میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کچھ ہوش جو آیا تو ”پاناما“نہیں دیکھا

کچھ ہوش جو آیا تو ”پاناما“نہیں دیکھا

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

کہتے ہیں جس کو شیام (امریکا) وہ آنند، قند(شریں) ہے
جگ میں اسی کے دھرم (اسٹیبلشمنٹ )کی پھیلی سوگند(خوشبو)ہے
لیلا ، رچانے والا وہی کشن چند ہے
چھتیس لاکھ راگنی مرلی (عرب ممالک) میں بند ہے
ہم کو تو مرلی والے کی مرلی پسندہے
نہ میں جانوں آرتی بندھن(عمران خان)
نہ پوجا کی ریت
میں انجانی، درس (دید) دیوانی
میری پاگل پریت
مصلح الدین خان ہمارے سسرالی عزیز ہیں۔ بارہ بنکی (یوپی ) ہندوستان سے تعلق ہے۔ آبا و اجداد کے زمانے سے ہی یعنی پوتڑوں کے رئیس ہیں جس کا ترجمہ سیالکوٹ کی بعض Nouveau riche (نوے ریچ ۔نئی دولت مند) اربہا پتی( اعتزاز احسن ایسے ہی ارب پتی بولتے ہیں) فربہ اندام بیبیاں یہ کرتی ہیں کہ "We were rich from behind” ۔
کل شام ان بزرگ بیش بہاکے ہاں ون ڈش پارٹی تھی۔ملک بھر کو پاناما فیصلے کی چوٹ لگے دو دن ہوگئے تھے، مگر درد تھا کہ تھم تھم کے اٹھتا تھا ۔ہمارے لیے حکم تھا کہ دیگر مہمانوں سے گھنٹہ بھر پہلے آئیں۔یہاں ڈیفنس میں ہی دوہزار گز کے بنگلے میں یوں قیام پزیر ہیں کہ چاروں تاجربیٹے بھی ساتھ ہی رہتے ہیں۔ارد گرد کی تین گلیوں میں تین عدد شادی شدہ صاحبزادیوں کا بسیرا ہے۔پان قوام والا کھاتے ہیں۔ہم ان کو رجھانے کے لیے پان کے دس بارہ بیڑے ان کی من پسند دُکان سے بنواکر لے جاتے ہیں ۔اس دلداری پر وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے بالائی منزل کے کمرے کی ٹریس پر پین گے(سندھی جھولے) میں نشست کے ساتھ شیشے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ گفتگو کے دریا بہتے رہتے ہیں۔ پاناما فیصلے کے کاتب ہمارے محترم جسٹس اعجاز افضل خان کی طرح حضرت مصلح الدین کا مطالعہ انگریزی ادب بھی متاثر کن حد تک وسیع ہے۔
ہم جاکر بیٹھے ہی تھے کہ ملازم کی چائے سروس کی نگرانی کرتی ان کی سندھی بہو رافعہ آگئی۔پوچھ رہی تھی©” ابا حضور آپ نے دوپہر کو ٹھیک سے ماحضر تناول فرمایا تھا۔انکل اگر پان لانا بھول گئے ہوں تو بندی کا ڈرائیور فارغ ہے ابھی دوڑادیتی ہوں۔آن کی آن کھڈامارکیٹ سے لے آئے گا“اہل سندھ میں سماجی رکھ رکھاﺅ بہت ہوتا ہے۔ مہمانداری میں سارے پاکستان میں ان کا ہمسر کوئی اور نہیں۔قاعدے قانون کی ایسی تیسی ،تعلقات کی بلّے بلےّ۔ہمارا ٹھٹھہ والا سندھی ڈائریکٹر کہا کرتا تھا کہ قاعدہ قانون، القاعدہ کو بہت آتا تھا۔ دیکھو امریکا نے اس کا کیا حال کیا۔بابا رواج بڑی چیز ہے۔ آدمی دیکھو فیصلہ کرو۔ اللہ سائیں تمہارا گناہ نہیں دیکھے گا تمہارے پیر کا چہرہ دیکھ کرفیصلہ کرے گا۔
