پہلی امریکا- عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی تذلیل
شیئر کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں ہونے والی پہلی امریکا۔عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں مسلمان رہنماو¿ں پر مذہب کے نام پر تشدد کے خلاف اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا انتہا پسندی کے خلاف جنگ دراصل نیکی اور بدی کی جنگ ہے۔اپنی اہم ترین تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران پر حملہ کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ تہران فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کے لیے ایندھن فراہم کر رہا ہے۔امریکی صدر نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سامنے ایران کو عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی بات بھی کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے درجنوں عرب و مسلم ممالک کے سربراہوں کو کہا کہ وہ امن، محبت اور امید کا پیغام لے کر آئے ہیں، وقت آچکا ہے کہ ہم ہر طرح کی انتہاپسندی کے خلاف ایمانداری سے آگے بڑھیں ۔مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکا آمد پر پابندی عاید کرنے جیسے متنازع فیصلہ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کو تہذیبوں کے درمیان جنگ کے بجائے اچھے اور برے کے درمیان جنگ قرار دیا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پرا پنے ایران مخالف جذبات کو مخفی نہیں رکھا اور اس کا اظہار اس شدت کے ساتھ کیا کہ پوری دنیا میں اسے محسوس کیاگیا اور دنیا بھر میں ان کے ایران مخالف خطاب کو سابق امریکی صدر بارک اوباما کے مقابلے میں زیادہ سخت تصور کیا جا رہا ہے، عام طورپر خیال کیا جا تا ہے کہ بارک اوباما ایران مخالف بیانات دینے کے بجائے سعودی عرب کو ہدایات دیتے رہتے تھے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک ایران نہ صرف دہشت گردی کے لیے فنڈز فراہم کر رہا ہے، بلکہ وہ دہشت گردوں کی تربیت کرنے سمیت انہیں اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔امریکی صدر نے الزام عاید کیا کہ ایران خطے میں افرا تفری پھیلانے اور عدم استحکام لانے کے لیے انتہاپسند گروپ بنا رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان ممالک سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ایرانی حکومت امن کے لیے ساتھ دینے پر رضامند نہیں ہوتی، تب تک تمام ممالک مل کر اسے عالمی تنہائی کا شکار کرنے میں کردار ادا کریں۔اس موقع پر امریکی صدر نے خلیجی ممالک کے ساتھ انتہاپسندی کے خاتمے کے معاہدے کرنے کا اعلان بھی کیا۔اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام دہشت گردی کا حمایتی نہیں ہے، اورامریکا ابھرتے خطرات سے نمٹنے کے لیے پرُ عزم ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سفاک مجرموں اور تمام مذاہب کے مہذب افراد کے درمیان جنگ قرار دیااور کہاکہ، سفاک مجرم معصوم لوگوں کو قتل اور مہذب ان کی حفاظت چاہتے ہیں۔امریکی صدر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکا جنگ نہیں بلکہ امن چاہتا ہے، سعودی عرب دنیا کے بڑے مذہب کی مقدس سرزمین ہے، اوراسے دہشت گردوں کو اپنے علاقوں سے ختم کرناہوگا ۔امریکی صدر کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ دنیا میں امن کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے، اور سعودی عرب میں ہونے والی امریکا، عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کا مقصدبھی یہی تھا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ ہم بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کے خلاف متحد ہیںاور امریکا اپنا طرز زندگی کسی کے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہتا، اور نہ ہی ہم یہاں یہ بتانے آئے ہیں کہ کس کو کس طرح زندگی گزارنی چاہیے، بلکہ ہم ایسا اتحاد تشکیل دینا چاہتے ہیں جس سے ہمارامستقبل محفوظ رہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہی اعتراف کہ ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ امریکیوں کامستقبل محفوظ رہے ۔
پہلی عرب۔امریکا اسلامی سربراہ کانفرنس میں 35 مختلف مسلمان ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہ شامل ہوئے، ان میں سے اکثریت ان ممالک کی تھے، جنہیں سعودی عرب کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔اس موقع پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پوری دنیا کے لیے خطرہ بن چکی ہے، جب کہ اسلام میں ایک مسلمان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے،اس لیے ہم سب کا اس حوالے سے ایک ہی خیال ہے۔ہمیں دنیا میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس ناسور کے خاتمے کی ضرورت اور اہمیت پر کوئی اختلاف نہیں ہوسکتااس حوالے سے سعودی عرب کے شاہ سلمان کی جانب سے امریکا عرب اسلامی کانفرنس کا انعقاد بلاشبہ ایک اہم قدم ہے، تاہم اس کانفرنس میں ایک اہم اسلامی ملک کو کارنر کرنے کی کوشش اور امریکی صدر اور سعودی شاہ کی جانب سے براہ راست اس ملک کی مذمت اسلامی اتحاد کے قطعی منافی ہے، اسی طرح اس کانفرنس میں ایک اہم اور دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے وزیر اعظم کو اس کانفرنس میں بولنے کا موقع نہ دیاجانا ،انہیں اہم مہمانوں کی صف سے الگ ہوکر بیٹھنے پر مجبور کیاجانا کسی طرح بھی نہ تو پاک سعودی روایتی برادرانہ تعلقا ت کے اعتبار سے درست تھا اور نہ ہی سفارتی آداب سے مطابقت رکھتا تھا، اس سے قطعی طورپر پاکستان کی جان بوجھ کر تذلیل کی گئی،یہ صورت حال خود ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کابین ثبوت ہے، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ہم اپنے قریبی دوست ممالک سے بھی اپنی عزت اور احترام کرانے کی اہلیت نہیں رکھتے، یہ ایک بڑا سوال ہے،پاکستان کے عوام جس کامثبت جواب چاہتے ہیں ۔ ارباب حکومت کو بلاتاخیر اس کی وضاحت کرنی چاہیے اور واضح طورپر اس تنازع میں قطعی غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرنا چاہیے۔اگر پاکستان کے اس اعلان سے کوئی ملک ناراض ہوتاہے تو اس کی ناراضگی کی پروا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کی خودمختاری اور وقار کوکسی ملک کی خوشنودی کے حصول پر قربان نہیں کیاجاسکتا۔۔