غلط آدمی سبق صحیح دیتا ہے!
شیئر کریں
امریکی فوج کے سابق برگیڈئیر سرجن ڈاکٹر راشد بٹر نے کورونا وائرس کے پیچھے جس کھیل کی نشاندہی کی ہے، اس میں بل گیٹس، امریکا کے ڈاکٹر فوکی اور فارما مافیا کا کھیل بھی منکشف ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کھیل اپنی اصل میں کتنا ہی کثیر الجہت ہو، مگر ویکسین کے دھندے کو اس میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر راشد بٹر ایک بنیادی بات کرتے ہیں کہ سائنس بدعنوان ہورہی ہے، اور وہ اصل بات نہیں بتا رہی۔
اس پورے کھیل پر غور کریں تو ایک بات سورج کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ کورونا وائرس کے خوف میں جاری لاک ڈاؤن کی رات کو دراصل ایک ویکسین کے انتظار میں طویل کیا جارہا ہے۔ کیا یہ ویکسین کوئی حل ہے؟اعدادو شمار ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ کس طرح کووڈ۔19 کو خطرناک ثابت کرنے کے لیے دیگر امراض میں مبتلا لوگوں کو اس میں شامل کیا جارہا ہے، کس طرح موت کے سرٹیفکیٹ میں وجوہات کا تعین کرتے ہوئے طبی بددیانتی کی جارہی ہے۔ غلط تشخیص سے غلط اعداوشمار حاصل کرکے جو ایک خوف ناک ماحول بنایاگیا ہے، اس کے باوجود کووڈ۔ 19سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں کووڈ۔19 کے مصدقہ مریض 10513 ہیں، جس میں دیگر بیماریوں کے شکار مریضوں کی غالب تعداد کو شامل کرنے کے باوجودصرف 222 اموات ہوئی ہیں۔ جبکہ اب تک صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 2337 ہے۔ دنیا بھر میں کووڈ۔ 19 کے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد کا تناسب اسی فرق کے ساتھ ہے۔ چین کورونا وائرس کے حوالے سے ایک بڑا ہدف رہا ہے یہاں تک کہ کورونا وائرس کو امریکی صدر نے چینی وائرس تک قرار دیا۔ چین کی اتنی بڑی آبادی میں کورونا وائرس کے شکار مریضوں کی تعداد 82,798 ہے۔چین میں اب تک مجموعی طور پر 4,632 ہلاکتوں کو کورونا وائرس کی ہلاکتوں میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ صحت یاب لوگوں کی تعداد 77,207 ہے۔ ذرا تناسب پر توجہ دیجیے۔دوسری طرف چین نے ووہان سمیت تمام متاثر ہ علاقوں میں عملاً لاک ڈاؤن ختم کرکے معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنا شروع کردیا ہے، اس کے باوجود چین میں کورونا وائرس کے شکار ہونے والے افراد کی روزانہ تعداد کسی طور دس سے نہیں بڑھ رہی۔ کووڈ۔19 کے مریضوں کے متاثر ین، مہلوکین اور صحت یاب ہونے کے اعدادوشمار انتہائی حوصلہ افزا اور کسی خوف وخطر میں مبتلا کرنے والے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں بل گیٹس، ڈبلیو ایچ او اور ان کے زیراثر ویکسین کے کاروبار میں مجرمانہ طور پر ملوث ہونے والے ایک مسیحا کی آمد کی طرح”ویکسین“ کا انتظار کروا رہے ہیں۔ بل گیٹس گمراہ کن طریقے سے دنیا کو یہ باور کرارہا ہے کہ اب عالمی معمولات ویکسین سے پہلے بحال نہیں کیے جاسکیں گے۔ اس فراڈ پر غور کرنے کے لیے دنیا بھر میں قومی ریاستیں تیار نہیں۔
بات صرف اتنی بھی نہیں کہ ڈبلیو ایچ او اور بل گیٹس پوری طبی دنیا کے سامنے ویکسین کو ایک واحد حل کے طور پر مسلط کرارہا ہے۔ بلکہ سفاک مافیا کے اکٹھ کے ساتھ یہ ٹولہ طبی دنیا کو گمراہ کن راستوں پر بھی ڈال رہا ہے۔مثلا ڈاکٹرراشد بٹرایک سیدھا طبی راستا بتا رہے ہیں کہ ”سیلینیم کسی بھی کورونا وائرس کی پیدائش پر ہی قابو پانے والی گولی ہے“۔(اس کی طبی وجوہات گزشتہ کالم میں بیان کردی گئی تھی)مگر طبی دنیا مجرمانہ طور پر طبی حقائق کو چھپانے میں بھاگیدار بن رہی ہے۔ عالمی گرفت میں رہنے والے مرکزی میڈیا پر کورونا وائرس کے شکار ہونے سے بچانے کے لیے قوتِ مدافعت کو بہتر رکھنے کے مشورے کہیں پر بھی نہیں ملتے۔ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ایک ویکسین کے مایوس کن تلاش کے متعلق لامتناہی نشریات ہیں۔ ایک ایسی ویکسین کی تشہیر جاری ہے، جو ایک ایسی مشتبہ وبائی بیماری کا خاتمہ کرے گی، جو پہلے سے ہی عام علاج میں بھی بآسانی اور بہترین تناسب سے ختم ہور ہی ہے۔ کوئی اس احمقانہ طرزِ عمل کی منطق تو پیش کرے۔ جبکہ دنیا بھر کے باضمیر معالجین اور طبی تحقیق سے وابستہ لوگ یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کووڈ۔19 سے پیدا کیے گئے خوف اور لاک ڈاؤن کے علاوہ اس میں ایسا کیا ہے کہ ”ویکسین“ کو واحد حل کے طور پر مانا جائے۔ ڈاکٹر راشد بٹر نے اس میں ایک ایسا تناظر پیدا کردیا ہے کہ یہ پوری مافیا اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اب عجلت دکھانے لگی ہے۔ ہمیں ابتدا میں بتایا جارہا تھا کہ کوروناوائرس کے لیے ویکسین ستمبر سے پہلے مارکیٹ میں نہیں آسکے گی۔ تمام شواہد تصدیق کرتے ہیں کہ ابتدائی منصوبہ یہی تھا۔ بوڑھے اور کمزور مرنے دیے جائیں۔ عالمی معیشت کو پگھلنے دیا جائے۔ قومی ریاستوں کو لاغر ہونے دیا جائے۔افراد کی سطح پر ہی نہیں مملکتوں کی سطح پر بھی مزاحمت کو ختم کردیا جائے۔ ہانپتے کانپتے، سسکتے بلکتے لوگ ایک ایسا خوف پیدا کریں گے جو ویکسین کی مارکیٹ کو گلوبل بنائے گا۔ سب کچھ ٹھیک جارہا تھا۔ مگر دنیا میں ڈاکٹر راشد جیسے کچھ”ٹیڑھے“ لوگ اور چین جیسی کچھ”ٹیڑھی“ ریاستیں بھی تو ہوتی ہیں۔ جو اپنے کام کرتے رہتے ہیں۔مثلا ڈاکٹر راشد اور ان جیسے بے شمار معالجین یہ بتارہے ہیں کہ کووڈ۔19 کے مریضوں کے لیے کسی نئی ویکسین کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ دوسری طرف چین نے کووڈ۔19 کے خلاف ایک ویکسین تیار کرنے کانہ صرف دعویٰ کردیا بلکہ اس کے آزمائشی تجربات بھی شروع کردیے ہیں۔ متوازی طور پر یہ ساری کوششیں بل گیٹس کے منصوبے کے لیے خطرات پیدا کررہی ہیں جو ایک ایسی ویکسین کو کووڈ۔19 کی آڑ میں گلوبل ضرورت کے طور پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کے مقاصد میں دنیا کو کنٹرول کرنے کے علاوہ آبادی کم کرنے کا اوچھا اورگھٹیا نظریہ بھی شامل ہے۔ بل گیٹس، ڈبلیو ایچ اواور بڑے مافیائی اکٹھ کے جدلیاتی کشاکش کے ماحول میں یہ متوازی کوششیں جوابِ دعویٰ(anti thesis) بن کراُبھری ہیں۔ ظاہر ہے اس ماحول میں مافیا کو عجلت دکھانی پڑ رہی ہے۔
بل گیٹس نے دنیاکوغلط طور پر یہ باور کرادیا ہے کہ کورونا وائرس کا واحد حل ویکسین ہے۔گیٹس عجلت میں اشارہ کررہے ہیں کہ اب عمل درآمد کا وقت آگیا۔ چنانچہ دنیا کے امیر ترین جی۔20ممالک آگے بڑھیں اور اس عالمی مدافعتی منصوبے کی طلب ورسد پر بات کریں۔ دوسری طرف کم دلچسپی اور متبادل ذرائع میں دلچسپی کا رجحان صاف نظر آتا ہے۔ اب یہ ایک کھینچا تانی کاکھیل ہے۔وقت کے دونوں دباؤ میں ہے۔ گیٹس کو منفی طور پربرتری حاصل ہے۔ اُسے دنیا وبائی امراض کے خطرناک کھلاڑی کے طور پر شناخت کرتی ہے، یہی منفی شناخت متضاد طور پر اُسے ویکسین کے لیے ایک اعتماد بھی مہیا کرسکتی ہے۔اوپر کی گئی بحث کے تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ اعتماد قابلِ جواز ہے۔ اس سوال کو جواب زیادہ واضح الفاظ میں سمجھنے کے لیے ہمیں ویکسین سے جڑے گیٹس کے منصوبے میں شامل اُس اکٹھ کے طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا، جو وہ ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر ایک عالمی صحت کی پالیسی کو کنٹرول کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ اس میں مالی اعانت کا نظام بھی دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ اس موضوعاتی جہت کو آئندہ پر اُٹھاتے ہوئے ابھی اس خبر سے لطف اندوز ہوں کہ دنیا جب کورونا وائرس کے مسئلے پر انتہائی خوف زدہ حالت میں اپنے معمولات ترک کرکے مستقبل کے اندیشوں میں جی رہی ہے تو بل گیٹس نے کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں 5,800 مربع فٹ پر محیط ساحل سمندر پر سب سے مہنگی جائیداد خریدی ہے، جسے اس علاقے میں اب تک کا سب سے بڑا سودا قرار دیا جارہا ہے۔گزشتہ روز وال اسٹریٹ جرنل نے یہ خبر شائع کی تو کچھ حلقوں میں اِسے حیرانی سے پڑھا گیا۔ اپنے ذہنوں میں مختلف قسم کے خناس پالنے والے لوگوں کی یہی نفسیات ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم الگ ہیں۔ شہرہ آفاق انگریز شاعر اور ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر یہاں پھر مدد کو آتے ہیں:ہمیشہ غلط شخص آپ کو زندگی میں صحیح سبق دیتا ہے“۔ اس سبق پر دھیان دیں اور لاک ڈاؤن کے مسئلے کو اپنی ضرورتوں کے تحت دیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