ناصر اور جنید کا قصور کیا تھا؟
شیئر کریں
ہریانہ میں دوبے قصورمسلم نوجوانوں کی بجرنگ دل کارکنوں کے ہاتھوں وحشیانہ ہلاکت نے پورے ملک میں اشتعال پھیلادیاہے ۔ جس انداز میں جنید اور ناصر کو ان ہی کار میں زندہ جلایا گیا ہے ، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وحشی درندوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا انھیں جو آشیرواد حاصل ہے ، اس سے وہ پوری طرح مطمئن ہیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ انسانیت کو شرمسار کردینے والی ایسی وحشیانہ وارداتیں لگاتار ہورہی ہیں اور انھیں انجام دینے والوں کو فوری ضمانتیں بھی مل رہی ہیں۔قانون ہمیشہ کی طرح اپنا کام کررہا ہے اور کسی کے پاس اس کی بینائی کو چیک کرنے کا کوئی آلہ موجود نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وارادت کی سنگینی بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ملک میں نفرت کی سیاست کا دائرہ روزبروزبڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔یہ سیاست حکمراں طبقے کو جتنی راس آتی ہے ، اتنی کوئی اور نہیں آتی۔
بی جے پی کے اقتدار والی ریاست ہریانہ کی اس وحشیانہ واردات کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی ایسے وحشی سماج کا حصہ ہیں، جہاں انسانوں کے ساتھ ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہرقسم کی درندگی اور بربریت کو جائز قرار دے دیا گیا ہے ۔ راجستھان کے شہر بھرت پور کے رہنے والے ان دونوں نوجوانوں کو بجرنگ دل کے آٹھ دس غنڈوں نے پہلے تو ان ہی کی کار میں اغواکیا۔پھر وہ ان دونوں کو پڑوسی ریاست ہریانہ لائے اور یہاں کے ضلع بھوانی کی تحصیل لوہارو کے جنگلوں میں انتہائی ظالمانہ انداز میں مارا پیٹا۔ جب وہ زخموں سے لہولہان تھے تو انھیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، لیکن پولیس نے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب بجرنگ دل کے غنڈوں نے انھیں گایوں کے اسمگلر قرار دے کر اغوا کیا تھا تو پولیس ان نام نہاد گؤرکشکوں کے ساتھ تھی۔ بعد کو پولیس نے اپنا کام کرنے کے لیے ان غنڈوں کو آزاد چھوڑدیا۔ اپنا ‘کام’ پورا کرنے کے بعدبجرنگی جنید اور ناصر کو نیم مردہ حالت میں فیروزپور تھانہ لے گئے جہاں ان کی انتہائی نازک حالت کو دیکھ کر پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لینے سے انکار کردیا۔ اگر پولیس فرض شناس ہوتی تو پہلے بجرنگ دل کے ان قاتلوں کو حراست میں لیتی اور پھر جنید اور ناصر کا علاج کرانے کے لیے اسپتال لے جاتی، لیکن یہ سب کچھ چونکہ ملی بھگت سے ہوا تھا، اس لیے آگے کی کارروائی بھی طے شدہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ پولیس نے جنید اور ناصر کو گایوں کا اسمگلر قرار دے کرکیس کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جبکہ یہ دونوں پیشے سے ڈرائیور تھے اور اپنے ایک رشتہ دار کی بولیرو کار کرایہ پرچلاتے تھے۔ اس واردات کے سلسلہ میں بجرنگ دل کے کئی کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے اور بعض گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔
وحشت اوردرندگی کی آخری حدوں کو پار کرنے والی اس واردات نے برسوں پہلے اڑیسہ میں پادری گراہم اسٹنس اور اس کے دوکمسن بچوں کو ان ہی کی کار میں زندہ جلانے کی ہولناک وارادات کی یاد تازہ کردی ہے ۔ اس واردت میں بھی بجرنگ دل کارکن دارا سنگھ ملوث تھا، جسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔اڑیسہ محروم ومجبور باشندوں کا علاج کرنے والے پادری گراہم اسٹنس پر الزام تھا کہ وہ مشنری مہم کا حصہ تھا اور غریب ولاچار ہندوؤں کولالچ دے کر عیسائی بنا رہے تھے ۔ اسی طرح جنید اور ناصر کو گائے کا اسمگلر قرار دے کر ان کے بہیمانہ قتل کوجائز ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے اپنی پولیس کو پورے معاملے کی گہرائی سے چھان بین کر کے قصورواروں کو سخت سزا دینے اور اس کے ساتھ ہی ان کے پسماندگان کو بیس بیس لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے ، لیکن بی جے پی کے اقتدار والی پڑوسی ریاست ہریانہ میں اس پر مکمل خاموشی ہے اور وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ کانگریس لیڈر سورجے والا نے اس وارادات کی مذمت کرتے ہوئے درست ہی کہا ہے کہ ہریانہ نفرت کی فیکٹری بن چکی ہے ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے دعویٰ کیا ہے کہ راجستھان سے اغوا کرکے دولوگوں کا بہیمانہ قتل کرنے والے گروہ کے ایک ممبر کو بی جے پی کا آشیرواد حاصل ہے ۔
