ایران کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافے پر اتفاق
شیئر کریں
ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی پاکستان کا 3 روزہ سرکاری دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں،پاکستان کے اس 3 روزہ دورے میں، ان کی اہلیہ، ایرانی وزیرِ خارجہ، کابینہ کے ارکان، اعلیٰ حکام اور تاجر بھی ان کے ہمراہ تھے،2021 میں صدر منتخب ہونے کے بعد ابراہیم رئیسی کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھاجسے حالیہ ایران اسرائیل جھڑپ کے بعد خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک اہم دورہ قرار دے رہے تھے۔اس سے قبل مارچ 2016 میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان کا 2 روزہ دورہ کیا تھا اور اب8 برس بعد ایران کے صدر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے پاکستان میں قیام کے دوران صدر آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم شہباز شریف، سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم صفدر،سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ،گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور دیگر رہنماؤں اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور دوطرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ایرانی صدر اور وزیراعظم شہبازشریف نے وزیراعظم ہاؤس کے سبزہ زار میں ارتھ ڈے کی مناسبت سے پودا بھی لگایا،وزیراعظم نے ایرانی صدر اور ان کے وفد کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔ اس کے علاوہ ایرانی صدر لاہور اور کراچی بھی گئے اورپنجاب اور سندھ کی صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے اس دورے کو یادگار بنانے اور پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ رشتوں کی علامت کے طورپراسلام آباد کی ایک شاہراہ کو ایران ایونیو کا نام دے دیا گیا، دونوں شخصیات نے ایران ایونیو کا افتتاح بھی کیا۔
ایرانی صدر اور وزیراعظم کی ملاقات کے بعد وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے بعدازاں دونوں جانب سے8 شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے، دونوں جانب سے وزرا نے باری باری آکر دستخط کیے۔دونوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر میڈیا سے گفتگو بھی کی اور دہشت گردی کے خاتمے سمیت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ فری زون کے قیام کی توثیق کی گئی جب کہ سویلین معاملات میں عدالتی امور پر ایم او یو پر دستخط ہوئے۔پاکستان اور ایران کے درمیان سیکورٹی تعاون کے سمجھوتے، ویٹرنری اور حیوانات کی صحت سے متعلق معاہدے پربھی دستخط ہوئے۔ اس موقع پر پاکستان اور ایران میں تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ہماری بہترین گفتگو ہوئی، ہمارے درمیان مذہب، تہذیب، سرمایہ کاری اور سیکورٹی کے رشتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ تمام شعبوں میں تفصیلی گفتگو ہوئی، ایران اور پاکستان کے تعلقات صرف 76 سال سے نہیں، پاکستان کو سب سے پہلے ایران نے تسلیم کیا۔ جبکہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ دوست اور ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں، پاکستان ایران کے تعلقات کو کوئی منقطع نہیں کر سکتا، آج ہم نے پاک ایران اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو بڑھانے کا عزم کیا۔ایرانی صدر نے مزید کہا کہ دہشت گردی سے لڑنے، منظم جرائم، انسداد منشیات پر پاکستان ایران میں ہم آہنگی ہے، دوست ملکوں میں باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کریں گے، پاک ایران تجارتی حجم 10 ارب ڈالرز تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