رافعہ کا تعلق شکار پور کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو کھینچ کھانچ کر اپنا سلسلہ¿ نسب میر شیر خان ٹالپر سے جوڑتی ہے۔ہماری بیٹے اسے تنگ کرنے اکثر چھیڑتے ہیں کہ تیرے بڑے میانی کی جنگ میں17فروری 1843 کو وقت پر پہنچ جاتے تو جنگ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔وہ برا نہیں مانتی۔کہتی ہے اس وقت الارم نہیں تھا جس پر اس کا میاں کہتا ہے کہ دیسی شراب کا Hang over بھی لمبا ہوتا ہے۔ہم نے اس کی اردو گفتار پر خوش گوار حیرت کا اظہار کیا۔ سسر کہنے لگے ہمارے میاں علیم الدین کو یہ فلوریڈا کے ڈذنی ورلڈ میں ملی تھی۔ اس کے والدین وقتی طور پر کیا کھوئے میاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مل گیا۔ہماری اہلیہ بھی اس کی دلجوئی اور دل داری پر فریفتہ ہیں۔ مگر مجال ہے رافعہ خودکبھی کچن کا رخ کرے یا گھر کے کسی کام کو ہاتھ لگائے۔ہم سمجھاتے ہیں کہ بھئی حکمران خاندان کی ہے ستر برس کا رام ہے کلمہ پڑھنے سے نہیں جائے گا۔اس کی Social Skills کی داد دو۔
مصلح الدین صاحب پاناما کے فیصلے پر دل گرفتہ تھے۔کچھ دیر پہلے عابدہ پروین کی ٹھمری اپنے آئی پیڈ پرو پر سُن کر بیٹھے تھے ۔کہنے لگے کہ اقبال میاں فیصلہ ایسا ہے کہ ع
من میں راکھوں تو مورا من جلے
کہوں تو مکھ جل جائے
جیسے گونگے کو سپنا بھیﺅ
سمجھ سمجھ پچھتائے
باجو باجو بند کھل کھل جائے
ہم نے پوچھا” ایسا کیسے؟“ تو کہنے لگے کہ وہ جو فیصلے میں اظہار علمیت کے لیے بالزاک کا قول پورا نقل کردیاہے۔ اس سے فیصلے کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے ۔کہنے لگے کہ اگر جملہ من و عن ویسے ہی نقل ہوتا جیسا گاڈ فارد کے آغاز میں ماریو پوزو نے کیا یعنی
Behind every great fortune there is a crime. – Balzac(ہر خوشحالی کی پشت پر جرم چھپا ہوتا ہے) تو انگلی شریف خاندان کی جانب اٹھتی۔گاڈ فاد ر کا مصنف ماریو پوزو نے جب مافیا کے باس ڈان کارلیونے کی زندگی پر یہ ناول لکھا تو اس نے اس کی مکمل حیات قبیحہ کو اس ایک جملے میں سمیٹ دیا تھا۔ ان کے نزدیک بدقسمتی یہ ہوئی کہ فاضل جج صاحبان پھربالزاک کے قول کی جانب بڑھ گئے کہ
Le secret des grandes fortunes sans cause apparente est un crime oublié, parce qu’il a été proprement fait.
(The secret of a great success for which you are at a loss to account is a crime that has never been found out, because it was properly executed)
(آپ اگر اپنی خوش حالی کے اسباب نہ بتاسکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جرم کا ارتکاب بڑی مہارت سے کیا گیا ہے) تو ہمیں لگا کہ عدالت جرم کے بارے میں حتمی رائے تک پہنچنے کے بارے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کررہی ہے۔ بالزاک کا یہ جملہ اس کی کسی کتاب میں نہیں ملتا مگر اس کو بڑے تواتر سے اسی سے منسوب کیا جاتا ہے گو یہ جملہ یوں بھی بیان ہوا ہے کہ
The secret of a great fortune made without apparent cause is soon forgotten, if the crime is committed in a respectable way.
