جوابی بیانیہ۔۔ وسائل و امکانات
شیئر کریں
جامعہ نعیمیہ لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے اسلام، قومی سیاست اور عالمی صورت حال کے تناظر میں دو متداول سیاسی بیانیوں یعنی فرقہ وارانہ بیانیے اور تکفیری جہاد کے بیانیے کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر ان کی مذمت کی۔ ان کا یہ مشاہدہ بھی ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ ان دو بیانیوں کی آڑ میں دینِ اسلام اور تصورِ جہاد کو مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے مسلم معاشرے سیاسی خلفشار، سماجی انتشار اور دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ علما سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے ان دو بیانیوں کے مقابل ایک جوابی بیانیہ قوم کے سامنے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا، ایک ایسا جوابی بیانیہ جو اسلافی روایت سے جڑا ہوا بھی ہو، اور ہم عصر دنیا میں مسلم مفاد سے ہم آہنگ بھی ہو۔ ”جوابی بیانیے“ کی ترکیب سے کچھ مبصرین کو التباس ہوا ہے کہ اس سے مراد جناب جاوید احمد غامدی کا سنہ ۴۱۰۲ ءمیں پیش کردہ جوابی بیانیہ ہے، حالانکہ وہ عالمی استعماری مفاد سے ہم آہنگ اور اسلافی روایات کے رد پر بننے والا بیانیہ ہے۔ غامدی صاحب کا بیانیہ دراصل نظریہ پاکستان کے پہلے سے موجود بیانیے کا جوابی بیانیہ ہے اور اس کا اصل مقصد اسلام اور سیاسی طاقت کے مابین ہر تعلق کو مذہبی دلائل سے منقطع کر دینا ہے۔ ہم اس بیانیے کا تجزیہ سہ ماہی “جی” کی اشاعت میں تفصیل سے عرض کر چکے ہیں۔
گزارش ہے کہ “بیانیے” سے عموماً قومی اور تہذیبی سطح کا سیاسی نظریہ مراد لیا جاتا ہے، اور اس وقت ہماری یہ ضرورت نظریہ پاکستان سے پوری ہو رہی ہے۔ گیارہ ستمبر سنہ ۱۰۰۲ءکے بعد پیدا ہونے والی علاقائی اور عالمی سیاسی تبدیلیوں میں پاکستان اور نظریہ پاکستان شدید دباو¿ کا شکار ہو گئے، اور امریکہ، یورپ اور بھارت میں جامعاتی ”تحقیق“ کا ایک بڑا موضوع بن گئے اور میڈیا پر بھی مسلسل گفتگو کا آغاز ہوا۔ کسی ملک یا سیاسی مسئلے کا اچانک سے ”تحقیق“ کا اور میڈیا میں بیک وقت موضوع بن جانا بلا وجہ نہیں ہوتا، اور اس کے پیچھے عالمی استعماری ایجنڈا کارفرما ہوتا ہے۔ جامعاتی ”تحقیق“ کا مقصد نطریہ پاکستان کو توڑ کر پاکستانی ریاست کے جواز کو ختم کرنا ہے تاکہ استعماری ایجنڈے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اور یہ عالمی ایجنڈا داخلی ہمنوائی کے بغیر پورا ہونا ناممکن ہے۔ غامدی صاحب کے بیانیے کا اصل تناظر یہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان پر ”متحدہ“ عالمی ڈسکورس زبردست انتشار کا شکار ہو کر لغویت کا شاہکار بن گیا ہے، اور کوئی ایسے نتائج سامنے نہیں لا سکا جو کسی استعماری پالیسی کو واضح بنیاد فراہم سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیانیے یا نظریے کا تاریخ اور قومی مفاد سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بیانیے یا نظریے کا کسی بھی معاشرے کے مجموعی تصور حیات سے ہم آہنگ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس وقت نظریہ پاکستان کی اساس کو چھیڑے اور چھوڑے بغیر اس کی تعبیری توسیع کی ضرورت سے انکار نہیں، اور جامعہ نعیمیہ کے خطاب میں اسی پر زور دیا گیا ہے۔
گزارش ہے کہ بیانیے کی ضرورت اور نئے یا جوابی بیانیے کا سوال برصغیر کی مسلم تاریخ میں گزشتہ دو صدیوں سے چولے بدل بدل کر مسلسل ظاہر ہو رہا ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی پورا بیانیہ ایسے مکمل فکری لباس میں سامنے نہیں آ سکا جو بیک وقت ہم عصر دنیا اور مسلم مفاد سے ہم آہنگ بھی ہو، اور ہماری روایت اور تاریخ میں بھی جڑیں رکھتا ہو۔ ہماری کامیابی ابھی جزوی نوعیت کی ہے اور اس سے اغماض خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔ عصر حاضر میں ہمارے بیانیے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ سے کبھی تاریخ کا دامن چھوٹ جاتا ہے، اور کبھی اس کے فکری نسب پر مذہبی جھگڑے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دو قومی نظریے کے فکری نسب پر شدید مذہبی نزاع ہوا، اور پاکستان بننے کے بعد اس نظریے کی ہم عصر دنیا سے عدم مطابقت کو موضوع بنایا گیا۔ اس وقت نظریہ پاکستان پر ہونے والی تنقید میں یہ دونوں پہلو شامل ہو گئے ہیں۔ ”نئی توحید“ کے حاملین اور مذہبی متجددین نظریہ پاکستان کو مذہبی بنیادوں پر رد کرتے ہیں، اور سیکولر اور لبرل حضرات اس کو ہم عصر تاریخ سے غیرمطابق ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ایسی جگہ اب مزید سکڑ گئی ہے جہاں کھڑے ہو کر نظریہ پاکستان کا دفاع کیا جا سکے اور یہی وہ پیچیدہ صورت حال ہے جس میں جوابی بیانیے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ گزارش ہے کہ یہ دونوں مواقف درست نہیں ہیں اور نظریہ پاکستان کو تاریخی تناظر میں سمجھنے میں ناکامی سے پیدا ہوئے ہیں۔
تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دو قومی نظریہ برصغیر کی مسلم تاریخ میں بہت گہری جڑیں رکھتا ہے۔ شاہ صاحب کا دار الحرب کا فتویٰ، تحریکِ مجاہدین، جنگِ آزادی اور اس میں جہاد کا فتویٰ، اور جنگ آزادی کے بعد خلافت اور جہاد پر سامنے آنے والے جدید مواقف، سنہ ۶۰۹۱ ءمیں مسلم لیگ کا قیام اور جداگانہ انتخاب کا مطالبہ، تحریکِ خلافت، قرار داد پاکستان اور دو قومی نظریے کا ظہور، تحریک پاکستان، قیام پاکستان، قراد مقاصد کی تشکیل اور بالآخر اس کی آئین میں شمولیت، بنیادی طور ایک ہی سوال کے جواب میں سامنے آنے والے مختلف عملی اور فکری مظاہر ہیں۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ ہمارے نزدیک سیاسی طاقت سے کیا مراد ہے؟ ہمارے تصور میں سیاسی شناخت کا معنی کیا ہے؟ اور سیاسی طاقت کی ہیئت اور افعال کیا ہیں؟ مختصر یہ کہ ہماری سیاسی اقدار کیا ہیں اور ان سے جواز پانے والا اجتماعی عمل کیا ہے؟ یہ سوال اس قدر اہم ہے کہ اس پر ہونے والی جدوجہد نے نہ صرف مسلم معاشرے بلکہ برصغیر ہی کی تقدیر کو تبدیل کر دیا۔ اس سوال پر جو فکری اور عملی مظاہر اب تک سامنے آئے ہیں ان میں یہ بات داخل ہے کہ جدید عہد کے دستیاب سیاسی تصورات سے ہمیں کوئی مسئلہ ہے اور وہ خاصی سنگین نوعیت کا ہے، اور ہم وہ تصورات من و عن قبول نہیں کر سکتے۔ ہمارا یہ موقف بن نہیں سکتا تھا اگر اس کے پس منظر میں دینی تعلیمات موجود نہ ہوتیں۔
بیانیے کا مسئلہ اس لیے بھی الجھ گیا کہ ”حکومت الٰہیہ” اور خلافت پر داد سخن دینے والے علما اور مفکرین جدید افکار کے زیر اثر تھے یا ان سے متاثر تھے، روایت سے برگشتہ یا نالاں تھے، اور جدید دنیا کو سمجھنے کے فکری وسائل بھی نہیں رکھتے تھے۔ دینی تعلیمات کی جدید تشریحات سے یہ مسئلہ الجھتے الجھتے غتربود ہو گیا۔ اور اب اسی ڈھرے پر چلتے ہوئے اس کے حل کی توقع عبث ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو برس کے مذہبی مباحث سے کوئی ثمرآور، حق مرکز اور تاریخ آگاہ فکر سامنے نہیں آ سکی۔ اس آفت کی وجہ بھی سامنے ہے لیکن ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ کوئی نظامِ فکر اور انسانی تہذیب ”جز“ اور ”کُل“ کا تعلق طے کیے بغیر نہ قائم ہو سکتی ہے اور نہ باقی رہ سکتی ہے۔ فکر ”کل“ میں کام کرتی ہے، اور افعال ”جز“ میں واقع ہوتے ہیں بھلے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے نظام فکر میں کل اور جز کا تعلق کیا ہے اور کیسے طے ہو گا؟ ہماری روایت میں اصول فقہ اسی ضرورت سے پیدا ہوا تھا۔ اصول یعنی تھیوری ہی وہ آنکھ ہے جو بدلتی ہوئی تاریخ پر نظر رکھتی ہے، اور اس تاریخ کی اپنی کلیات سے نئی نئی نسبتوں کو قائم کر کے دکھاتی رہتی ہے، اور یہ نسبتیں سلبی بھی ہو سکتی ہیں اور ایجابی بھی۔ تشریحات میں یہ سوال غائب ہوتا ہے، کیونکہ تشریح کسی سوال سے پیدا نہیں ہوتی، فہم کی ضرورت کے تابع ہوتی ہے۔ ہم عصر تاریخ کی واقعیت ہمارے مذہبی متون کا مصداق نہیں ہے، لیکن ہماری جدید مذہبی تشریحات کا مقصد یہی ثابت کرنا ہے۔
بیانیہ یا قومی سیاسی نظریہ ایک وضع کردہ شے ہے اور دو چیزوں کا براہ راست جواب دیتا ہے۔ ایک یہ کہ بیانیہ معاشرے کی سیاسی شناخت کو حتمی طور پر متعین کر دیتا ہے۔ شناخت کی بنیاد تقدیری بھی ہو سکتی ہے اور ارادی بھی۔ رنگ، نسل اور زبان پر بننے والی شناختیں تقدیری نوعیت کی ہیں جبکہ نظریہ پاکستان میں ظاہر ہونے والی شناخت ارادی اور تاریخی ہے۔ جدید عہد میں شناخت کا بنیادی کام یہ ہے کہ یہ سیاسی طور پر ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ میں امتیاز پیدا کر کے ایک بنیادی حوالے کا کام دیتی ہے، لیکن سیاسی عمل کی بنیاد نہیں ہوتی۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کا سیاسی عمل اسی شناخت کو قائم کرنے کی کامیاب جدوجہد تھی، اور یہی شناخت پاکستان کا بنیادی ترین حوالہ ہے۔ لیکن اگر سیاسی شناخت، بھلے وہ تقدیری ہو یا تاریخی، سیکولر ہو یا مذہبی، سیاسی عمل کی بنیاد بن جائے تو معاشروں کا سیاسی عمل فسطائیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور انسانی معاشرے انتشار اور جنگ و جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سیاسی طاقت میں شناخت اولیت رکھتی ہے کیونکہ یہ معاشروں کو قوم بناتی ہے اور ان کی سیاسی زندگی میں بنیادی حوالے کا کام کرتی ہے۔ شناخت نظریے کا خاص الخاص سیاسی پہلو ہے۔
سیاسی طاقت کا دوسرا مسئلہ اجتماعی عمل کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ اور یہ بنیاد صرف اور صرف عدلِ اجتماعی کی اقدار سے حاصل ہوتی ہے، اور عدل اجتماعی نظریے کا خاص الخاص معاشی پہلو ہے۔ عصر حاضر کے فکری اور استعماری تناظر میں دو قومی نظریے سے قرارداد مقاصد تک کا سفر ہر لحاظ سے غیرمعمولی ہے، لیکن جزوی ہے۔ قرارداد مقاصد نے یہ طے کر دیا کہ سیاسی طاقت اپنی ریاستی تشکیل میں کیا نہیں کرے گی، لیکن اس امر پر خاموش ہے کہ کیا کرے گی۔ جوابی بیانیے کے لیے نظریہ پاکستان کی تعبیری توسیع میں جدید ریاست کی ہیئت اور عدل اجتماعی کی اقدار کو اظہار دینا ضروری ہے ورنہ ”جوابی بیانیے“ کی ضرورت عدم استحکام کا باعث بنتی رہے گی۔ بیانیہ یا نظریہ جب تک سیاسی اور معاشی پہلوو¿ں کو محیط نہ ہو، نظریہ کہلانے کی ضروری شرائط پر پورا نہیں اتر سکتا، اور نظریہ پاکستان کو اس وقت یہی چیلنج درپیش ہے۔
ضمناً عرض ہے کہ برصغیر میں تکفیری جہاد کا بیانیہ اور فرقہ وارانہ بیانیہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں سامنے آئے جو مسلم سیاسی طاقت کے زوال اور سماجی انتشار کا زمانہ ہے اور جب ہماری پوری تہذیب ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی۔ جوابی بیانیہ اس ملبے کے ڈھیر کی مجاوری سے ملنے کا نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ماقبل زوال و انتشار اپنی سیاسی تاریخ اور دینی روایت کی طرف بامعنی واپسی کی ضرورت ہے جس میں استعماری عہد کا فکری حساب بیباق کرنا شرط اول ہے۔
٭٭….٭٭