گریٹراسرائیل کاخواب
شیئر کریں
دنیابھرکے مسلمان اور ذی شعور اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست سمجھتے ہیں کیونکہ یہ صیہونی ملک زمینیں خرید کر نہیں بلکہ زمینیں ہتھیا کر قائم ہو ا ہے 1914 ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف 70 ہزار تھی جو بڑھتے بڑھتے1939 تک ساڑھے چار لاکھ تک جا پہنچی اس دوران یہودی جتھے جوق در جوق فلسطین میں آنے لگے انہیں ہر قسم کا اسلحہ رکھنے کی آزادی حاصل تھی۔ کمشنر کی جانب سے انہیں نہ صرف اسلحہ کے لائسنس دئیے گئے بلکہ جدید اقسام کا اسلحہ بھی فراہم کیا گیا تعصب اور بغض کی انتہا یہ تھی کہ مسلمانوں پراسلحہ رکھنے کی پابندی لگادی گئی۔ کچھ مورٔخین کا خیال ہے کہ صیہونی ملک بنانے کی منصوبہ بندی سلطنت عثمانیہ کے دور میں کی گئی لیکن مسلمانوںکواس کا ادراک نہ ہو سکا جب احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی سلطنت عثمانیہ کے دور میںیہودیوں کو گاؤں کے گاؤں اونے پونے بیچنے کی غلطی اپنی جگہ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہودیوں نے عربوں سے زمینیں خرید کر یہاں ا سرائیل قائم کیا تھا۔یہ واردات زمینیں خرید کر نہیں ، زمینیں ہتھیا کر کی گئی کیونکہ یہود یوں نے جب زمینیں خریدیں اس کے2 ادوار ہیں ایک 1882 سے 1908 تک ہے اور دوسرا دور1908 سے 1914 تک ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان دونوں ادوار کے اختتام پر یہودیوں کے پاس فلسطین کی صرف دو اعشاریہ چھ فیصد زمین تھی معاملے کی تفہیم اور تاریخ حوالے کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کی ترتیب ٹھیک ٹھیک رکھی جائے ان دونوں ادوار میں بیچی گئی زمینوں کی غلطی اپنی جگہ اور یہی غلطی یہودی ریاست کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن اصل واردات اس کے بعد ہوئی جب برطانیا نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور ایڈ منڈ ایلن بے نے بڑے فخرسے اتراتے ہوئے کہا تھا:’’ اب صلیبی جنگیں نہیں ہوں گی‘‘۔ اس کا کہا سچ ثابت ہوا روایتی صلیبی جنگیں تو نہیں ہوئیں ویسے اگر غورکیا جائے تو مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہورہاہے یہ سیاسی و سماجی،معاشی و معاشرتی استحصال صلیبی جنگوںکا ہی تسلسل ہے یہ الگ بات ہے کہ دور حاضر میں روایتی جنگیں نہیں ہورہیں کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اس دور میں درحقیقت یہودو نصاریٰ نے منصوبہ بندی اس اندازسے کی تھی کہ عرب بے بس ہوگئے تاجِ برطانیانے بیک وقت ایک تیر سے دو شکار کیے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیا نے عربوں میں اس تعصب کو ابھارا کہ تم پر عجمی حکومت کررہے ہیں اسی بناء پر عربوں کو برطانیا نے اس حسین وعدے پر ساتھ ملایالیا تھا کہ ان علاقوں میں عربوں کی حکومتیں بنیں گی دکھاو ے کے طورپر شریف حسین سے ایک تحریری وعدہ بھی کر لیا گیا لیکن ایک وعدہ یہودیوں سے بھی کیا جا چکا تھا کہ فلسطین میں ان کا قومی وطن قائم کیا جائے گا۔ جب اس وعدے کی تکمیل کے وقت اخلاقی سوال اٹھے اور فلسطینیوںمیں اشتعال اور اضطراب بڑھا تو اس کے جواب میں لارڈ بالفور نے اپنی ڈائری میں وضاحت سے اپنی خباثت کااظہارکیا کہ’’ ہمیں فلسطین سے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں( فلسطینیوں )سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ صیہونی ریاست ہمارے لیے عربوں کی خواہشات سے زیادہ اہم ہے‘‘۔ادھر فلسطین کو یہودیوں کی قومی ریاست بنانے کی مہم کو عملی شکل دینے کی شروعات کاآغاز ہوا نپولین بونا پارٹ وہ پہلا حکمران تھا جس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری اور ریاست کے قیام کی باقاعدہ تجویز دیدی جسے غیراعلانیہ تسلیم کرلیا گیااوریوں فلسطین کو عملاً انگریزوں کے پنجہ ٔ استبداد میں دے دیا گیا اور برطانیا نے نہ صرف فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی سہولیات فراہم کیں بلکہ صیہونی تنظیم کو باقاعدہ ریاستی نظم و نسق میں شامل کرلیا گیا چنانچہ برطانیا نے فلسطین میں ہربرٹ سیموئل نامی پہلا یہودی کمشنر تعینات کیا اس نے پہلا کام یہ کیا کہ زراعت اور تعلیم کے شعبے یہودیوں کے حوالے کر دئیے جس سے اس علاقہ میں ان برطانیاکی اجارہ داری قائم ہونے لگی کمشنر ہربرٹ سیموئل نے ہنگامی بنیادوںپر دنیا بھر سے یہودیوں کو بلا کر فلسطین میں آباد کرناشروع کردیا تاکہ مسلمانوںکی مقامی آبادی محدود ہوجائے یہی تجربہ وادی ٔ کشمیرمیں بھی کیا جارہاہے تاکہ وادی میں مسلمانوںکی تعداد کم ہوجائے بہرحال اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی یہودیوں کوزمین کاشت کرنے کے لیے قرضے دیئے گئے اور رہائش الائونس دیا جانے لگا ساتھ ہی ان کے بچوں کے لیے وظیفے بھی مقرر کردئیے گئے یہودیوں کو پیکج دیا گیا کہ جتنی فصل وہ تیار کریں گی اس کی قیمت کے ساتھ اتنا ہی انعام پائیں گے۔ دوسری طرف عربوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دئیے گئے۔بقایا جات کی مد میں ان کی زمینیں ضبط کرنا شروع کر دیں۔ ضبط کردہ یہ زمینیں یہودیوں میں مفت تقسیم کی جانے لگیں۔ تلخ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ یروشلم کے مضافاتی علاقوں سے8 ہزار عرب کاشتکاروں کو 50 ہزار ایکڑ زمین سے بے دخل کر دیا گیا اور بدلے میں انہیں صرف تین پائونڈ دس شیلنگ کا معاوضہ ادا کیا گیا۔ یعنی تین پائونڈ دے کر پچاس ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کرلیا گیا اس ظلم کے باوجود عالم یہ تھا کہ 1914 ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد جوصرف 70 ہزار تھی، 1939 تک بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ تک جا پہنچی۔ اس کے ساتھ ہی فلسطینیوںپر زندگی تنگ ہونا شروع ہوگئی مختلف حیلوں بہانوں سے قید، جرمانے معمول بن گیا حیفہ میں عرب کسانوں کو اسلحہ رکھنے کے جرم میں سزائے موت تک دی گئی ان پرخنجر تک رکھنے پر پابندی تھی حتیٰ کہ کسانوں سے زرعی آلات بر آمد کر کے الزام لگایا گیا کہ یہ خنجر ہیں کوئی بھی چیز جو خنجر سے مشابہت رکھتی تھی رکھنے کے جرم میںفلسطینیوں کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کرکے زمینیں ضبط کی گئیں غریب عرب کاشتکارو ں کو درانتی رکھنے کے جرم میں ان کی آبائی زمینوں سے بے د خل کردیا گیا اور ان زمینوںپریہودیوںکو آبادکردیاگیا۔
