قائداعظم،اقبال اورپاکستان
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
علامہ اقبال کاکلام انسانی فکروعمل کی تاریخ کانہائت دقیق تجزیہ ہے ۔انہوں نے اپنی غیرمعمولی بصیرت کی بناپرتاریخی حوادث سے متعدددورس نتائج اخذکئے ،بعض وہ نتائج بھی جوابھی رونمانہیں ہوئے تھے ۔ان کایہ شعرمبنی برحقیقت ہے :
حادثہ جوابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اس کامرے آ ئینہ ادراک میں ہے
برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ پراقبال نے خصوصیت کے ساتھ توجہ دی،انہوں نے دیکھاکہ یہ وسیع وعریض خطہ مدت تک مسلمانوں کے فکروعمل کی عظیم جولانگاہ بنارہااورانہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ ایک عظیم الشان اسلامی معاشرہ تشکیل کیا جس کے برجستہ تمدنی نقوش ناقابل محوہیں۔ مسلمان یہاں اگرچہ دوسری اقوام کی نسبت تعدادمیں کم اورمختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے لیکن عقیدہ توحیدنے انہیں ہمیشہ اسلام کے رشتہ وحدت میں منسلک رکھا۔متعدد مسلمان خاندانوں نے یہاں ایک ہزارسال تک حکومت کی،ان میں غزنوی، غوری، خلجی، تغلقی،لودھی اورمغل خاندان زیادہ معروف ہیں۔یہ حکومتیں اگرچہ مذکورہ خاندانوں کے نام سے منسوب تھیں لیکن چونکہ وہ اسلامی اصولوں کی اساس پراستوارکی گئیں اوراسلامی اقدارکی حفاظت اورنشرواشاعت کیلئے کوشاں رہیں،اس لیے انہیں اسلامی حکومتوں کے نام سے یادکیاجاتاہے ۔ان کے حکمران مسلمان تھے اوردین اسلام کواپنی حکومت کاتشخص اورطرہ امتیازقراردیتے تھے ۔وہ اپنی قائم کردہ عدالتوں میں اسلامی قوانین رائج کرتے ،مدرسوں اور مساجدکی تاسیس کرتے اوران میں اسلامی تعلیمات وروایات اورمسلمانوں کی زبان وادب کوفروغ دیتے ،اکثر سلاطین ِوقت صوفیااورعلماکی عزت وتکریم کرتے اوران سے ہدایات حاصل کرتے ،صوفیاہمیشہ سلاطین کو رعایا کے ساتھ عدل و احسان کی تلقین فرماتے ۔
محمدبن قاسم کے بعدمحمودغزنوی نے مسلمانوں کیلئے ہندوستان کے دروازے کھول دیئے ،محمودغزنوی نے دہلی کومسلم حکومت کادارلسلطنت قرار دیا۔تمام مسلمان بادشاہوں اورحکمرانوں نے اپنی حکومت کی شناخت دین اسلام کوقراردیااورہرایک نے اپنے آپ کودین کے مبلغ و محافظ اوراس کی عظمت کے مظاہرومویدکے طورپرملقب کیا،اس حوالے سے اکثرسلاطین کے القاب قابل ملاحظہ ہوں مثلامعزالدین غوری،قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش،رکن الدین فیروزشاہ،غیاث الدین بلبن،علاؤالدین محمد شاہ،ظہیرالدین بابر،نصیر الدین ہمایوں، جلال الدین اکبر،نورالدین جہانگیر،شہاب الدین شاہجہان اورمحی الدین اورنگزیب عالمگیر وغیرہ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ سلاطین تخت نشینی کے وقت یہ اصرارکرتے تھے کہ وہ دین سلام کے تحفظ اورترویج میں ہمیشہ کوشاں رہیں گے ۔اگرکوئی بادشاہ دینی امورکی اشاعت میں کچھ کوتاہی کرتاتوصوفیااورعلمااسے متنبہ کرتے اوراس کی اصلاح کی بھرپورکوشش کرتے ۔صوفیامیں نظام الدین اولیائ، بہاالدین ذکریا،شرف الدین بوعلی قلندر،جلال الدین بخاری،شیخ احمد سرہندی اورشاہ ولی اللہ سلاطین وقت کواسلامی احکام کی تعمیل کی تاکید فرماتے رہے ۔