(لوگ بڑی کامیابی کے اسباب جلد ہی بھول جاتے ہیں جب جرم مہارت سے کیا گیا ہو)۔
سیدنا مصلح الدین صاحب ہماری طرح ڈاکٹر شاہد مسعود کے بڑے دلدادہ ہیں۔وہ انہیں چار سو پھیلے مایوسی کے اندھیروں میں امید کا ٹمٹماتا آخری چراغ سمجھتے ہیں۔
ان کی بہو رافعہ جو جنگ میانی کے شہدا کے لیے ہر ہر نوچندی (نئے چاند ) جمعرات کو فاتحہ کراتی ہے۔ اس میں سسر کے ایماءپر ڈاکٹر شاہد مسعود کو عزیر بلوچ،نثار مورائی، ڈاکٹر عاصم،نیب اور ایف آئی اے کے ابھارتی را اور داعش کے حملوں اور ماڈل ا یان علی کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مسجد سے بلوائے ہوئے بچوں کے ذریعے خصوصی دعا منگوائی جاتی ہے۔رافعہ اس موقع پر ان گنجے بچوں کے سر پر اپنے ہاتھ سے بادام کا تیل ملتی ہے۔یہ میمن گجراتیوں میں عام رواج ہے۔ان کے ہاں تیل بغیر کے بال، ویرانی اور مفلوک الحالی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ رافعہ کے نرم و سجیلے ہاتھوں سے تیل ملتے وقت بعض بچوں کو ایسا سرور محسوس ہوتا ہے کہ ان پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ایسے میں وہ انہیں دنیائے حقیقت میں واپس لانے کے لیے سر پر ایک پیار بھری چپت مارتی ہے جسے وہ ٹاپلی کہتی ہے۔
ہم مصلح الدین صاحب کو جتلاتے ہیں کہ ایک توشاہد مسعود کی اردو سن کر ہمیں تو برین ہیمریج ہوجاتا ہے۔اس قدر محدود Diction سے اتنے برسوں تک ایک اردو میڈیم میزبان سامنے بٹھا کر ایک اجڑے ہوئے وارڈ۔ روب والا اینکر کیسے یہ پروگرام کرسکتا ہے۔ جب کہ یہ پروگرام خالصتاًنون پی پی پی اور لیگ والوں کے حساب سے ان کی خواہشات کا بیانیہ ہو۔اس پر اپنی پسند کا جوازبہم پہنچانے کے لیے مصلح الدین کہنے لگے کہ ایک شخص زلزلے سے محفوظ رہنے کے کیپسول بیچا کرتا تھا ۔ علاقہ چونکہ عمران خان کی طرح ہر وقت فالٹ لائن پر واقع تھا،لہذا کیپسول کی خوب بکری ہوتی تھی۔ اللہ کی کرنی یوں ہوئی کہ زلزلہ آیا اور وہ بھی مرگئے جو باقاعدگی سے کیپسول خرید خرید کر ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر اور تندوری مرغی اور کرنیہ کپور کے ساتھ فیو ی کول گاگا کر گھٹکاتے تھے۔مقدمہ درج ہوا۔عدالت میں پیشی ہوئی۔فاضل جج نے پوچھا کہ” کوئی شخص کیپسول کھاکر زلزلے سے کس طرح خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے؟ “ملزم مسکرایا عدالت کے چاروں طرف منڈلاتے عرب دوستوں، امریکیوں،سابقہ ریٹائرڈ جج صاحبان ، حاضر سروس فوجی رشتہ داروں اورکاروباری حوالہ داروں کو طرف دیکھا اور کہنے لگا:
"My Lord! But what is the alternate?”
مولانا ( مولیٰ Lordانا my۔درست ترجمہ یہی ہے) ،اس کا نعم البدل کیا ہے؟
مصلح الدین صاحب کو فیصلے کے بارے میں اس لیے بھی شکوک و شہبات ہیں کہ شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں انکشاف کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ڈارلنگ رپورٹر انتہائی قابل احترام عبدالقیوم صدیقی نے حامد میر کو سترہ فروری یعنی فیصلے سے دو ماہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فیصلہ دو تین کی ترتیب سے آرہا ہے۔ان کے علم میں اس حوالے سے کچھ اور بھی باتیں تھیں مگر ع وہ ہنس دیے، وہ چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا کے مصداق۔ وہ فرماتے ہیں کہ روزنامہ نوائے وقت کی صفحہ¿ اوّل کی خبر ہے کہ شرفاءفیملی بھی اس حوالے سے بہت خوش تھی کیوں کہ باجی مریم نے ایک رجائیت بھرا ((Optimisticٹوئیٹ فیصلے کے حوالے سے کردیا تھا۔مصلح الدین اس حوالے سے جنرل غلام مصطفے ریٹائرڈ کے ایک ٹوئیٹ کا بھی تذکرہ چھیڑ بیٹھے جس میں موصوف رقم طراز ہیں ”پاکستان مشرق وسطیٰ کی ریت کے گڑھوں میں کھلی آنکھوں سے چھلانگ لگا رہا ہے۔امریکا نے ہمیں ایک اور مرتبہ جکڑلیا ہے۔کیا امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نواز شریف کے حق میں اثر انداز ہوئے“۔جنرل صاحب گرگ باراں دیدہ ہیں ۔اس پورے معاملے میں انہوں نے اپنے پیٹی بند بھائی جنرل راحیل کا کوئی ذکر نہیں کیا جن کی وجہ سے مصلح الدین کا خیال ہے کہ مال کے بدلے مال کا یہ تبادلہ ہوا اور جنہیں لینے اگلی صبح ہی ارض مقدس سے ایک اڑن کھٹولا پہنچ گیا۔وہ کہہ رہے تھے کہ پچھلے چند دنوں سے مختلف وفود ثوب سنبھالتے ہوئے اسلام آباد پہنچ رہے تھے اور مرے کو مارے شاہ مدار آخر میں بھارت کی شہ پر امریکی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر،ماسٹر فوم کی لائف ٹائم گارنٹی کے ساتھ پہنچ گئے۔بھارت کا ہماری جمہوریت میں بہت بڑا انویسٹمنٹ ہے۔
ہم نے یہ سب گفتگو سن کر ان کی دل جوئی کی خاطر جتلادیا کہ اعلیٰ حضرت دل پر اس قدر غم پالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔خلفائے راشدین کے بعد (کچھ استثناءکے ساتھ )جتنے بھی مسلمان حکمران ہوئے وہ اتنے ہی اچھے اور بُرے تھے جتنے ،اسٹالن ،کلنٹن ، مودی،ٹرمپ اور حسینہ واجد ہیں۔کہنے لگے ہاں مملکت مسلمانان میں پھیلاﺅ تو بہت آیا سلجھاﺅ نہیں۔ مگر دل کا کیا کروں ۔اب کی دفعہ پاناما کیس میں مجھے ایک بے دراڑ (Water-Tight) حتمی(Conclusive) اوردھاڑتے (Speaking ) ہوئے فیصلے کی توقع تھی۔ہم نے دھاڑس بندھائی کہ ابھی تو میرے دوست سلطان راہی والی ایک جے آئی ٹی باقی ہے۔ان بدعنوان اورلٹیرے حکمرانوں کو کرچی کرچی کرڈالے گی۔مصلح الدین زچ ہوکر کہنے لگے ۔ آپ بھی نا ع آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں۔