زباں بندی آخر کب تک؟
شیئر کریں
ب نقاب /ایم آر ملک
کیا بیہودہ نقالی پر مبنی یہ ایسا نظام نہیں جو روز اول سے ہی کسی نہ کسی مداری کی ڈگڈگی پر ناچ کر اپنے تقاضے پورے کر رہا ہے ؟
کیا کوئی ایسا ذی شعور بچا ہے جو اس بات کی وکالت کر سکے کہ الیکشن کے دوران کیے گئے وعدے جھوٹے نہیں تھے ؟شاید نہیں اور اگر کوئی ہے تو اُسے بام پر لایا جائے کہ پتھرائی ہوئی آنکھیں خیرہ ہو سکیں پی ڈی ایم ٹو پر گرتے بھاری مینڈیٹ کے پائوں اب جگہ پر پڑتے ہی نہیں
معیشت کا ایسا کونسا شعبہ ہے جہاں سے دھڑام دھڑام کی آوازیں نہ آرہی ہوں ،ریاست کا ایسا کونسا ادارہ ہے جہاں سے تڑخنے کی صدا سنائی نہ دے رہی ہو!
درندگی اور بر بریت کو ایک معمول قرار دیکر اُسے اپنا لینے کا درس دیا جا رہا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں جھوٹ اور مکاری کو مستند اخلاقی اقدار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور2024میں نام نہاد قائدین کی صف میں کونسا ایسا چہرہ ہے جو بے نقاب نہیں ہوا ۔
عوام کی حالت زار پر زہر آلود مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں ، مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں اموات میں تیزی آرہی ہے۔ ناجائز سیاسی معززین اور شرفا میں سے کون ہے جو سرِ بازار ننگا نہیں ہوا، بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اُس پر اترایا جا رہا ہے اور جہاں حکمران طبقے کی سیاست بے غیرتی ،بے شرمی ،بے حسی اور جعلسازی کی بہترین تجربہ گاہ بن چکی ہو، وہاں ایک سچ کے علمبر داروں کو سچ پر مورد الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے، یہ بدمعاشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہاں بے یقینی کے علاوہ کچھ بھی یقینی نہیں رہا اور اگر کچھ مستحکم ہے تو وہ ہے عدم استحکام اور اگر کچھ منظم اور مربوط ہے تو وہ ہے متواتر اور لگاتار انتشار ،معیشت عملی طور پر دیوالیہ ہو چکی اور نہ ماننے والے خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو چکے، اذیتیں معاشرے کو شدت سے تاراج کررہی ہیں،مایوسی میں بغاوت کے جو انگارے اُبھر رہے ہیں، وہ اس نظام کو جلا کر راکھ کر دیں گے ۔
ریاستی طاقت کے زور پر حکمرانی نہیں ہوا کرتی اور صحافت اتنی کمزور نہیں کہ اُسے طاقت کے تسلط سے ہمیشہ دبایا جا سکے، دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات سے مرعوب کیا جا سکے ،عمران ریاض خان،اسد طور پر ہونے والی جھوٹی ایف آئی آر ایک غصے اور مزاحمت میں بدل رہی ہے۔ اظہار اور اشاعت کی آزادی تو انتہائی اور بنیادی نوعیت کی آزادیوں میں شامل ہے، یہ محض صحافتی آزادیاں نہیں بلکہ عوامی حق جسے کسی بھی حکومت کو دہشت گردی کے مقدمات بنا کر چھیننے کا کوئی حق حاصل نہیں اورحق کے علمبرداروں نے تو ہمیشہ خطرات میں گھرے پریس کی بقاء اور تحفظ آزادی ِ اظہار کے لیے جاں گسل جنگ لڑی ۔
برہنہ ایوبی آمریت ،جبر اور تشدد کے دنوں میں جو آواز یں آزادی ِ اظہار اور شہری آزادیوں کے حق میں مسلسل بلند ہوتی رہیں ،آغاشورش کاشمیری ،حمید نظامی جیسے قلمکاروں کی تھیں ، جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء ِ حق کہنے کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے، مجاہد ِ حق حمید نظامی کے مطابق ہم کراچی میں آٹھ دس ایڈیٹر قصرِ ناز میں جو ایوب خان کا سرکاری مہمان خانہ تھا بیٹھے ہوئے تھے کہ ایوب تپنا شروع ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے اپنے گریبانوں میں منہ ڈالیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟میں کھڑا ہو گیا اور کہا کہ آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر ہم گریبانوں میں منہ ڈالیںتوکیوں شرم آنی چاہیے کم از کم میں جب گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔موقع پرست صحافیوں نے مجھے بیٹھ جانے کو کہا لیکن میں نے اپنی بات مکمل کی ۔
