میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
منی پور:سانپ تو مرا مگر لاٹھی بھی ٹوٹ گئی

منی پور:سانپ تو مرا مگر لاٹھی بھی ٹوٹ گئی

ویب ڈیسک
پیر, ۲۴ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

دہلی میں زبردست انتخابی کامیابی کے 12دن بعد حلف برداری کا مہورت تو نکل آیا مگر وزیر اعلیٰ کا نام ہنوز صیغۂ راز میں ہے ؟ کیونکہ بی جے پی کو نام کے اعلان سے ناراضی یا بغاوت کا خوف ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اپنے نظم وضبط کے لیے مشہور آر ایس ایس پر مرکزی حکومت کے باوجود ایسا وقت کیوں آیا؟ اس کا سبب ترجیحات میں تبدیلی ہے ۔ سنگھ اب افراد سازی کے بجائے عمارات کی تعمیر اور عیش و عشرت کی جانب متوجہ ہوگیا ہے ۔ دہلی کے اندر1939 میں سنگھ نے اپنا دفتر بنایا تو اس پر ایک منزل چڑھانے میں 33سال لگے اور دوسری منزل 1980 میں بنائی گئی ۔ اس بیچ ذہن سازی اور کارکنان کو نظم و ضبط سے آراستہ کرنے کا کام چلتا رہا لیکن پچھلے ٩ سالوں میں دہلی کے اند رپانچ لاکھ مربع فٹ پرمحیط تین 12 منزلہ ٹاورز کا عالیشان دفتر 150 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر ہوگیا ۔ اس شان و شوکت کے باوجود دہلی کے وزیر اعلیٰ نہیں مل رہا ہے ۔ آسام میں کام چلانے کے لیے کانگریس سے آدمی لایا گیا اور منی پور میں کانگریس سے آنے والے وزیر اعلیٰ کو ہٹایا تو اس متبادل نہیں مل سکا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے سنگھ کو آرام و آسائش کی ایسی شراب پلائی کہ وہ اب ان کے خلاف اُف تک کرنے کی جرأت سے قاصر ہے ۔
منی پور کے حوالے سے دنیا بھر کے لوگ حیران ہیں کہ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت تو دور دنیا بھر کی سیر کرنے والے وزیر اعظم مودی بھی وہاں کیوں نہیں پھٹکتے ؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ منی پور کے دگر گوں حالات ان کی نااہلی کے گواہ ہیں اور وہ اپنی ناکامی سے منہ چراتے ہیں ۔ ویسے بیرین سنگھ کونہیں ہٹانا بھی تعجب خیز تھامگر وہ کام تو بحالتِ مجبوری سہی کرنا پڑگیا ۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وزیر اعظم تشدد زدہ ریاست کا دورہ کرکے حالات کے جائزے کا ڈھونگ کرتے اور وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کا کریڈٹ لے لیتے مگر انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا توآخر اس فرار کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا سبب ان کے اندر بیٹھا خوف و ہراس ہوسکتا ہے ۔ احمد آباد کے اکشر دھام مندر پر جب حملہ ہوا تھا تو گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نے اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع مندر میں اس وقت تک جانے کی جرأت نہیں کی تھی جب تک آخری حملہ آور ڈھیر نہیں ہوگیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چھپنّ انچ کے سینے میں چھپا دل کتنا خوفزدہ ہے ۔ خیر بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار کے ہوتے منی پور جانے سے ڈر ایک قابلِ توجہ معمہ ہے جسے سلجھایا جانا چاہیے ؟
