پاک بھارت امن کے لیے کوششیں
شیئر کریں
کشمیر تقسیم ِہند کا ایساحل طلب مسلہ ہے جسے کشمیریوں کی منشا کے مطابق حل کرنے کی اقوامِ متحدہ نے قراردیں منظور کر رکھی ہیںجنھیں پاکستان اور بھارت نے تسلیم کررکھاہے دونوں ممالک بات چیت سے اِس مسلہ کا حل تلاش کرنے پر بھی اتفاق کر تے ہیں لیکن بھارت کی طرف سے پانچ اگست2019 کوکشمیر کی خصوصی حیثیت کے یکطرفہ خاتمے کے اقدام نے جنوبی ایشیا کی دوجوہری طاقتوںکوجنگ کے دہانے پر پہنچا دیا کیونکہ یہ اقدام مسلہ کشمیر کے ایک فریق کے طورپر پاکستان کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول تھا بطوراحتجاج پاکستان نے نہ صرف دوطرفہ تجارت روک دی بلکہ اپنا سفیر بلانے کے ساتھ بھارتی سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دی دیا یہ بہت ہی غیر معمولی اقدام تھا کیونکہ سفیروں کی عدم موجودگی سے دونوں ممالک میں اعلٰی سطح پر روابط ہی ختم ہوگئے دوجوہری ممالک میں یہ کشیدگی الارمنگ صورتحال لیکن عالمی برادری نے پاکستان کی کمزور معیشت کے تناظر میں تشویشناک صورتحال پرتوجہ نہ دی اوربھارت کی تسلیم طرف سے تسلیم شدہ معاہدوں سے انحراف کے باوجود خاموشی اختیار کرلی شاید اُس کا خیال تھا کہ پاکستان ذیادہ دیر سرحدوں پردبائو برداشت نہیں کر سکے گا اور بھارتی اقدام کے بعدکی صورتحال قبول کرنے پر رضا مند ہوجائے گا لیکن عمران خان کی کمزور حکومت کے لیے نرمی اختیار کرنا سیاسی خودکشی کا باعث بن سکتی تھی اسی بنا پر سرحدی جھڑپوں کے باوجود پاکستان نے ثابت قدمی کا مظاہر ہ کیا ابھی گزشتہ دنوں عمران خان نے بھارت سے روابط بہتر بنانے کی بات کی جس کی عسکری قیادت نے بھی تائید کردی لیکن بھارت اگر اپنے یکطرفہ فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرتا تو پاکستانی حکومت رضامند ہوبھی جائے توبھی عوام کا غم و غصہ کم نہیں ہو سکتاکیونکہ پاکستانی مزہبی طورپر کشیریوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اسی لیے پاکستانیوں کی جذباتی وابستگی اور بھارت میں فروغ پاتی انتہاپسندی کے باوجود دونوں ممالک عوامی خواہشات کے برعکس کسی فارمولے پر اتفاق کر بھی لیتے ہیں تو پائیدارامن کی منزل کا ملنا محال ہی رہے گا۔
موجودہ صدی جنگوں کی نہیں تجارت اور ایجادات کی ہے پھربھی بڑے ممالک اسلحے کی دوڑ میں شریک ہیں اور دیگر ایجادات کے ساتھ تباہ کُن ہتھیاروں کی تیاری میںمصروف ہیں جس کی وجہ سے جنگوں کا امکان بحرحل رَد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہتھیارجنگوں کی خوراک ہوتے ہیں اگر جنوبی ایشیا میں چین کو ایک طرف رکھ کر جائزہ لیں تو بھی پاک بھارت ہتھیاروں پر بے دریغ سرمایہ خرچ کر رہے ہیں بھارت ہر سال اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے کے ساتھ مقامی طور پر تیارکرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے وہ میزائل کلب کا ممبر بھی ہے جنوبی ایشیا کے اِس بڑے ملک کے جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیںاسی بناپر تمام ہمسائے خائف ہیں لیکن پاکستان کے سواکوئی ایسا ہمسایہ نہیں جو مقابلے کی سکت رکھتا ہو مگر عالمی برادری کو اِس کے عزائم سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ چین کے مقابلے کے لیے امریکہ کو خطے میں طاقتور ممالک کی ضرورت ہے جس کے لیے بھارت ہر لحاظ سے موزوں ہے وہ چین سے نفرت بھی کرتا ہے اور معاندانہ پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے اسی بناپر امریکا کا منظورِ نظر ہے لیکن چین کے حوالے سے امریکی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت سے محروم ہے جس کا دنیاگزشتہ کئی ماہ کے دوران ایک سے زائد بارمشاہدہ کر چکی ہے ڈوکلام سے لیکر لداخ تک بھارتی فوجیوں کی پٹائی کرتے ہوئے چین نے اپنی عسکری طاقت کا خوب مظاہر ہ کیا ہے پھر بھی امریکی توقعات برقرار ہیں بلکہ چین کے مقابلے پر دیگر ایشیائی ممالک کا اتحاد بنا رہاہے لیکن جنوبی ایشیا میں بھارت کو فروغ پذیرچینی رسوخ کے خاتمے کے لیے یکسوئی درکار ہے جو پاکستان سے صورتحال نارمل کیے بنا ممکن نہیں ۔