صحافت کے کالے قانون پی پی او کو صحافیوں نے ماننے سے انکار کردیا ۔ایوبی آمریت کے خلاف نومبر 1968ء کو جس عوامی تحریک کو عروج ملا اور 25نومبر1969ء کو جو ایک آمرکے اقتدار کے خاتمہ کاباعث بنی کو پروان چڑھانے میں پریس کا کردار واضح رہا ۔4جون 2007ء کو ایک بار پھر ایک آمر مشرف نے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا نیا ترمیمی آرڈیننس جاری کیا ، جس میں گیارویں ترمیم کے تحت پیمرا کو مزید اختیارات دے دیے گئے، ان کے تحت اُسے ٹیلی ویژن ، ریڈیو براڈ کاسٹر کے دفاتر سیل کرنے ، سامان ضبط کرنے ،لائسنس منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ عمارت کو بھی سیل کرنے کا اختیار دیا گیا۔
آج ایک جعلی اور غیر عوامی مسلط حکمرانی کے اقدامات مشرف کے سیاہ قانون کا شاخسانہ ہے جسے جمہوری حقوق کے تحفظ کا واویلا کرنے والی حکومت نے نافذ کیا ۔ یہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے صحافتی اداروں پر حملے کے مترادف ہے۔ کیا ایک غیر جمہوری حکومت کے دور میں بھی ہم اُن ممالک کی صف میں نہیں کھڑے جہاں حق اور سچ کے اظہار یا اس کی کوشش میں صحافی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
16دسمبر2011کو عدالت ِعظمیٰ میں این آئی سی ایل کیس میں ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو عدالت میں اپنے خفیہ ذرائع اطلاعات کو ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔چاہے انہیں گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لیے ہی کیوں نہ کہاجائے ۔
انسان خوراک کے علاوہ دوسری بڑی جس چیز کا استعمال کرتاہے وہ معلومات (Information) ہے اگر جسمانی طور پر زندہ رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہے تو ذہنی وفکری نشوونما کیلئے انفارمیشن از حد ضروری ہے۔ یہ انفارمیشن ہی ہے کہ سچائی کی آوازیں بلند ہوتی جارہی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے روشنیوں کاشہر ایک ایسے خطے کا روپ دھارچکا ہے جہاں سچ اور حقائق کو برداشت نہیں کیاجاتا۔ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا بھی کراچی میں ہے ۔ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی پاکستان میں صحافیوں کے اغواء اُن کوقتل کی دھمکیوں اور ہراساں کرنے کے واقعات پر کہا کہ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن صحافیوں کو دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کی سخت مذمت کرتا ہے کیونکہ یہ مبینہ طور پر حکومت اوراس کے اتحادیوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کرنے کی مبینہ کوشش اور ڈرانے دھمکانے کی کارروائی ہے جہاں لوٹ مار،کرپشن ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ، انسانی حقوق کی غصبی وپامالی ،معاشی اور معاشرتی ناانصافی ، بے حیائی ، بدمعاشی پر کوئی پابندی نہ ہووہاں حق گوئی وبے باکی کے علمبردار وں پرقد غن کہاں کی دانشمندی ہے ۔
کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم وطن عزیز میں آزادی صحافت کو تصوراتی حدتک ہی دیکھ سکتے ہیں عملاً زمینی حقائق کچھ اور ہیں ۔