منی پور میں خطرہ باہر نہیں اندر ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی خود اپنی آستین کے سانپ بیرین سنگھ سے ڈری ہوئی ہے کیونکہ اس کے پاس تقریباً ٦ ہزار خودکار اسلحہ سے لیس ایک وفادار مافیا موجود ہے ۔ اس مافیا کے خوف سے مودی اور شاہ منی پور کا رخ نہیں کرتے ۔ وزیر اعظم تو خیر کبھی گئے ہی نہیں اور وزیر داخلہ نے اپنا پہلا اور آخری دورہ اکیس ماہ پہلے کیا تھا ۔ ان مافیا پر فوجی کارروائی کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بی جے پی کو ووٹ دینے والے میتئی رائے دہندگان کی ناراضی کا خطرہ ہے ۔ اس طرح بی جے پی کو خود اپنے بھسما سور کے جال میں پھنس گئی۔بی جے پی کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ اپنی ریاستی سرکار کوحزب اختلاف کی پٹائی کے لیے لاٹھی کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔ وہ اس لاٹھی کو چلانے کے لیے اپنے اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے ۔ دہلی میں اسی سانپ کی تلاش کا کام جاری ہے ۔ بی جے پی نہ تو اپنے سانپ کو مارتی ہے اور نہ لاٹھی کو ٹوٹنے دیتی ہے ۔ اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا کہ اس قدر تشدد کے باوجود بیرین سنگھ کو سرکار سمیت برداشت کیا گیا لیکن سوال یہ ہے اس ماہ کی ابتداء میں ایسا کیا ہوگیا کہ کمل چھاپ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی ٹوٹ گئی یعنی بیرین سنگھ کے ساتھ بی جے پی کو اپنی ریاستی سرکار بھی برخواست کرنی پڑی؟
منی پور تشدد کا معاملہ جب عدالتِ عظمیٰ میں پہنچا تو فساد کی تحقیقات کے لیے جوڈیشیل جانچ کا حکم دیا گیا اورلامحالہ وزارتِ داخلہ کو تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینا پڑا۔ اس انکوائری کمیشن کے سامنے پچھلے سال ایک حلف نامہ کے ساتھ آڈیو فائل جمع کی گئی ۔یہ 48 منٹ کی ریکارڈنگ وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر کی گئی تھی۔ اس آڈیومیں ایک جگہ بیرین سنگھ کویہ کہتے سنا جا سکتا ہے :”جب امیت شاہ یہاں آئے ،تو انہوں نے پوچھا:’ بیرین جی’٠٠٠’ہاں سر’٠٠٠ارے ! تم بم مارتا ہے ؟ (پیچھے سے ہنسی کی آواز)سب نے سنا! ‘بم مارتا ہے ؟’ مطلب اس دن سے ہی انہوں نے (مجھے ) بموں کا استعمال بند کرنے کی ہدایت دی۔ مت مارنا، (تم بم کااستعمال کر رہے ہو؟ ان کا استعمال مت کرو) انہوں نے ڈی جی پی اور تمام لوگوں کو بلاکر(ہمیں) ہدایت دی، ‘بم کا استعمال مت کرنا۔’ان (امیت شاہ) کے جانے کے بعد، میں نے ان سے کہا ‘ہوئے ! چپکے سے کرنا ہے ۔اوپن ( کھلے عام) نہیں کرنا ہے ۔ اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے ، تو فرنٹ لائن کمانڈوز سے اس بات کی دریافت کر سکتے ہیں۔’ یہ سب کہنے کے بعد بھی اسے تحفظ دیا گیا تو وہ یہاں تک بول گیا کہ”۔وہ جنہیں ]میتیئی[ راجا نے پناہ دی تھی وہ وادی میں آکر حملہ کرنے لگے ۔ مجھ پر اس بات کا گہرا اثر ہوا، اس نے مجھے ڈرایا بھی ۔۔مجھے ایسا کہنا تو نہیں چاہیے ،مگر اوپر والا اس بات کا گواہ ہے کہ اگر میں اس کرسی پر نہ بیٹھا ہوتا ، قسم سے اگر میں سی ایم نہ ہوتا تومیں نے بم برسائے ہوتے ۔ میں صاف صاف کہہ رہا ہوں بم برساتا!’ ایسے ظالم کو برداشت کرنا بتاتا ہے کہ مودی اور بیرین کا ڈی این اے ایک ہے ۔
