پاک ایران تعلقات کا جائزہ
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست اور دشمن بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں ۔پاکستان اور ایرا ن بھی دونوں ایسے ہمسائے ہیں جن کے تعلقات کو مثالی نہیں کہہ سکتے ۔دونوں کو معاشی مسائل درپیش ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی ورثے میں باہم منسلک ہونے کے باوجودباہمی تعلقات اختلافات سے پاک نہیں۔ حالانکہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران ہے۔ بھلے دونوں مشکل وقت میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک کا پہلا بجٹ شاہ ایران کی مالی مدد سے ہی پیش ہوسکالیکن اِس کے باوجود حکومتی اور عوامی سطح پر تعلقات کا جائزہ لیں تو قابلِ رشک صورتحال دکھائی نہیں دیتی ۔
ایران کا طویل عرصہ بھارت پر انحصار کرنااور نوے کی دہائی میں او آئی سی اجلاس سے غیر حاضرہوکر مسلہ کشمیر پر متفقہ قرارداد پاس نہ ہونے دینا بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔بھارت کی طرف جھکائو سے قریبی تعاون نہ بڑھ سکاخطے میں کبھی ایران بھی امریکہ کا قریبی اتحادی رہا لیکن شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی معزولی کے بعد ایران روس کا طرفدارہو گیا۔مگر پاکستان نے روس کی بجائے امریکہ اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائے رکھے۔ دو حریف قوتوں پر انحصار بھی دوطرفہ تعاون میں کمی کا باعث رہا لیکن اب نہ صرف پاک روس تعلقات بہتر ہورہے ہیں بلکہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی بحال ہو چکے ہیں۔ اسی بنا پر توقع ہے کہ اب پاک ایران تعلقات بہتر ہوں گے اورقریبی تعاون بھی فروغ پائے گا۔
18مئی جمعرات کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سو میگاواٹ گبد۔پولان بجلی ٹرانسمشن لائن کے ساتھ ایک سرحدی مارکیٹ کا افتتاح کیا ۔یہ منصوبے کوئی بڑی لاگت کے نہیں۔ البتہ اِتنا کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک نے چاہے تاخیر سے سہی قریبی تعاون بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کا آغازکردیا ہے۔ اگر تعاون کی رفتار بہتررہی تو ایسی کوششیں خطے کی ترقی اور خوشحالی میں سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہیں جس سے تجارت کو فروغ ہو گا اور دونوں ممالک کے معاشی مسائل میں کمی آئے گی اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ ایسے منصوبوں سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ اگر دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دیں تو بھوک و افلاس اورمہنگائی جیسے مسائل میں کمی ممکن ہے نہ صرف مہنگائی میں کمی آئے گے بلکہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا۔اِس میں شائبہ نہیں کہ دونوں ممالک میں تجارتی حجم ا ستعداد کے مطابق نہیں کم ہے اگر تجارتی حجم استعدادکے مطابق بنانا ہے تو دونوں ممالک کو حائل رکاوٹیں ختم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان اور ایران میںزراعت، تجارت ،سرمایہ کاری اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیںخوش آئند امریہ ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون کے خواہشمند ہیں لیکن یہ خواہش عملی طورپراشیا و خدمات کے حوالے سے خوش کُن نہیں اسی لیے بلند بانگ دعوئوں اور ارادوں کے باوجود تعاون کی رفتار سُست ہے نو سوکلو میٹر طویل سرحد پرپچھتربرسوں میں دونوں ممالک کا پہلی مارکیٹ قائم کر نا اور گوادر کو بجلی فراہم کرنے کے لیے محض سو میگاواٹ کی لائن کا افتتاح ثابت کرتا ہے کہ الفت پر مبنی باتوں کی زمینی حقائق تائید نہیں کرتے۔ اسی لیے وعدوں اور معاہدوں کے مطابق تعاون نہیں اصل میں جب تعاون کی طرف قدم بڑھایاجاتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسی انہونی ہوجاتی ہے جس سے تعاون میں اضافہ کی بجائے ایک قسم کی تلخی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر ماضی میں ایرانی صدر پاکستان کے دورہ پر آئے تومحض دودن قبل بھارتی نیوی کمانڈر کلبھوشن یادیوایک ایسا ہندوستانی جاسوس گرفتار ہوا جس نے دہشت گرد کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ ایرانی راستے سے پاکستان آتاجاتا اور دہشت گردگروہوں سے رابطہ رکھتاہے۔ اب بھی صدر رئیسی نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے ہمراہ سرحد پر مارکیٹ اور بجلی ٹرانسمشن لائن کاافتتاح کیا تو اگلے ہی دن ایرانی سرحدی پرخونریز جھڑپ ہوگئی۔ ایسی جھڑپوں میں پاک ایران سرحدی محافظ اکثر نشانہ بنتے رہتے ہیں جس سے اِس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ دونوں ممالک کے بہتر ہوتے تعلقات سے کچھ طاقتیں خوش نہیں۔ اسی لیے سرحدی محافظوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بہتر ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف سازشوں سے محتاط رہیں بلکہ التوامیں پڑے معاہدوں پر پیش رفت کریں ۔
پیپلز پارٹی نے اپنے گزشتہ دورمیں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے جو پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا تھا ایران اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا لیکن پاکستان ابھی تک ایسانہیں کر سکا ۔حالانکہ ایسا کرنے سے توانائی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں نیز دونوں ملک کوشش کریں کہ ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں تجارت ہو تاکہ زرِ مبادلہ پر دبائو میں کمی آئے۔ سرحدی جرائم بھی خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ باوجود کوشش کہ پرُتشدد واقعات کا سلسلہ تھم نہیں سکا ۔اتوار 21 مئی کو ایران کے شورش زدہ صوبے سیستان اور پاکستانی سرحد کے قریب واقع شہر سراوان میں ہونے والی جھڑپ میں چھ ایرانی گارڈ جا ں بحق ہوئے جس پر ایران نے پاکستان سے دہشت گردگروپوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ۔ایسا ہی مطالبہ ایک سے زائد بار پاکستان بھی کر چکا ہے ایسے واقعات کا تقاضا ہے کہ دونوں ملک مشترکہ سرحد کی سیکورٹی بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کریں۔ اگر امن لانا اورتشددختم کرنا ہے تودونوں ملکوں کو بارڈرمیکانزم پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔
پاکستان کو بجلی اور گیس کی کمی کا سامنا ہے اور یہ قلت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے ایران کی طرف سے بجلی کی فراخدلانہ پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اِس کے عوض ایران کو زرعی اور صنعتی پیداوار برآمد کی جا سکتی ہے پاکستان سے ایران آم ، کینو، چاول ، سیمنٹ اور کپڑا وغیرہ درآمد کرتا ہے جس میں مزید بہتری کی کافی گنجائش ہے۔ اگر دونوں ممالک بلا تعطل تجارتی وفودکا تبادلہ کرتے رہیں اور خطے کی صورتحال کو معاہدوں کی تکمیل میں آڑے نہ آنے دیں تو باہمی تجارت میں اضافہ ممکن ہے۔ تعاون کے وسیع ترامکانات کے باوجوددو طرفہ تجارت بہت کم ہے۔ دونوں ممالک میں سات برس قبل 2016 میں ایک معاہدہ طے پایا کہ 2021تک باہمی تجارت کا حجم تیس کروڑ ڈالر سے بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا لیکن یہ منزل بھی آج تک حاصل نہیں کی جا سکی۔ اب پاکستانی وزیرِ اعظم نے ایرانی صدر کو موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے قبل دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے جو بخوشی قبول کر لی گئی ہے مگر یہ دورہ تبھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب التوا میں پڑے منصوبوں پر کام شروع اور معاہدوں کے مطابق تعاون کی رفتار بہتر ہو2022کے یو این او کی جنرل
اسمبلی کے 77اجلاس کے دران بھی دونوں رہنما ئوں نے ملاقات کے دوران یہ تسلیم کیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان جتنا تعاون ہونا چاہیے ویسا نہیں بلکہ باہمی تجارت معمول سے بھی کم ہے۔ حالانکہ سرحدوں پر نقل و حرکت کے لیے بنائے مقامات پر مشترکہ مارکیٹیں بنانے سے نہ صرف غیر قانونی نقل و حمل ختم کی جا سکتی ہے بلکہ اربوں کا ریونیو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاک ایران تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے صورتحال اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ سرحد پر پہلی مارکیٹ کا افتتاح دونوں ممالک کی قیادت کر چکی۔ مزید ایسی چھ بارڈر مارکیٹیں بنانے کا عزم بھی کیا گیا لیکن عملی طور پر کب ایسا ہو گا، وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سرحدی تجارت بہتر اور مربوط بنانے سے نہ صرف اسمگلنگ کی روک تھام ہو گی بلکہ سرحد کے آرپار رہنے والے لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عزم بھی گیس پائپ لائن کی طرح تشنہ تکمیل رہتا ہے یا عملی طورپر بھی اِس طرف کچھ پیش رفت ہوتی ہے۔
٭٭٭