خیال کیا جاتاہے کہ ایرانی صدر کا یہ دورہ پاکستان کی موثر خارجہ پالیسی کے اظہار اور پاکستان کے تنہائی کا شکار ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی بھی علامت ثابت ہوگا۔سعودی وفد نے ایس آئی ایف سی کے تحت توانائی، معدنیات، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعمیرات، رینیوایبل انرجی، ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ اور برآمدی شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تجاویز پر بات کی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان ترجیحی تجارت کا معاہدہ 2006سے نافذ ہے۔ پاکستان نے338 اور ایران نے 309اشیا پر رعایتیں دی ہیں تاہم آزاد تجارت کا معاہدہ تاحال نہیں کیا جاسکا ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تین تجارتی گزرگاہیں ہیں، تفتان کے بعد رمدان گبد سرحدی گزرگاہ کا افتتاح 4 برس پہلے اپریل میں کیا گیا تھا۔ یہ کراسنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے 120 کلومیٹر اور گوادر سے صرف70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس طرح گوادرسے ایران کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے میں بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔تیسری بندرگاہ مند پشین کا افتتاح اپریل2021 میں کیا گیا تھا۔صدر رئیسی اور وزیراعظم شہبازشریف پچھلے برس ایران سے 100 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کیلیے ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح بھی کرچکے ہیں۔ایران نے بجلی کی فراہمی مزید بڑھانے کی پیشکش بھی کی ہے۔پاکستان کیلئے یہ ڈیل اس لیے اہم ہے کہ رقم کی ادائیگی ڈالر میں کرنا نہیں پڑتی۔دونوں ملک باہمی تجارت کا دائرہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، بجلی وتوانائی اور دیگر سیکٹرز میں مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ایران کے سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم کے بقول دونوں ملک ایک دوسرے کی ضروریات کا 70 فیصد پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ باہمی تجارت کاحجم ڈھائی ارب ڈالر سے بڑھا کر 10 ارب ڈالر کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے۔تاہم باہمی تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بینکنگ چینلز کا نہ ہونا ہے، فی الوقت یہ تجارت بارٹر یا دیگر کرنسیز میں کی جارہی ہے، اس ضمن میں ایران، ترکی،ایران بحرین اور ایران عراق بینکنگ ماڈلز کو دیکھ کر حکمت عملی بنائی جائے تو تاجروں کو سہولت مل سکتی ہے۔بینکنگ چینل کے قیام سے غیر قانونی تجارت کی بھی حوصلہ شکنی کی جاسکے گی۔
عالمی صورتحال کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت اپنی جگہ،علاقائی سطح پر بھی اس دورے کو کئی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔دہشتگردی سے نمٹنا دونوں ملکوں کیلئے چیلنج ہے۔علاقے میں موجود دہشتگرد تنظیمیں اور افغانستان سے سراُٹھاتی داعش پاکستان اور ایران دونوں ہی کیلیے خطرہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں نے تربت اور زاہدان میں لائزن آفیسر تعینات کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس تعاون بڑھایا جاسکے۔پچھلے ایک عشرے کے دوران پاک ایران فوجی روابط میں بھی بہتری آئی ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایران کا دورہ کیا تھا جس میں اسٹریٹیجک ماحول، دفاع، سیکورٹی اور اقتصادی تعاون پر بات کی گئی تھی۔ایسے ہی قریبی روابط کی بدولت چنگاریوں کو بھڑکتی آگ میں تبدیل ہونے سے بچایا جاتا رہا ہے۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ ایرانی صدر کا یہ دورہ پاک ایران باہمی تعلقات کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا دورہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا اہم موقع فراہم کرے گا۔ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورے کا ایجنڈا باہمی اعتماد سازی اور تعاون کا فروغ ہے۔ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا دورہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا اہم موقع فراہم کرے گا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورے کا ایجنڈا باہمی اعتماد سازی اور تعاون کا فروغ ہے۔ پاکستان کے تین روزہ دورے پر روانگی سے قبل تہران میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے کہا تھاکہ پاکستان ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان عوامی اور حکومتی سطح پر تاریخی تعلقات قائم ہیں، ماضی سے آج تک پاکستان اور ایران میں بہت اچھے سیاسی، اقتصادی اور مذہبی تعلقات ہیں۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ مختلف عالمی مسائل پر ایران اور پاکستان مشترکہ موقف رکھتے ہیں، انسانی حقوق، فلسطین، انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان اور ایران کا مشترکہ موقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران متعلقہ امور پر ایک د وسرے سے تعاون کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں سرحدی معاملات و تجارتی امور کے علاوہ پاک ایران کے درمیان اہم ترین منصو بے گیس پائپ لائن پر بھی بات کی گئی ہے۔یہ منصوبہ ہماری مصلحت کوشی کے سبب سالہا سال سے منجمد پڑا ہے ہم اس حوالے سے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جو اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایران نے منصوبے پر اپنے حصے کا کام ختم کر لیا ہے لیکن ہم شروع بھی نہیں کرسکے۔ منصوبے پر کام شروع نہ کرنے کے بارے میں اطلاعات کے مطابق ہمارے حکمرانوں نے یہ عذر تراشا تھا کہ ہمارے پاس اس منصوبے کیلئے وسائل اور رقم موجود نہیں،جس پر ایران نے ہمارے حصے کے کام کیلئے رقم بھی فراہم کر دی تھی لیکن مبینہ طورپر ہم وہ بھی ہڑپ کر گئے اور گیس پائپ لائن منصوبے پر پھر کام شروع نہیں کیا۔ اس طرز عمل کو سامنے رکھ کر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایران ہمیں مزید کوئی اقتصادی پیشکش کرے۔اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کی اہمیت کے باوجود دور ے کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد سے امریکہ، بھارت، سعودی عرب، روس اور چین ایک ایک پل کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نبض پڑھنا چاہ رہے ہیں۔اس لئے پاکستانی حکام کو ہر فیصلہ انتہائی سوچ سمجھ کر اس کے مضمرات پر نظر رکھتے ہوئے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو یہ ملک ہمیشہ سے اس خطے کا اہم ترین ملک تصورکیا جاتارہاہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ایران پر اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے تھے اورایران کو اس خطے میں امریکہ کا قریب ترین ساتھی اور مضبوط حلیف کا درجہ حاصل تھا۔ امریکہ سے جب بھی کسی ملک کو کوئی مدد یا سہولت درکار ہوتی تو اسے پیغام ملتا کہ آپ ہمارے دوست ایران سے بات کریں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پالیسیاں تبدیل ہوئیں، ایرانی قیادت دنیا کی واحد قیادت ہے جس نے امریکہ کی مسلم دشمن پالیسیوں کے سبب امریکہ سے دوری اختیار کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ کوئی اور اسلامی ملک مصلحتوں سے آزاد ہو کر یہ فیصلہ نہیں کر سکا اور اس سے نہ صرف اپنا بلکہ امت مسلمہ کا بے حد نقصان کیا۔ ایران نے امریکہ کی بالا دستی تسلیم نہ کرنے سے متعلق اپنے اس فیصلے کی بہت بھاری قیمت ادا کی لیکن ایران کی تمام حکومتوں اور عوام کو اس پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ ان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، پوری دنیا اور امریکی و یہودی حلیفوں نے ایران سے دوری کر لی لیکن ایران نے ان پابندیوں میں جینا سیکھا اور پابندیوں کے باوجود جو ترقی کی اور زندگی کے ہر شعبہ میں خود انحصاری کی منزل حاصل کی۔ آج ایران کسی کا مقروض نہیں۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان ایسے حالات میں ہواہے جب یہ خطہ جل رہا ہے، اسرائیل فلسطین پر دن رات بمباری کر رہا ہے، امریکہ اور یورپ اس کے ساتھ ہیں اسے مالی اور فوجی امداد دھڑا دھڑ مل رہی ہے لیکن کسی اسلامی یا یورپی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ فلسطینیوں کی کوئی مدد کر سکے۔ ہرحق یہودیوں کیلئے ہے، فلسطینیوں کیلئے امریکہ کے نزدیک کوئی حق نہیں حتیٰ کہ انہیں جینے کا حق دینے کیلئے بھی تیار نہیں۔ ان نامساعد حالات میں پوری دنیا کو چاہئے کہ اس دورے کو دو طرفہ دورے کے تناظر میں ہی دیکھے اور اس دورے کے بارے میں غلط حاشیہ آرائیوں سے گریز کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