بھارت پر ہتھیاروں کے حوالے سے نوازشات کے باوجود پاکستان کو عالمی برادری کی طرف سے مختلف نوعیت کی پابندی کا سامنا ہے ابھی حال ہی میں ترکی سے ہیلی کاپڑخریدنے کا معاہدہ امریکی مخالفت سے ختم ہو ا کیونکہ امریکہ انجن فراہم کر نے سے انکار ہوگیاتھا لیکن امریکا ،اسرائیل ،فرانس،روس،برطانیا سے بھارت کو اسلحہ خرید نے کے معاہدے کرنے میں کوئی ممانعت نہیں یہ دوہرا معیار کسی طور غیر جانبداری کے زمرے میں نہیں آتا مگر پاکستان نے نئی صورتحال میں بھی اپنی بقاوتحفظ کے راستے تلاش کر لیے ہیں طیاروں ،ٹینکوںاور گولہ بارود کی تیاری کے ساتھ میزائل سازی میں مصروف ہے علاوہ ازیں خطے میں چین کا حلیف بھی ہے یہ حکمتِ عملی امریکی مفادات کے منافی ہے وہ افغانستان سے لیکر تصفیہ طلب مسائل میں پاکستان سے تعاون تو حاصل کر تا ہے لیکن نوازشات کے لیے بھارت کوترجیح دیتا ہے حالیہ امریکی قیادت نے انسانی حقوق کے حوالے سے نکتہ نظر کچھ تبدیل کیا ہے اور بھارت کو فروغ پاتے انتہا پسندانہ جذبات قابو کرنے اور مذہبی رواداری کی ہدایت کی ہے لیکن چین کی وجہ سے امریکی لب و لہجہ نرم ہے عالمی وعدوں سے انحراف اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے باجود امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان نئی صورتحال قبول کر لے اور بھارت سے تجارت بحال کرنے کے ساتھ سفیروں کے تقررپر رضامند ہوجائے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے درپردہ کوششیں جاری ہیں ابتدامیںدونوں ممالک میں سیزفائر کرایا گیاہے سفیروں کے تقرر کے بعد کشمیر پر مذاکرات کرانے کا چکمہ دیا جا سکتا ہے اب یہ پاکستانی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی اور قومی مفاد کا تحفظ یقینی بناتی ہے اسرائیل و فلسطین میں تصفیے کے لیے اوسلو معاہدہ سے مشرقِ وسطٰی میں تو امن قائم نہیں ہو سکا اب پاک بھارت حقیقی مسائل کے خاتمے کی بجائے تعلقات استوار کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے تو تعلقات کی بہتری سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اگر بھارت کشمیر میں مسلم اکثریت ختم کرنے کے منصوبے ختم نہیں کرتا تو پاکستان بھی فلسطینیوں کی طرح محض احتجاج کرنے کے سواکچھ نہیں کر سکے گا کیونکہ عالمی ضامنوں کا پاکستان کے ساتھ دینے کا امکان کم ہی ہے اِس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بھارت عالمی دبائو کو کم کرنے کے لیے مزاکرات کی میز پر آتا ہے لیکن کشمیر سمیت تصفیہ طل مسائل کے پائیدار حل پر آمادہ نہیں ہوتا۔
عرب امارات نے بھارت میں خطیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ امریکہ کا مشرقِ وسطٰی میں تزویراتی حلیف ہے اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ اور امریکی مفادات کے لیے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے درپردہ کوشاں ہے لیکن چین سے مقابلے کے لیے بھارت کو دیگر اطراف سے محفوظ بنانے کی کاوشیں تب تک حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک کشمیر کا مسلہ کشمیریوں کی خواہشات وامنگوں کے مطابق حل نہیں ہوجاتا بھارت کی موجودہ قیادت خود بھی انتہا پسند اور جنونی ہے جو مسلم خون بہانے میں بہت دلچسپی رکھتی ہے مساجد گرانے اور مسلمانوں کی زندگی اجیران بنانے کے علاوہ اُسے کچھ کرنا نہیں آتااپنے ملک میں کروڑوں لوگوں کی بنیادی ضروریات سے محرومی کے باوجود افغانستان میں بھارتی کردار کی کوئی سمجھ نہیں آتی پھر بھی امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں بھارتی کردار قبول کرنے پر رضامند کیا جائے لیکن دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے امریکایہ بھول جاتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کوکرداردینے سے خطے میں امن کی بجائے دہشت گردی کو فروغ ملے گا اِس لیے اگرامریکاکو پاک بھارت امن سے دلچسپی ہے تو اُسے چین سے مخاصمت کو بالائے طاق رکھ کر خطے کے امن کے لیے مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اخلاص سے کام لینا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