برصغیرکی تاریخ سے متعلق جن عظیم حکمرانوں کوعلامہ اقبال نے خراجِ تحسین ادا کیاان میں محمودغزنوی،اورنگ زیب عالمگیر،احمدشاہ ابدالی اور ٹیپو سلطان خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکرہیں۔یہ وہ اشخاص ہیں جنہوں نے پرچمِ توحیدکوہمیشہ بلند رکھااورباطل قوتوں سے نبردآزما ہوئے ۔ اٹھارویں صدی میں جب مسلمانوں کاعظیم الشان معاشرہ بادشاہوں اورامیروں کی اخلاقی بے راہروی کی بناپرفتنہ وفساد اور انتشار کا شکار ہواتواقتدارانگریزوں کے ہاتھوں میں چلاگیا۔اس کے بعدمسلمانوں کی بیداری میں سرسیداحمدخاں،شبلی نعمانی،مولانا حالی،اکبرالہ آبادی اورسب سے بڑھ کرعلامہ اقبال نے نہائت اہم کرداراداکیا۔علامہ اقبال نے ہندوقوم کے تاریخی کرداراوراس کے عصری خطرناک عزائم کوپیشِ نظررکھتے ہوئے مسلمانوں کے دین ومذہب،جان ومال اور تہذیب وتمدن کی حفاظت کیلئے اپنی فکری اورعملی توانائیاں وقف کردیں ، انہوں نے فرمایا:آئندہ نسلوں کی فکرکرناہمارافرض ہے ،ایسانہ ہوکہ ان کی زندگی گونڈاوربھیل اقوام کی طرح ہوجائے اوررفتہ رفتہ ان کادین اور کلچراس ملک میں فناہوجائے ۔علامہ اقبال نے برصغیرمیں مسلمانوں کیلئے ایک آزادمملکت کاتصورہزارسالہ اسلامی تمدن کی حفاظت اوربقاکیلئے پیش کیا،ان کے نزدیک مذہب قوت کے بغیرمحض ایک فلسفہ ہے ۔انہوں نے فرمایااگرہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طورپرزندہ رہے تواس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے ۔
علامہ اقبال اسلام کے بغیرمسلمان کی زندگی کاتصوربھی نہیں کرتے تھے ،وہ مسلمانوں کی آزادی کی حفاظت صرف نفاذِاسلام کیلئے چاہتے تھے ۔ انہوں نے فرمایا:اگرہندوستان میں مسلمانوں کامقصدسیاست سے محض آزادی اوراقتصادی بہبودہے اور حفاظتِ اسلام اس مقصدکاعنصرنہیں جیساکہ آج کے قوم پرستوں کے رویئے سے معلوم ہوتاہے تومسلمان اپنے مقاصدمیں کبھی بھی کامیاب نہ ہوں گے۔ ہماری تاریخِ ادب میں علامہ اقبال آزادی وطن کے سب سے بڑے شاعرہیں۔اس حوالے سے ان کے ساز سخن کے نغمات حریت و استقلال ہیں لیکن وہ اسلام کے بغیرآزادی وطن کاتصور بھی نہ کرتے تھے ۔انہوں نے بڑے غیورانہ لہجے میں فرمایا:اگرآزادی ہندکانتیجہ یہ ہواکہ جیسادارلکفرہے ایساہی رہے یااس سے بھی بدترین ہوجائے تومسلمان ایسی آزادی وطن پرہزار مرتبہ لعنت بھیجتاہے ۔ علامہ اقبال نے برصغیرمیں ایک آزاد اسلامی ریاست کی تشکیل کامطالبہ محض اس لئے کیاتھاکہ شریعت اسلامی کانفاذہوسکے تاکہ اس کے نتیجے میں ہرشخص کومعاش کی ضمانت مل سکے ۔اس بارے میں انہوں نے قائداعظم کے نام خط میں لکھا……شریعت اسلامیہ کے طویل وعمیق مطالعے کے بعدمیں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ اسلامی قانون کومعقول طریق پرسمجھااورنافذکیاجائے توہرشخص کوکم ازکم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہوسکتاہے لیکن کسی ایک آزاد اسلامی ریاست یاچندایسی ریاستوں کی عدم موجودگی میں اسلامی شریعت اسلامیہ کانفاذاس ملک میں محال ہے ۔انہوں نے مسلمانوں پرواضح کیاکہ برصغیرمیں مسلمانوں کی نجات کاواحدراستہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کے تصورکو ترک کرکے اسلامی قومیت کواپنی شناخت بنائیں کیونکہ اسلام ہی انہیں موجودہ تباہ کن حالات سے محفوظ رکھ سکتاہے ۔انہوں نے مسلمانوں پراسلام کے احسانات ِعظیم کاذکر کرتے ہوئے فرمایا:اسلام ہی وہ سب سے بڑاجزوِترکیبی تھاجس سے مسلمانانِ ہندکی حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات وعواطف سے معمورہوئے جن پرجماعتوں کی زندگی کا دار ومدارہے اورجن سے متفرق اورمنتشرافرادبتدریج متحد ہو کرایک متمیزاورمعین قوم کی صورت اختیارکرلیتے ہیں اوران کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعورپیداہوجاتاہے ۔
حکیم الامت کاسب سے بڑاکارنامہ جس کی بنیادپرپاکستان قائم ہوا،یہ ہے کہ انہوں نے ہندی قومیت کے تصورکی مکمل نفی کی اور مسلمانوں میں اسلامی قومیت کاشعورپیداکیا۔اقبال جغرافیائی وطن پرستی کے سخت مخالف تھے کیونکہ یہ ان کے نزدیک وحدتِ ملی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔انہوں نے اسلام کوزندگی بخش قوت قراردیتے ہوئے فرمایا اسلام ایک زندہ قوت ہے جوذہن ِانسانی کونسل ووطن کی قیودسے آزادکرسکتی ہے جس کاعقیدہ ہے کہ مذہب کوفرداورریاست دونوں کی زندگی میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے اورجسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیرخوداس کے ہاتھ میں ہے ۔اسلام بحیثیت مذہب کے دین وسیاست کاجامع ہے ،یہاں تک کہ ایک پہلوسے دوسراپہلوکاجداکرناحقائق اسلامیہ کاخون کرنا ہے ۔
اقبال کیلئے اسلام ہی مسلمان کی زندگی ہے ،کوئی مسلمان اسلام سے باہراپناوجودقائم نہیں رکھ سکتا۔انہوں نے فرمایا:اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، جو نسبت انگلستان کوانگریزوں سے اورجرمنی کو جرمنوں سے ہے ،وہ اسلام کوہم مسلمانوں سے ہے ۔رسالتِ محمدیہ کی اہمیت کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:ہمارے عقیدے کے مطابق بحیثیت مذہب کے اللہ تعالی نے اسلام کوبذریعہ وحی نازل کیالیکن ایک معاشرت یاملت کے طورپراسلام کاوجودکلیتاًرسولِ اکرم کی ذاتِ بابرکات کارہینِ منت ہے ۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِراہ کوبخشافروغِ وادی سینا
نگاہ ِعشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
1919ء میں ایک خط میں لکھا:خداکی راہ میں مجھ سے جوکچھ ہوسکامیں نے کیا،لیکن دل چاہتاہے کہ جوکچھ ہوااس سے بڑھ کر ہونا چاہئے تھااورزندگی تمام ومکمل نبی کریم کی خدمت میں بسر ہونی چاہئے تھی۔اقبال اسلام کے ابدی حقائق پرمحکم ایمان رکھتے تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی تفسیروتوضیح میں صرف کی تاکہ مسلمان عصرِحاضرکے تقاضوں کے مطابق اس کی لامتناہی برکات سے مستفیذ ہوں۔ حضرت علامہ کے نزدیک اسلام ہی مسلمانوں کابہترین مدافع اورمحافظ ہے ۔اسلام مسلمانوں سے اپنے تحفظ کامطالبہ نہیں کرتابلکہ انہیں تحفظ کی ضمانت دیتاہے ۔مسلمانوں کے ملک وملت اورجان ومال کی حفاظت صرف اسلام سے وابستگی میں ہے ۔انہوں نے فرمایا:ایک سبق جومیں نے تاریخِ اسلام سے سیکھاہے ،یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کوقائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔اس دین کی حقانیت اوراہمیت کے بارے میں رقمطراز ہیں:میری طلب وجستجوصرف اس بات پرمرکوزرہی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیاجائے اورعقلاًیہ ناممکن معلوم ہوتاہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظرکرلیاجائے جس کامقصد ِوحید ذات پات،رتبہ ودرجہ،رنگ ونسل کے تمام امتیازات مٹادیناہے ۔اسلام تمام نوعِ انسانی کے حقوق کااحترام کرتاہے ۔اس دین میں اسودواحمر،عربی اورعجم اوربندہ وآقاکی تمیزکچھ حکم نہیں رکھتی۔
اقبال اس جاہلانہ تصورکوسختی سے مستردکرتے ہیں کہ اسلام کومعاشرتی حیثیت سے نکال کرشخصی ضابطہ بنادیا جائے ۔انہوں نے 1930ء کے تاریخی خطبے میں فرمایا:کیاآپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اورسیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کابھی وہی حشرہوجومغرب میں مسیحیت کاہوا؟کیایہ ممکن ہے کہ ہم عجمی اسلام کوبطورایک اخلاقی تخیل کے تو برقراررکھیں لیکن اس کے نظامِ سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کواختیارکرلیں جن میں مذہب کی مداخلت کاکوئی امکان باقی نہ رہتاہو…اسلام کامذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں،دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں ۔اگرآپ نے ایک کوترک کیاتوبالآخردوسرے کوترک کرنابھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتاکہ کوئی مسلمان ایک لمحے کیلئے بھی ایسے نظامِ سیاست پرغورکرنے کیلئے آمادہ ہوگاجوکسی ایسے وطن یاقومی اصول پرمبنی ہو جو اسلام کے اصولی اتحادکے منافی ہو۔
حضرتِ علامہ کے نزدیک اسلام ہی عالم انسانیت کیلئے فلاح اورامن کادستورہے ،اسلام ایک سوشل نظام ہے جوحریت ومساوات کے ستونوں پرکھڑا ہے اوراس وقت احترامِ انسانی کیلئے سب سے بڑی نعمت ہے ۔اسلام کامطالبہ وفاداری صرف خداکیلئے ہے ، تخت وتاج کیلئے نہیں اورچونکہ ذاتِ باری تعالیٰ تمام زندگی کی روحانی اساس ہے اس لئے اس کی اطاعت کادراصل مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ہی فطرت ِصحیحہ کی اطاعت کرتاہے ۔حضرتِ اقبال کے نزدیک اسلام ایک عالمگیرسلطنت کایقیناًمنتظرہے جونسلی امتیازات سے بالاترہوگی اورجس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں اورسرمایہ داروں کی کوئی گنجائش نہ ہوگی ۔حضرتِ علامہ نے مسلمانوں کے تاریک ترین ایام میں اپنی قوتِ ایمانی سے فرمایا:دنیامیں کارفرماقوتیں اکثراسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ ِکے دعوے پر میرا ایمان ہے کہ انجام کاراسلام کی قوتیں کامیاب اورفائزہوں گی۔
آسماں ہوگاسحرکے نورسے آئینہ پوش
اورظلمت رات کی سیماب ہوجائے گی
اس قدرہوگی ترنم آفریں بادِبہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہوجائے گی
آملیں گے سینہ چاکانِ وطن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِصباہوجائے گی
پھردلوں کویاد آجائے گاپیغامِ سجود
پھرجبیں خاکِ حرم سے آشناہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخرجلوہ خورشیدسے
یہ چمن معمورہوگانغمہ توحید سے
حضرتِ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے تحفظ وبقاکیلئے جوراستہ دکھایا،قائداعظم مسلمانوں کے قافلے کولیکراس پرچل پڑے اور بہت قلیل عرصے میں منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے یعنی پاکستان…اسلام کاپاکستان،ہمیشہ زندہ رہنے والاپاکستان۔ قائداعظم نے علامہ اقبال کوکیاخوب خراجِ تحسین پیش کیاہے :اقبال سے بہتراسلام کوکسی نے نہیں سمجھا، میں نے ان سے زیادہ وفاداراوراسلام کاشیدائی کسی کو نہیں دیکھا۔اقبال اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے اوربلا شبہ اسلام ہمیشہ زندہ ہے اورزندہ رہے گا۔آج علامہ اقبال سے محبت کرنے اورخراج تحسین پیش کرنے کابہترین طریقہ ان کی تعلیمات پرعمل درآمد ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