کمیشنوں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کا احوال تو آپ کو پاکستان میں معلوم ہی ہے۔ ع کس کو خبر ہے میر سمندر پار کی۔ہمیں نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے ماریو پوزو سے بہتر تھا کہ وہ بتاتے کہ انگریزی زبان کا محاورہ ہے passing the buck, (اپنی ذمہ داریاں کسی اور کے سر ڈالنا )۔وہ کم بخت امریکی صدر ہیری ٹرومین تھا جس کے حکم پر ایٹم بم گرایا گیا تھا وہ اپنی میز پر تختی سجا کر بیٹھتا جس پر درج تھا کہ The buck stops here۔اب یہ صرف میری ذمہ داری ہے۔ عدلیہ بھی سینہ ٹھوک کر کہتی کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ تمہاری سب کی ایسی کی تیسی۔ہمیں میڈیا اور خود سے تمہارے محلات اور معمولات کا علم ہے۔ہم دیکھیں گے۔اب کی دفعہ ہم وہ کریں گے جو امریکا میں کہا جاتا ہے کہ Let Court Bend the Mountain( چلو کورٹ تمہیں پہاڑ موڑ کر دکھاتی ہے)
ہم نے مزید تسلی دی کہ جن جج صاحبان نے وزیر اعظم کو کاری(کارو کاری سے بمعنی بدکار ) قرار دیا ہے وہ مستقبل کے چیف جسٹس ہیں اللہ اور عدلیہ سے خوش گمان رہا کریں۔وہ روہانسے ہوکر کہنے لگے۔ میرے بچے ، میرے نونہال ہم بوڑھے لوگ بہت اتاو¿لے (جلد باز) ہوتے ہیں۔جے آئی ٹی کی وجہ سے معاملہ لٹک سا گیا ہے۔انہوں نے جن جن سول سرکاری ملازمین کو خراب کہا ان کو آنکھ مار کر چھوڑ دیا ۔میں رافعہ اور بیٹے علیم کو دیکھتا ہوں تو ضد کرتا ہوں کہ ایک پوتا کم بختو میرے سامنے پیدا کرلو پھر بھلے اپنی مرضی چلانا۔رافعہ کو میں نے یقین دلایا ہے کہ پوتا پہلی دفعہ قدم اٹھائے گا تو میں خود جشن کے طور پر مور تو ٹِلّے رانا والے لوک گیت پر پوتے کے سامنے ناچوں گا۔بے چاری چپ ہوجاتی ہے۔میری بھی خواہش تھی کہ پاناما پر ایسا دھڑلے والا فیصلہ آتا کہ ساری منتظر قوم سڑکوں پر مور تو ٹِلّے رانا ناچتی۔مگر وہاں سے تو وہ صوفی تبسم کے شعر کی تفسیر والا فیصلہ آیا کہ ع
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
”ایک شیخ رشید کے“ دل کو شکیبا نہ کرسکو (اصل شعر ایک دل کو)
گفتگو جاری رہتی مگر ہم نے نظر دوڑاتے ہوئے دیکھا کہ گُل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام اور چشمہ¿ ماہتاب سے دُھل کے رات نکل رہی ہے۔سامنے بحیرہ¿ عرب کا گدلا سمندر پچھلی راتوں کی چاندنی کی گود میں سمٹ گیا تھا۔اتنے میں رافعہ کی آشا کی طرح کھنکناتی ہوئی آواز سیڑھیوں پر گونجی” ابا حضور، آجائیے،دستر خوان لگ گیا ہے۔“ سیڑھیاں اُترتے ہوئے رافعہ کی زلف ِموہوم کی گھنی چھاﺅں میں ہم نے جو آویزہ ٹمٹماتا دیکھا اسے آواز مل جاتی تو وہ میرا بائی کا یہ بھجن سسر کے جذبات کی ترجمانی میں گاتا
بھیگی رات
تارے مرجھائے
سسک سسک گئی رین(رات)
بیٹھی سونا پنتھ(راستہ) نہاروں(دیکھوں)
جھر جھر برست نین


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں