میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

ویب ڈیسک
هفته, ۲۴ مئی ۲۰۲۵

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی نگہبانی اتحادی ممالک سے کراتی ہیں اِس تناظر میں سات عشروں تک امریکہ کے لیے پاکستان جبکہ روس کے لیے بھارت نے کام کیا لیکن اب حالات کروٹ لے چکے ہیں۔ روس اتحادی ممالک کواسلحہ وتیل توفراہم کرتا ہے لیکن کمزور معیشت کی بناپر مالی تعاون کے قابل نہیں رہا جبکہ امریکی پالیسی اب یہ ہے کہ مہنگا اسلحہ فروخت کرو اور بھاری سرمایہ کاری بھی حاصل کرو جس نے نئی عالمی تقسیم کو جنم دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک نے بھی اپنے نئے سرپرستوں کا انتخاب کر لیا ہے۔ اب امریکہ کے لیے بھارت اہم ہے جبکہ چینی سرپرستی پاکستان کو حاصل ہے ۔رواں ماہ چھ سے دس مئی تک جاری رہنے والی پاک بھارت جھڑپوں نے امریکہ کوکسی حدتک احساس دلا یا ہے کہ اُس نے پاکستانی رفاقت کو چھوڑ کر غلط کیا ہے اور وہ تجارتی معاہدوں سے تلافی کرناچاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے اشارے دینا شروع کر دیے ہیں کہ وہ پاکستان سے ایک بڑا تجارتی معاہدہ کرنے جارہی ہے۔ بظاہر یہ انعام بھارت سے سیز فائر کامطالبہ تسلیم کرنے کا صلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو دفاعی حوالے سے کچھ ایسے نئے روزن دکھائے ہیں جس سے ازسرے نو صف بندی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔
گھنٹوں پر محیط پاک بھارت جھڑپوں نے پہلا جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی طاقت چین جنگی تیاریوں کے حوالے سے اتنا آگے ہے جس کا توڑ دنیا کے شہ دماغوں کوتلاش کرناہوگا دوسرا سبق یہ ہے کہ خطے میں امریکی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے بھارت ناکافی ہے۔ تیسرا سبق یہ ہے جنگ بندی کی امریکی تجویزکو فوری طورپرقبول کرنے کے باوجود پاکستان چینی سرپرستی صدقِ دل سے قبول کر چکاہے ۔ دراصل امریکہ ضرورت کے وقت پاکستان سے کام تو لیتا ہے لیکن مطلب پورا ہوتے ہی رویہ بدل لیتا ہے۔ ایف سولہ دیتے وقت یہ شرط عائد رکھناکہ کسی پر حملہ کرتے ہوئے انھیں استعمال نہیں کیاجا سکتا بلکہ صرف دفاعی مقاصدکے لیے استعمال کیاجا سکتا ہے بہت ہی نامناسب ہے یہ شرط دوستانہ منافقت کی عکاس ہے کیونکہ اِس شرط کا مطلب تو یہ ہے کہ بھارت پر حملے کے دوران پاکستان ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کر ے گا۔ابتدامیں کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے پاکستان نے شرط قبول کر لی پاکستان شرط پر قائم رہتا ہے یا نہیں ؟جائزہ لینے اور پاکستان کو شرط کا پابند رکھنے کے لیے جب امریکہ نے باقاعدہ طریقہ کار بنا یاتوپاکستانی قیادت نے اردگردمتبادل تلاش کرنا شروع کردیا کیونکہ بھارت کو دفاعی ہتھیار دیتے وقت امریکہ نے کبھی کوئی شرائط نہیں رکھیں۔سوویت یونین کے خلاف پاکستان سے کام لیا گیا مگر اُس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد بھی پاکستان کو ایسے ہی رویے کا سامنا کرنا پڑا لیکن چین اپنی ضرورتوں کے لیے پاکستان کوتمام تر مجبوریوں کے ساتھ قبول کرتاہے دراصل دونوں کا دشمن ایک ہے جو دونوں کا ہمسایہ ہے اسی لیے دونوں ملک اب ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔
جموں کشمیر جیسی مسلم اکثریتی ریاست پربھارتی قبضے کو آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن کشمیریوں کو حقِ خوداِرادیت نہیں دیاجارہا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں۔ کشمیریوں کی خلاقی اور سفارتی مددتوپاکستان کرتا ہے لیکن جارحیت پر یقین نہیں رکھتا ۔یہ پاکستان کی امن پسندی ہے حیران کُن بات یہ ہے کہ کئی عشروں کی خدمات کے باوجود امریکہ نے اِس حوالے سے کبھی پاکستان کی مدد نہیں کی بلکہ علاقائی بالادستی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ بھارت کی مدد کی ہے۔ حالانکہ اُس کے کسی ہمسایہ ملک سے اچھے مراسم نہیں ۔بنگلہ دیش ،نیپال ،بھوٹان ،سری لنکا اور مالدیپ تک میں فوجی کاروائیاں کرچکا ہے ۔چین سے بھی شدید نوعیت کے سرحدی مسائل ہیں دونوں ہی لداخ اور اروناچل پردیش پرحقِ ملکیت کے دعویدارہیں۔ بھارتی رویے سے تنگ آکرہی چین نے پاکستان کی سرپرستی شروع کی ہے۔ وہ باسٹھ ارب ڈالر سے سی پیک کی تعمیر پر کام کرنے کے ساتھ پاکستان کوجدید دفاعی ٹیکنالوجی دے رہا ہے۔ پاکستان نے جے 10سی اور جے ایف تھنڈر17 کے ذریعے مشروط ایف سولہ کاحل تلاش کرلیا ہے۔ اب چین پانچویں جنریشن کے جے35 اے لڑاکا طیارے بھی رعایتی قیمت پر دینے پرآمادہ ہے جس سے پاکستان بھارتی حملوں کو ناکام بنانے کے ساتھ حملہ کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔پاک چین قیادت دوستی کو مضبوط سے مضبوط ترکرنے پر متفق ہے۔ پاکستان کو دفاعی حوالے سے مضبوط کرنے میں چینی مفاد یہ ہے کہ مقابلے کا دعویدار بھارت اب صرف پاکستان کے ساتھ ہی مصروف رہے گا جو امریکی مفاد سے متصادم ہے امریکہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان دفاعی حوالے سے کبھی اتنا طاقتور نہ ہوکہ بھارت کوچیلنج کر سکے ۔پاکستان بظاہر طویل ترین رفاقت کو خیر باد تو نہیں کہہ رہا ۔البتہ دفاعی مفاد کے تناظرمیں امریکہ پر چین کو فوقیت دے چکا ہے ۔
رواں ماہ کی محدود جھڑپوں نے بھارتی بالادستی کاخواب توتوڑا ہے ہی پاکستان اور چین کوبھی مزیدقریب کردیا ہے۔ عین پاک بھارت کشیدگی کے ایام میں چین نے خطے پرنظررکھی اور تبدیلی پر کچھ اِس طرح کام کیا کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر خطرات کے منڈلاتے بادل ہٹادیے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندے محمد صادق اور چینی سفیر نے اچانک کابل جا کر طالبان کو رضا مند کر لیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کوئی مُہم جوئی نہیں کریں گے اِس اچھی سہولت کاری سے پاکستان مشرقی سرحد پر بہترتوجہ دینے کے قابل ہو گیا اور چند گھنٹوں پر محیط یک ہی حملے میں بھارت کے چھبیس سے زائد عسکری مقامات تہس نہس کردیے ۔رواں ہفتے ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار ،چینی وزیرِ خارجہ وانگ ڑی اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی بیجنگ میں ملاقات ہوئی ہے اِس سہ فریقی ملاقات میں جہاں علاقائی مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں معاشی تعاون بڑھانے کا بھی جائزہ لیا گیا ۔بظاہراسحاق ڈاربھارت سے جنگ میں مددپر چین کا شکریہ ادا کرنے بیجنگ گئے ہیں مگر یہ مستقبل کے اسٹریٹجک تعلقات کے فروغ کے ساتھ معاشی تعاون کووسعت دینے کے امکانات کواُجاگر کرتی ہے کیونکہ تینوں متفق ہوچکے کہ علاقائی امن اور معاشی رابطہ کاری کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہے جو پاک افغان موجودہ تعلقات کی نوعیت کے تناظرمیں کافی اہم ہے۔ سہ فریقی بات چیت سے نہ صرف افغانستان میں ترقی کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ایک دوسرے پر انحصار میں بھی اضافہ گا جس سے نہ صرف خطے میں دہشت گردی جیسے ناسور کاخاتمہ کرناممکن ہوگا بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائیرپورٹ کو تحویل میں لینے کاامریکی منصوبہ بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں