کراچی کا میئر کون؟ بڑا معرکہ شروع ،جماعت اسلامی دوڑ میں آگے
شیئر کریں
( رپورٹ: جوہر مجید شاہ) میگا سٹی کے لیے مئیر شپ کا حصول بڑے معرکے میں تبدیل، مئیر کراچی کے لیے واضح اکثریت حافظ نعیم الرحمن کے پاس مگر دوسری طرف اسٹیٹ اتھارٹی و مشینری حکمراں جماعت کے پاس ۔ریاستی طاقت کے حامل تمام کھلاڑی میدان کار زار میں موجود، کھیل نازک دوراہے پر پہنچ گیا۔تفصیلات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایوان کل 367 نشستوں پر مشتمل ہے جبکہ مئیر شپ کے حصول کے لیے کل ووٹرز کی تعداد 184 چاہئے جبکہ 185 کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ 33 فیصد مخصوص نشستیں خواتین کے لیے ہیں جن کی تعداد 81 بنتی ہے جبکہ 5 فیصد یوتھ کی نشستیں اوراقلیت کی 2 نشستیں ہیں۔حال ہی میں اصافہ کردہ 1 نشست خواجہ سرا اور 2 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔ مسلم لیگ نون نے 14 نشستیں اور جمعیت علمائے اسلام نے 4 نشستیں جیتی ہیں، اس طرح بلدیاتی الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کو حاصل کل جیتی گئی نشستیں 97 بنتی ہیں، ان میں مخصوص نشستوں کے اضافے کے بعد حکمران جماعت کی نشستوں کی تعداد 155 ہوجائے گی۔ بلدیاتی انتخابات میں دوسری بڑی جماعت جماعت اسلامی ٹھہری جس نے کل 87 نشستیں جیتی ہیں مخصوص نشستوں کے ساتھ جماعت اسلامی کی کل نشستیں 130 بنتی ہیں، جبکہ بلدیاتی انتخابات میں شہر کی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف رہی جس نے کل 42 نشستیں جیت کر میدان مارا اور مخصوص نشستوں کے ساتھ یہ تعداد کل63 ہو جاتی ہیں ۔ادھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تحریک انصاف کے 2 چیئرمین تقریب حلف برداری سے قبل ہی گرفتار کرلیے گئے جبکہ 2 چیئرمین تقریب حلف برداری سے واپسی پر گرفتاری کے لیے مطلوب ہیں اور نشانہ بن گئے۔ مئیر کے معرکے کے لیے اس صورت حال میں نمبرز آف گیم کی دوڑ میں سب سے آگے جماعت اسلامی کے ناظم کراچی حافظ نعیم الرحمن ہیں جن کے پاس مطلوبہ اکثریت سے زیادہ اراکین موجود ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان تحریک انصاف کی غیر مشروط حمایت کے بعد کل 193 اراکین کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ دوسری طرف حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی مخصوص نشستوں کے ساتھ 155 اراکین کے ساتھ میدان میں موجود ہے جبکہ پیپلز پارٹی کیونکہ اسوقت (پی ڈی ایم ) کا حصہ ہے جسکے سبب انھیں مسلم لیگ نون کے 14 اور جمعیت علمائے اسلام کے 4 اراکین کی یقینی حمایت حاصل ہے مگر اس تعداد کے شامل ہونے کے بعد بھی ہنوز دلی دور است کے مصداق مئیر شپ کا تاج ان کے تیر انداز دستوں کے نشانے سے باہر ہے۔ دوسری طرف میٹروپولس سٹی کا مئیر حکمران جماعت کا ہدف بن گیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیونکہ یہاں گھی سیدھی انگلی سے نکلتا نظر نہیں آرہا ،اس کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جاتا ہے؟ یاد رہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے گزشتہ روز حکمران جماعت پر مئیر شپ کے حصول کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام دھرا ہے۔ لگتا ہے کہ کراچی کے مئیر کا مقدمہ بھی عدالت کے دروازے تک جا پہنچے گا ۔دونوں طرف کے کھلاڑی میدان میں ہیں۔ ایک طرف ریاست تو دوسری طرف سیاست ۔بات ایوان میں ہوتی ہے یا عدالت جاتی ہے، مگر اب کراچی کی میئر شپ کا فیصلہ جلد ہونے جارہا ہے۔