سامنے عمران خان اور زرداری ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن اور اسفند یار ولی ان کے ہمرکاب ہیں لیکن اسمبلی میں برائے نام نمائندگی کے باعث پارلیمنٹ کس سطح پر کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے صوبائی حلقہ 114میں ضمنی الیکشن اور گلگت کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن)کو شکست دے کر حکمراں جماعت کو 2018کے الیکشن کے لیے سخت پیغام دے دیا ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ 114کی کامیابی کوچیلنج کرکے جیتنے والے پی پی کے امیدوار سعید غنی کو امتحان میں ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا حتمی اعلان کرکے انہیں سرخرو کر دیا ہے ۔ ماضی میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو سیاست سکھانے اور شاگرد بنانے کا عندیہ دیا تھا جو انہوں نے قبول نہیں کیا ۔ اسے لیے آج راندئہ درگاہ ہیں۔رسوائے زمانہ پاناما کیس نے عزت خاک میں ملانے کی پوری کوشش کی ہے ۔آصف زرداری ہزار الزامات اور کرپشن کہانیوں کے باوجود عزت سے سیاست کررہے ہیں اور 2018کے عام انتخابات بھاری اکثریت سے جیتنے کے دعوے کررہے ہیں ۔جبکہ شریف خاندان شرافت کا ٹیگ لگا ہونے کے باوجود رسوائی اور بدنامی کے اذیت ناک دور سے گزر رہا ہے ۔
پاکستان کی تقریباً ساری سیاسی جماعتیں روایتی سیاست ہی کررہی ہیں ۔ ان میں روس یا چین کی انقلابی جماعتوں کی طرح کوئی جذبہ موجود نہیں ہے اورنہ ہی ان کا عمل سماجی اور معاشی کایا پلٹ کا حامل ہے ۔ ان جماعتوں کے ٹکٹوں پر کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچنے والے بیشتر جاگیردار اور موروثی سیاست کے علمبردار ہوتے ہیں ۔ سندھ کے سب سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار سیاستدان قاضی فضل اللہ تھے جو کئی بار وزیر بنے ۔ ان کا تعلق لاڑکانہ سے تھا ۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں وہ سینیٹ کی نشست کے لیے امیدوار بنے تو نامزدگی کے فارم میں پیشہ کے خانہ میں سیاست لکھا تھا۔ فضل اللہ تا حیات کرائے کے گھر میں مقیم رہے۔ ایک پائی کی بھی بددیانتی اور کرپشن نہیں کی لیکن وہ بھی سیاست کو خدمت کے بجائے پیشہ سمجھتے تھے ۔ ان جیسے مخلص اور ایماندار سیاستدان کا مائنڈ سیٹ یہ تھا تو پیشہ ور اور کاریگر قسم کے سیاستدانوں سے ایماندار انہ سیاست کی توقع عبث ہے ۔ زرداری دور میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کرپشن اور توہین ِ عدالت کیس میں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹاکر گھر بھیجا گیا تو پیپلز پارٹی سے ہی راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنادیاگیا ۔ ان کے دور میں ہونے والی اربوں کی کرپشن پروہ آج بھی احتساب عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ سپر پاور امریکا کا صدر بل کلنٹن اپنے دور صدارت تک کرائے کے گھر میں رہائش پزیر رہا ۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن بغیر پروٹوکول سفر کرتے ہیں ۔ یورپ کے بیشتر ملکوں کے حکمراں کرایہ کے یا چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں ۔ پاکستانی حکمرانوں کے صرف ملکی اور غیر ملکی دوروں اور رہائش پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔وزیراعظم نواز شریف کو پاناما کیس کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کے بعد بھی اجالا نہیں اندھیرا نظر آتا ہے ۔ پاکستانی سیاست کے تالاب کا پانی پاک کرنے کے لیے جاگیرادارنہ نظام کی گلی سڑی اور بدبودار نعش کو باہر نکالنا ہوگا۔ جب تک یہ نعش پانی میںہے کتنے ہی چہرے بدل لیں ،کیسی ہی پوشاک پہنادیں کیسا ہی رنگ جمادیں نتیجہ وہی نکلے گا جو یوسف رضا گیلانی کی معزولی سے برآمد ہوا تھا ۔گیلانی صاحب عدالتی فیصلہ کے تحت پانچ سال تک فعال سیاست سے باہر رہنے کے بعد پھر سیاست میں سرگرم ہیں۔ اگر اگلے انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کا سکہ چل گیا تو کوئی بعید نہیں کہ یوسف رضا گیلانی پھر کوئی مضبوط پوزیشن بنالیں ۔ پاکستان میں چہرے نہیں نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تب ہی وہ سویرا طلوع ہوسکتا ہے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔سندھ کی اقتداری سیاست بلاول ہائوس اور پانچ پیاروں کے گرد گھومتی ہے جن میں پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری ، فریال تالپور ، آصفہ بھٹو اور بلاول بھٹو شامل ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے ۔ 2018کے عام انتخابات انکا آخری الیکشن ہوگا۔ ملک اور صوبہ میں کرپٹ سیاسی نظام سے بیزاری بڑھ گئی رہی ہے ۔ حلقہ پی ایس 114میں طوفانی انتخابی مہم کے باوجود صرف 30فی صد ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں ۔
( آخر میں گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک وضاحت ضروری ہے جس میں ایک اخباری کالم سے اقتباس شامل کیا گیا تھا ۔ غیر ملکی میڈیا اور کتابوں سے اقتباسات یا حوالے عام بات ہے جو عموماًہمارے اخبارات اور میڈیا میں نظر آتے ہیں ۔ میرے کالم کے لیے یہ اقتباس اسلام آباد سے ایک دوست نے ارسال کیا تھا جسے من وعن کالم میں شامل کردیا گیا۔ اچھی اور کارآمد بات جہاں بھی ہو، اُسے دہرانے سے اچھائی پھیلتی ہے ۔)
٭٭…٭٭