ہم آپ کو یاددلادیں کہ راجدھانی دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں کافی دنوں سے مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہاہے اور وہاں ان کا جینا دوبھر کردیا گیاہے ۔وہاں عوامی انتظامیہ کی طرف سے نشان زد کیے گئے مقامات پر جمعہ کی نماز میں رخنہ اندازی کی جا تی رہی ہے ۔ یہاں کے گڑگاؤں اور فریدآباد جیسے شہروں میں نمازیوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے ۔ ابھی گزشتہ ہفتہ ہی وہاں نوح علاقہ میں ایک ٢٢سالہ مسلم نوجوان محمدحارث کو قتل کیا گیا تھا۔ اس واردات کے سلسلہ میں موہت نام کے ایک نام نہاد گؤ رکشک کے خلاف ایف آئی آردرج ہوئی تھی۔ گؤرکشکوں نے پہلے تو اس نوجوان کو بری طرح زدکوب کیا۔ جب اس کی حالت بگڑنے لگی تو اسے پولیس کو سونپ دیا۔بعد میں اس محمدحارث کی ایک اسپتال میں موت ہوگئی۔ پولیس نے اس معاملہ کو سڑک حادثہ سے جوڑ کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی اور اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے ۔موہت کا نام جنید اور ناصر کے قتل میں بھی سامنے آیا ہے ۔
جنید اور ناصر کوزندہ جلاکر مارنے کی اس وحشیانہ ورادات میں غور وفکر کئی پہلو ہیں۔ اوّل یہ کہ اسے ہجومی تشدد کا معاملہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس وقت انھیں قتل کیا گیا ہے ، وہ نہ توگائے اسمگلنگ کررہے تھے اور نہ ہی گؤکشی میں ملوث تھے بلکہ ان دونوں کو منصوبہ بند طریقے سے راجستھان سے اغوا کیا گیا۔ اس کے بعد قاتلوں نے اپنے تحفظ کی غرض سے انھیں پڑوسی ریاست ہریانہ میں منتقل کیا اور پھر وہ سب کچھ کیا گیا جس پر وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹرمکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ۔ جنیداور ناصر کے رشتہ داراسماعیل کی طرف سے جو نامزد رپورٹ درج کرائی گئی ہے اس میں بجرنگ دل کارکن انل، شری کانت، رنکو سینی، لوکیش سنگلا، موہت اور مونو کے نام شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہریانہ سرکار نے گایوں کے تحفظ متعلق قانون مجریہ2015 میں ایک عجیب وغریب ترمیم جولائی2021میں کی تھی۔ اس ترمیم کے بعد ہریانہ سرکار نے گایوں کے تحفظ کے لیے جو خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی، اس میں گائے کی سیوا اور ان کا تحفظ کرنے والے بجرنگ دل کارکنوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔اس ٹاسک فورس کا مقصد گایوں کی غیرقانونی نقل وحمل اور گؤ کشی کو روکنا تھا۔ اس معاملے میں مخبری کی ذمہ داری بجرنگ دل کارکنوں کو سونپی گئی تھی۔ اس قانونی ترمیم کے بعد ہریانہ کے نام نہاد گؤرکشکوں نے کئی بے گناہ انسانوں کو نشانے پر لیا اور ہجومی تشدد کی کئی انتہائی سنگین وارداتیں عمل میں آئیں۔ ان میں ایک نوجوان اکبر کا معاملہ بھی ہے جسے درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب صوبائی حکومت ہی پرائیویٹ لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی چھوٹ دے گی تو پھر وہ کس حدتک لاقانونیت پھیلا سکتے ہیں اس کا اندازاہ جنید اور ناصر کو زندہ جلادینے کے واقعہ سے بخوبی ہوتا ہے ۔اس واردات کے بعد ہریانہ سے خبر آئی ہے کہ وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر کی قیادت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قایم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ہر تین ماہ میں صورتحال کا جائزہ لے گی۔یہ کمیٹی ہریانہ کے گورنر بندارو دتاتریہ نے تشکیل دی ہے ۔ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے بجرنگ دل کارکنوں اور پولیس کی خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے کر اگر کسی ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے تو پھر اس سے بڑا مذاق کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