لوٹ کے نام پر ہتھیار بنٹوانے کا ثبوت بھی آڈیو میں موجود ہے ۔ بیرین کہتا ہے ‘چار ہزار/پانچ ہزار بندوقیں… کون گرفتار ہوا ہے ؟ اب تک 4 سے 5 ہزار کے قریب بندوقیں چھینی جا چکی ہیں، لیکن آخر کس کی گرفتاری ہوئی ہے ؟ انہوں نے وزیراعلیٰ کو گرفتار نہیں کیاہے۔۔۔اگر وہ گرفتار کرتے ہیں، توسب سے پہلے گرفتار ہونے والا سی ایم ہی ہوگا۔ 4000-5000 بندوقیں چھیننے کے الزام میں مجھے ہی گرفتار کیا جائے گا۔’ اس کے بعد وہ لٹیروں کو یقین دہانی کرتا ہے :” کچھ بھی ہو، ہم اپنی طرف سے دیکھیں گے اور آپ بھی اپنی طرف سے اپنا کام کریں۔ خود کو گرفتار نہ ہونے دیں۔ مطلب جب سمن بھیجا جائے ، تونہ جائیں۔ کچھ وقت لیں۔ جب حالات پرسکون ہوں گے تو میں آپ کا ساتھ دوں گا’۔ بیرین سنگھ سرکار نے اس آڈیو جعلی قرار دے کر مسترد کردیا مگر اب صداقت کی تحقیقات کے لیے مقرر کردہ نجی تجربہ گاہ نے جوڈیشل کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹ میں تصدیق کی کہ کلپ اور سنگھ کے نمونوں کے درمیان 93 فیصد مماثلت ہے اور وہ ایک ہی فرد کی آواز ہوسکتی ہے ۔
امسال 22 جنوری کو سپریم کورٹ میں ایک ضمنی حلف نامہ کے ساتھ ٹروتھ لیب سرٹیفیکیشن رپورٹ کی ایک کاپی منسلک کی گئی۔ 3 فروری کو منی پور اور مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایس جی مہتا نے سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) سے ٹیپ کی جانچ کروانے کے لیے تین ہفتوں کا وقت مانگا، اوراستغاثہ کو سپریم کورٹ سے پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کروانے کا مطالبہ کیا جو سراسر وقت گزاری ہے ۔سرکاری وکیل مہتا نے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کے دفاع میں درخواست گزار کو مفاد پرست، شرپسند،نظریاتی بوجھ کے حامل علیحدگی پسند تک قرار دے دیا۔اس مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے حکومت کو سی ایف ایس ایل رپورٹ کو سیل بند لفافے میں پیش کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دینے پر اتفاق کیا۔ کیس کی اگلی سماعت 24 مارچ کو مقرر کردی۔سوال یہ ہے کہ اگر تشار مہتا کے دلائل درست تھے تو بیرین سنگھ سے کمبھ میلے میں ڈبکی لگاکر پوتر ہوجانے کے بعد بھی استعفیٰ کیوں لیا گیا؟
منی پور کے وزیر اعلیٰ کو ہٹائے جانے سے بڑی ذلت ان کے نعم البدل کی تلاش میں ناکامی ہے ۔ اس کام کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے شمال مشرقی انچارج سمبت پاترا اور پارٹی ارکانِ اسمبلی کے درمیان کئی دور کی بات چیت کے باوجود تعطل باقی ر ہا۔ کسی کے نام پر جب اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو ایم ایل ایز نے حتمی فیصلہ مرکزی قیادت پر چھوڑ دیا۔ استعفیٰ کے چار دن بعد بھی جب کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا تو بالآخرمرتا کیا نہ کرتا کی مصداق ریاست میں سیاسی غیر یقینی کے سبب مرکزی حکومت نے منی پور میں صدر راج نافذ کر دیا۔ یہ دراصل ریاست اور حکمراں بی جے پی کے ذریعہ نئے لیڈر کے تقرر میں ناکامی کی دلیل ہے ۔ ایک طرف تو بی جے پی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے ۔ اس کے پیچھے سو سال قدیم آر ایس ایس ہے جس کا نظم و ضبط مشہور ہے اس کے باوجود اسے کئی دنوں تک نہ تو دہلی کا وزیر اعلیٰ ملتا ہے اور نہ منی پور میں بیرین سنگھ کا متبادل دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ آپسی سر پھٹول بھی ہے لیکن چونکہ میڈیا اس کی جانب سے توجہ ہٹانے میں لگا رہتا ہے اس لیے سارے عیب چھپ جاتے ہیں اورعوام بار بار کمل کے فریب میں آجاتے ہیں لیکن بیرین سنگھ کا اتنی تاخیر سے سہی استعفیٰ پر عندلیب شادانی کا یہ شعر (مع ترمیم)صادق آتا ہے
بدمعاشی اور مجبوری میں یارو کوئی فرق نہیں
اک بے بس بیرین کرے کیا جب شامت آجائے تو


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں