
جنگ بندی:عارضی حل یاپائیدارامن؟
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
مشرقِ وسطیٰ ہمیشہ سے عالمی سیاست کاایک حساس مرکزرہاہے جہاں اسرائیل-فلسطین تنازعہ مرکزی حیثیت رکھتاہے۔حالیہ دنوں میں نتن یاہوکے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویزاورامریکی صدرٹرمپ کی غزہ کوامریکی تحویل میں لینے کی تجویزنے خطے میں نئی سفارتی اورسیاسی بحث چھیڑدی ہے۔مصراوراردن نے ان بیانات پرسخت ردِعمل دیتے ہوئے انہیں خطے کے استحکام کیلئے خطرناک قراردیاہے۔ساتھ ہی غزہ میں جاری جنگ بندی اوریرغمالیوں کی رہائی کے تناظرمیں یہ دیکھنا اہم ہوگاکہ آیایہ اقدامات طویل المدتی امن کی طرف پیش رفت ہیں یاصرف عارضی وقفہ۔
قصرسفیدکے نئے فرعون ٹرمپ نے جب سے اقتدارسنبھالاہے،اپنے مختلف بیانات میں ساری دنیامیں ایک عجیب ہلچل اورافراتفری پیداکردی ہے حتی کہ اپنے اتحادیوں نیٹو کو بھی بیچ چوراہے میں لاکھڑاکیاہے۔ابھی وہ گردبیٹھی نہیں کہ مشرقِ وسطی کے سب سے سلگتے ہوئے مسئلہ فلسطین پربھی ایک متنازعہ تجویزپیش کی ہے جس میں انہوں نے غزہ کوامریکی تحویل میں لے کرایک”نیوٹریل زون”بنایاجاسکتاہے تاکہ خطے میں امن قائم کیاجاسکے۔یورپی یونین نے ٹرمپ کی اس تجویزکومستردکردیاہے۔یہ تجویزفلسطینیوں اورعرب دنیاکیلئے مزید اشتعال انگیزی کاباعث بنی ہے کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی خودمختاری پرحملہ ہے بلکہ امریکی مداخلت کی نئی شکل بھی ہے اوردنیا کوپھرسے بدامنی اورتباہی کی طرف دھکیلنے کامنصوبہ ہے۔
گذشتہ ہفتے ٹرمپ اورنتن یاہوکی واشنگٹن میں ملاقات اوراپنے ہاں بلاکراس کی بلائیں لیناشروع کردی ہیں اورنیتن یاہونے ٹرمپ کی پشت پناہی پرچینل14کواپنے انٹرویو میں جس کویروشلم پوسٹ نے بھی شائع کیاہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے اوروہ چاہیں تواپنے ملک کے اندرفلسطینی ریاست قائم کرسکتے ہیں۔جس پرفوری طورپرسعودی عرب،مصراوراردن کاسخت ردِعمل سامنے آیاہے۔دورانِ انٹرویوجب ان سے سعودی عرب کے اس بیان کے بارے میں سوال کیاگیاکہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات معمول پرنہیں آسکتے،ان کاکہناتھاکہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے پرکبھی راضی نہیں ہوں گے جس سے اسرائیل کی سا لمیت کوخطرہ ہوجبکہ یادرہے کہ اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کی قراردادکے مطابق،1967کی جنگ میں اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیاتھاوہ مقبوضہ تصورکیے جاتے ہیں۔ٹرمپ کے بیان پرردعمل دیتے ہوئے سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے فلسطینیوں کوغزہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کومستردکرتے ہوئے کہاتھاکہ فلسطینیوں کے بارے میں ان کامقف اٹل ہے۔سعودی عرب،اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات بحال کرنے کے بارے میں بات نہیں کرے گاجب تک فلسطینی ریاست کاقیام عمل میں نہیں لایاجاتا۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان نے زوردیاہیکہ سعودی عرب کامؤقف”واضح اوردوٹوک”ہے اوراس میں کسی بھی صورتحال میں مختلف ”تشریح”کی گنجائش نہیں ہے۔یاد رہے کہ ٹرمپ نے غزہ کو”پاک کرنے”کاایک منصوبہ پیش کیاہے مصراوراردن سمیت عرب ممالک مزیدفلسطینیوں کوپناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن قائم کیا جا سکے۔ٹرمپ نے غزہ کو”تباہ شدہ علاقے”کے طورپربیان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایاکہ”ہم پورے خطے کوصاف کرنے کیلئے15لاکھ افرادکی بات کررہے ہیں۔ یہ قدم عارضی یاطویل مدتی ہوسکتاہے”۔
مصراوراردن،دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کررکھے ہیں لیکن نتن یاہوکے حالیہ بیانات کے بعدان معاہدوں کی حیثیت بے معنی ہوتی نظرآرہی ہے۔ مصر نے نتن یاہواورٹرمپ کی تجاویزکوسفارتی اصولوں کی خلاف ورزی قراردیاہے۔اردن،جس کی آبادی کابڑاحصہ فلسطینی نژادہے،نے ان بیانات کوخطے میں کشیدگی بڑھانے والاقرار دیا ہے۔ان ممالک کامقف ہے کہ یہ بیانات نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی توہین ہیں بلکہ خطے میں موجودہ تناؤکومزیدبڑھاسکتے ہیں۔حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے ٹرمپ کی تجویزمستردکرتے ہوئے کہاکہ وہ تعمیرنوکی آڑمیں ایسی کسی تجویزکومنظورنہیں کریں گے۔غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام نے صرف اپنی سرزمین کیلئے15ماہ تک موت اورتباہی برداشت کی ہے۔ثابت قدمی اورمزاحمت کے ساتھ یہ منصوبہ ناکام ہوجائے گاکیونکہ اس سے پہلے کئی منصوبے ناکام ہوچکے ہیں۔یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حق اوروجودکے منافی ہے جبکہ اس سے جنگی جرائم اورانسانیت کے خلاف جرائم کاتسلسل قائم ہوگا۔ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہترتعمیرکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،بشرط یہ کہ اس علاقے کا محاصرہ ختم کردیاجائے۔خیال رہے کہ اس 15ماہ کی جنگ کے دوران غزہ کے زیادہ تررہائشی نقل مکانی پرمجبورہوئے اورغزہ میں موجود اکثرعمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔
اردن اورمصرکی جانب سے اسے ردکیاگیاہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدرنے مصرسے اس بارے میں کوئی باضابطہ درخواست کی ہے یانہیں لیکن مصرکی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کومستردکیاہے چاہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہویا زمین پرقبضے کے ذریعے یا فلسطینیوں کوان کی زمین سے نقل مکانی کرنے پرمجبورکرنے کے ذریعے ہویاانہیں کسی دوسری جگہ بھیجنے کے ذریعے ہو۔چاہے ایساکچھ وقت کیلئے کیاجائے یاطویل دورانیے کیلئے۔
اردن کی وزارتِ خارجہ کاکہناہے کہ سلطنت بھی فلسطینیوں کی نقل مکانی کومستردکرنے میںثابت قدم اورغیر متزلزل ہے۔اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں نتن یاہوکے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بیان کوجارحانہ مطالبہ قراردیتے ہوئے ایسے بیانات کواقوام متحدہ کے قراردادوں اوربین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات امن کے خلاف ایک خارجی،اشتعال انگیز نظریے کی عکاسی اورخطے کومزید کشیدگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان سفیان القداہ کاکہناہے کہ اردن سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کااعلان کرتاہے اورعالمی برادری سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ ان غیرذمہ دارانہ بیانات کی مذمت کرے۔اس سے قبل مصری وزارت خارجہ نے سعودی سرزمین پرفلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں اسرائیلی بیانات کولاپرواہ قراردیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ مصری وزارت خارجہ کاکہناتھاکہ اسرائیلی بیانات تمام قائم شدہ سفارتی اصولوں کی خلاف ہے۔ نتن یاہوکے بیانات کوبعض تجزیہ کاراسرائیل کے”گریٹراسرائیل”کے منصوبے کے آغازکے طور پر دیکھ رہے ہیں۔اس منصوبے کا مقصداسرائیل کی سرحدوں کووسیع کرنااور فلسطینیوں کے حقوق کومحدودکرناہوسکتاہے۔درپردہ امریکااوردیگر اتحادی ممالک کی حمایت بھی اسرائیل کواس منصوبے میں مددفراہم کرسکتی ہے۔ٹرمپ کے بیانات اورامریکی حمایت اس امکان کومزید تقویت دیتے ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کررہاہے۔مقبوضہ غربِ اردن میں فلسطینی صدرمحمودعباس نے ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردیداورمذمت کی ہے جس سے غزہ کے باسیوں کوپٹی سے نقل مکانی پرمجبور کیاجائے۔
اقوامِ متحدہ نے یہ اندازہ لگایاتھاکہ غزہ میں60 فیصدعمارتیں یاتومکمل تباہ ہوچکی ہیں یاپھریہ بری طرح متاثرہوئی ہیں اوران کی تعمیرِنو میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔مغربی شہرخان یونس میں نقل مکانی پرمجبورہونے والے افرادسے جب ٹرمپ کے بیان پر ردِعمل مانگاگیاتوان کاکہناتھا:ہم خوداپنی تقدیرکافیصلہ کریں گے کہ ہم کیاچاہتے ہیں۔یہ زمین ہماری ہے اوریہ ہماری پوری تاریخ میں ہمارے آبااجدادکی ملکیت رہی ہے۔ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے،سوائے اگرہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایاجائے۔دریں اثناٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے امریکاسے جو”بڑی تعدادمیں اشیا”کی درخواست کی تھی وہ فی الحال فراہم کی جارہی ہیں۔ان سے پوچھاگیاکہ آیاان کی حکومت اسرائیل کیلئے907کلوگرام وزنی بموں کی کھیپ جاری کرے گی۔اسرائیل نے بہت سی چیزوں کی درخواست کی لیکن سابق صدرجوبائیڈن نے انہیں نہیں بھیجا۔اب ان اشیاکی ترسیل کی جارہی ہے۔گزشتہ سال جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کوان بموں کی فراہمی ایک ایسے وقت میں معطل کردی تھی جب اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر بڑے پیمانے پرحملے کامنصوبہ بنارہی تھی۔یہ وہ مقام ہے جہاں بمباری اورجنگ کی وجہ سے14لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لی تھی۔ بائیڈن نے خبردارکیاتھاکہ اس طرح کے علاقوں میں اس قسم کے بم کااستعمال ایک”بڑے انسانی المیے”کاسبب بنے گا۔
ایگزیوس پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی قومی سلامتی کے صحافی بارک راویڈنے لکھاکہ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو 2000 پاؤنڈ وزنی بم اسرائیل بھیجنے پرعائدپابندی ہٹانے کاحکم دیاہے۔اس قسم کے بڑے،فضاسے گرائے جانے والے بم انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اورعام طورپرانہیں فوجی تنصیبات،کمانڈسینٹرزاور انفراسٹرکچرجیسے اہداف کوبڑے پیمانے پرنقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے اکثراس بات پرفخرکیاکہ اسرائیل کا”وائٹ ہاس میں اس سے بہتردوست کبھی نہیں تھا”۔ نیتن یاہو بھی ٹرمپ کیلئے اکثرایسے جملے دہراچکے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی اتوارکودوسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔حماس کے زیرحراست چار اسرائیلیوں اوراسرائیلی جیلوں سے تقریبا200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے۔تاہم جنگ بندی معاہدے پرعملدرآمدکی کوششوں کو نئی رکاوٹوں کاسامناکرناپڑاہے کیونکہ اسرائیل نے مغوی شہری اربیل یہودکی رہائی سے متعلق تنازع کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی تباہ شدہ شمالی غزہ میں واپسی پراعتراض کیاتھا۔اسرائیل نے یہ شرط عائد کی جنوبی اورشمالی غزہ کوالگ کرنے والی راہداری کھلوانے کیلئے اس یرغمالی کورہاکیاجائے۔اس نے حوالہ دیاکہ جنگ بندی معاہدے کے تحت شہریوں کوپہلے رہاکیاجائے گاجس میں حماس ناکام ہواہے۔اسرائیل نے ثالثوں سے حماس سے اس بات کاثبوت مانگاتھاکہ یہودزندہ ہے اورحماس نیمصرکواس بات کاثبوت فراہم کردیاتھاکہ یہود زندہ اور
صحت مندہے اور اسے اگلے ہفتے رہاکردیاجائے گا۔ہفتہ کی شام افراتفری سے بھرپورمناظردیکھنے کوملے۔یرغمالیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعدفلسطینیوں کواس بات کی امیدتھی کہ وہ شمال میں اپنے گھروں کی جانب لوٹ سکیں گے۔ تاہم آخری اطلاع آنے تک ایساممکن نہیں ہواکیونکہ اسرائیلی افواج نے شمال کی جانب جانے والی اہم راہداری کوبندکررکھاہے اورکسی کوبھی وہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔اسرائیل اورحماس کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے والے قطری اورمصری ثالث لاکھوں فلسطینیوں کوشمال کی طرف واپس جانے کی اجازت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراس معاملے میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
دریں اثناغزہ کے بہت سے باشندے کسی ایسی پیش رفت کابے چینی سے انتظارکررہے ہیں انہیں اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت مل جائے۔بہت سے لوگوں کیلئے واپسی کی امیداس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جوان کاانتظارکررہی ہے یعنی کھنڈرات اور ہر جانب پھیلی تباہی۔اس کے باوجودان کی زندگیوں کودوبارہ حاصل کرنے،اپنے گھروں کی تعمیر نواوراپنے کنبوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب ان کی روحوں کوزندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آیایہ جنگ بندی دیرپاامن کی بنیادبنے گی یاصرف ایک عارضی حل ہے۔ماضی کے تجربات سے ظاہرہوتاہے کہ جنگ بندی اکثرعارضی ثابت ہوئی ہیں جب تک کہ دونوں طرف سے سنجیدہ اقدامات نہ کیے جائیں۔ٹرمپ کی تجویزکے بعد،یہ خطرہ بڑھ گیاہے کہ بین الاقوامی مداخلت مقامی مسائل کومزیدپیچیدہ بناسکتی ہے۔غزہ کی صورتحال کے اثرات لبنان،شام،اوریمن جیسے ممالک پربھی پڑ سکتے ہیں جہاں ایران کے حمایت یافتہ گروہ ابھی تک سرگرم ہیں۔حزب اللہ لبنان،شامی حکومت،اوریمن میں حوثی باغیوں کے ایرانی روابط ابھی تک قائم ہیں اوروہ کبھی بھی اس خطے میں طاقت کے توازن کومتاثرکرسکتے ہیں۔یادرہے کہ اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیاں، نتن یاہوکی بیان بازی،اور ٹرمپ کی مداخلت کے بعدایران کے حمایت یافتہ گروہوں کیلئے دباؤبڑھ سکتاہے۔تاہم،اس کایہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ یہ گروہ مزیدجارحانہ حکمت عملی اختیارکریں گے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
نتن یاہواورٹرمپ کی تجاویزاورحالیہ جنگ بندی مشرقِ وسطی میں ایک نئے سفارتی اورعسکری موڑکی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مصر اور اردن جیسے ممالک کاسخت ردِعمل ظاہرکرتاہے کہ خطے میں اسرائیل اورامریکاکی یکطرفہ پالیسیوں کوقبول کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے ٹرمپ کی تجاویزکی مخالفت اورنیٹوکے ساتھ امریکی تعلقات میں تلخی اس بات کاثبوت ہیں کہ عالمی برادری ان پالیسیوں کومستردکررہی ہے۔غزہ میں جنگ بندی کے اثرات کاانحصارفریقین کی سنجیدگی اوربین الاقوامی برادری کے اقدامات پر ہوگا۔ حزب اللہ، شام،اوریمن میں ایرانی روابط کے تناظرمیں بھی یہ ضروری ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کوبرقراررکھنے کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھی جائیں۔ مشرقِ وسطی میں پائیدارامن کیلئے ایک متوازن، شفاف،اورمنصفانہ حل ناگزیرہے۔
یاد رہے کہ ایک چینی مصنف نے کہاتھاکہ دنیاکاامن ہی امریکاکی تباہی میں پوشیدہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کے دورِاقتدار میں عالمی امن کاحصول ممکن ہوگاکہ نہیں؟ یاد رہے کہ امریکاکی باگ ڈورہلانے والی قوتوں کی زندگی کارازہی جنگوں میں فروخت ہونے والا اسلحہ، جنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی ادویات بنانے والوں کی مٹھی میں ہے ۔ وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر
الفریڈمیک کوئے نے16نومبر2021میں امریکااورچین کے تعلقات کے بارے میں ایک مفصل انٹرویومیں پیش گوئی کی ہے کہ چین کی طاقت بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی سلطنت منہدم ہورہی ہے۔ان کے مطابق دونوں سپرپاورزکے درمیان خاص طورپرتائیوان اور ہانگ کانگ کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہاہے،کچھ لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک نئی سردجنگ شروع ہورہی ہے۔ امریکا، مستقبل قریب میں،تائیوان کے خلاف جنگ لڑنے کے امکانات کاسامنا کر رہا ہے جس میں شایدوہ ہارجائے گا،چین یوریشین لینڈماس پر امریکی جیوپولیٹیکل گرفت کوتوڑنے کیلئے بھی کام کررہاہے۔
مشہور زمانہ مؤرخ پروفیسرالفریڈ میک کی ایک تازہ کتابTo Govern the Globe: World Orders and Catastrophic Change” دنیاپرحکومت کرنا:ورلڈ آرڈرزاورتباہ کن تبدیلی”میں اوربھی کئی ہوشرباانکشافات ہیں۔