1947 میںجب مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تو اس ظلم وبربریت اور زمینوںپر قبضے کے باوجود عالم یہ تھا کہ فلسطین کی زمین کا صرف6 اعشاریہ 5 فیصد( چھ اعشاریہ پانچ)رقبہ یہودیوں کے قبضے میں تھا۔ لیکن اقوام متحدہ نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے یہودیوں کو فلسطین کا 55 فیصد رقبے کا مالک قراردے دیا جولوگ آج یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہودیوں نے زمینیں خرید کر اسرائیل بنایا تھا لگتاہے وہ تاریخی حقائق سے واقف ہی نہیں یا بلا وجہ سچ کو جھوٹ کے پردے میں چھپا رہے ہیں کیونکہ ان کا یہ دعویٰ قرین انصاف نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے مگر صریحا نا انصافی کرتے ہوئے یہود کو 55 فیصد علاقہ دے دیا جبکہ یہودیوں کی آباد کاری کے باوجود وہ کل آبادی کا33 فیصد اور عرب اس وقت بھی 66 فیصد تھے لیکن ان کے حصے میں 45 فیصد علاقہ آیا اقلیت کو زیا دہ رقبہ مل گیا یہ اقوام متحدہ کا وہ خوفناک’’ انصاف‘‘ تھا جس نے اٹوٹ کشیدگی اور نفرت کی بنیاد رکھ دی۔ نومبر 1947 ء فلسطین کی تقسیم کا یہ فارمولا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ پاکستان کو قائم ہوئے فقط تین ماہ ہوئے تھے لیکن اس کی بھرپور مخالفت میں سب سے توانا آواز پاکستان کے وزیر خارجہ کی تھی ۔ اس منصوبے کی منظوری کے لیے کم از کم درکار ووٹ 33 تھے لیکن اس کے حق میں30 آئے ہیٹی ، فلپائن اور لا ئبیریا کو دھونس، مراعات کالالچ اور ڈرا دھمکا کر یہ تین ووٹ لے کر مطلوبہ تعداد پوری کرلی گئی۔امریکا کے پہلے سیکرٹری دفاع جیمز فورسٹل نے اس زمانے کے واقعات پر ڈائری لکھی جو The Forrestal Diaries کے نام سے نیویارک ہیرلڈ ٹریبیون میں چھپتی رہی۔اسے سنسر بھی کیا گیا اور بعد میں ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوئی۔ شنید ہے اب اس کا غیر سنسر شدہ ایڈیشن بھی مارکیٹ میں آگیا ہے۔سنسر شدہ ایڈیشن میں وہ اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ یہودیوں کوفیور دینے کی خاطر اقوام متحدہ میں دوسری اقوام کو دبائو میں لانے کے لیے جو حربے اختیار کیے گئے وہ قریب قریب شرمناک تھے‘‘۔ جبکہ انڈر سیکرٹری آف ا سٹیٹ ایس ویلس نے بھی اعتراف کیا کہ وائٹ ہائوس کے براہ راست حکم پر یہ دبائو استعمال کرے ووٹوںکی مطلوبہ تعداد پوی کرلی گئی اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست ہے جہاںزمینیں خرید کر نہیں ، ہتھیا کر یہودیوں کو آباد کیاگیا اور خوفناک بات یہ ہے یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں بدستورجاری ہے دنیا بھر کے یہودی گریٹراسرائیل کے قیام کے لیے باقی مانندہ مسلمان فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں اسی لیے آئے روز نہتے فلسطینیوں کے گھروںپر حملے کیے جاتے ہیں لیکن جب تلک ایک بھی فلسطینی موجود ہے گریٹراسرائیل کا خواب پورا نہیں ہوسکتا (ان شاء اللہ) ماخوذ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