میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف سیاست جاری رہے گی

نواز شریف سیاست جاری رہے گی

منتظم
هفته, ۲۴ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

نواز شریف کا خیال ہے کہ اْنہیں زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے گا، اْن کے اِس خیال کی ’’تائید‘‘ عمران خان نے بھی کی ہے جن کا فرمانا ہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلوں کی ہیٹ ٹرک ہونے جا رہی ہے، سْپریم کورٹ کے اِس فیصلے کا انتظار ہے جس میں یہ طے ہونا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی کی مْدّت کتنی ہے، اِس آرٹیکل میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ نااہلی کتنی مْدّت کے لیے ہوگی لیکن اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہر کوئی اپنی بصیرت پر اعتماد کرکے رائے قائم کرتا رہا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ طے ہو جائے گا کہ نااہلی کی مْدّت کیا ہوگی۔ اسمبلی کی ایک مْدّت کے لیے ہوگی، پانچ سال کے لیے ہوگی، یا عْمر بھر کے لیے ہوگی۔ فیصلہ اگرچہ ابھی نہیں آیا لیکن نوازشریف کے مخالفین خوش ہیں کہ یہ نااہلی عمر بھر کے لیے ہوگی، اس آرٹیکل کے تحت نوازشریف کے بعد جہانگیر ترین بھی نااہل ہوئے ہیں اِس لیے اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ دیتی ہے کہ اس آرٹیکل کا منشا سزایاب کو عْمر بھر کے لیے نااہل کرنا ہے تو نوازشریف کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین بھی عمر بھر کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ اس فرق کے ساتھ کہ نوازشریف تو کِسی عْہدے کے بغیر بھی سیاست کر سکتے ہیں اور ماضی میں کرتے بھی رہے ہیں، جب پرویز مشرف نے انہیں پارٹی صدارت سے ہٹا دیا تھا، لیکن عمر بھر کی نااہلی ہوئی تو جہانگیر ترین کی سیاست کا باب بند ہو جائے گا اور اْنہوں نے سال ہا سال کی محنت اور سرمایہ کاری کے بعد لودھراں میں اپنے لیے جو حلقہ چْنا تھا اور جہاں سے اْن کے بیٹے ہار چکے ہیں، اْن کے لیے اجنبی بن جائے گا، جہانگیر ترین بھلے سے اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں اور اْنہیں محبت سے عمران خان کی اے ٹی ایم بھی کہا جاتا ہے لیکن عمر بھر کے لیے نااہلی کی صورت میں تحریک انصاف اْن کے سرمائے سے تو شاید مْستفید ہوتی رہے گی، سیاسی خدمات سے محروم ہو جائے گی۔

نوازشریف جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو غلام اسحاق خان نے (2)58 بی کے تحت حاصل اختیارات کے تحت اْن کی حکومت برطرف کر دی، اس کی جگہ نگران حکومت قائم کی گئی لیکن سْپریم کورٹ نے نوازشریف کی حکومت اور اسمبلی کو بحال کرکے نگران حکومت کو کام کرنے سے روک دیا، بحالی کے باوجود اگرچہ نوازشریف زیادہ عرصے کے لیے وزیراعظم نہ رہ سکے اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کی مداخلت سے نہ صرف نوازشریف مْستعفی ہوئے بلکہ غلام اسحاق خان کو بھی صدارت سے محروم ہونا پڑا۔ یوں جس لڑائی کا آغاز نوازشریف حکومت کی برطرفی سے ہوا تھا، اس کا انجام دونوں کی عْہدوں سے علیحدگی کی صورت میں ہوا، غلام اسحاق خان تو اس کے بعد پکے پکے گھر چلے گئے اگرچہ اْنہوں نے دوبارہ صدر بننے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے لیکن سیاست کے جس میدان میں وہ ہمیشہ سے شاطرانہ چالیں چلتے چلتے صدر کے منصب تک پْہنچے تھے، آخری داؤ میں بْری طرح ہار گئے اور بے نظیر بھٹو نے فاروق لغاری کو صدر بنا دیا۔ غلام اسحاق خان اس کے بعد تو ریٹائر ہو گئے لیکن نوازشریف دوسری مرتبہ 97ء میں وزیراعظم بن گئے۔ اس مرتبہ وہ دوتہائی اکثریت لے کر آئے تھے، اِس لیے اْنہوں نے (2)58 بی کی تیغِ آبدار کو کْند کرنے کا فیصلہ کیا اور پارلیمینٹ سے تیرھویں ترمیم منظور کرا لی، صدر فاروق لغاری اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس ترمیم کو ختم کرتے کرتے خود ہی اپنے عْہدوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فاروق لغاری جو (2)58 بی کے اختیارات کی بحالی کے بعد نوازشریف کی برطرفی کا حکم نامہ جیب میں رکھ کر بیٹھے تھے، بصد حسرت و یاس صدارت کے منصب کو خیرباد کہہ گئے، ان دونوں کی رْخصتی کے کچھ عرصے بعد جنرل جہانگیر کرامت بھی مْستعفی ہو گئے، ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف نے منصب سنبھالا تو وہ نوازشریف کو نکالنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے اور بالآخر انہیں -12اکتوبر 1999ء کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا کر پہلے جیل میں ڈالا، خصوصی عدالت سے طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نوازشریف کو عمرقید کی سزا بھی ہوئی لیکن یہ سزا جلاوطنی کی صورت میں بدل گئی، جلاوطنی کے دوران نوازشریف نے دوبار وطن واپس آنے کی کوشش کی جو بزور قوّت ناکام بنا دی گئی، لیکن جب الیکشن کا بگل بجا اور بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس آ گئیں تو جنرل پرویز مشرف کی پوری کوشش کے باوجود نوازشریف بھی واپس آ گئے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنی صدارتی مْدّت کے دوران سینکڑوں مرتبہ یہ بات دھرائی کہ پاکستانی سیاست میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کا سیاسی کردار ختم ہو گیا۔ اْن کے لیے اب سیاست میں کوئی جگہ نہیں لیکن اْنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اقتدار بے نظیر بھٹو کی پارٹی کے سْپرد کیا اور اس پارٹی کی حکومت میں وہ صدارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے پھر اْنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے، ابھی چند روز پہلے ہی وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر حالات یہی رہے تو مسلم لیگ (ن) پھر انتخاب جیت جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف کا سیاسی کردار ختم ہو گیا؟ اس کا درست جواب تو آنے والا وقت دے گا کیونکہ انسان فانی ہے اور ایک معینہ وقت تک ہی اس دنیا میں رہ سکتا ہے اور دْنیا کی ساری دلچسپیاں زندگی اور صحت کے ساتھ مشروط ہیں، زندگی کا تو پتہ نہیں کب ختم ہو جائے لیکن پرویز مشرف جس نوازشریف کو بزعمِ خویش سیاست سے نکال چْکے تھے وہ ابھی تک سیاسی میدان میں پورے کرّوفر کے ساتھ موجود ہے، خواہشات کی بات دوسری ہے، ہر انسان کوئی بھی خواہش پالنے میں آزاد ہے، لیکن خواہشات ایسے گھوڑے نہیں ہیں جن پر سواری کی جا سکے، اِس لیے کوئی یہ فتویٰ دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ پارٹی صدارت ختم ہونے کے بعد نوازشریف کی سیاست اور سیادت بھی ختم ہو گئی۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں