سندھ کا گورنر ہاؤس سازشوں کا اڈا بنا ہوا ہے، حافظ نعیم
شیئر کریں
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ حکومت شہر میں امن و امان قائم کرنے ، مسلح ڈکیتیوں و اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے پولیس ، رینجرز ، لاء انفورسمنٹ کے اداروں و ایجنسیوں اور شہر کی تمام اسٹیک ہولڈرز جماعتوں پر مشتمل کمیٹی قائم کرے ، اس کے ذریعے ایک لائحہ عمل طے کرے اورفوری اقدامات کر کے شہر میں امن و امان کی صورتحال کو درست کیا جائے،الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر کی گئی تقریوں کو واپس لینے کے احکامات کا خیر مقدم کرتے ہیں اور واضح اور دو ٹوک مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں انتخابات 15جنوری کو ہی کروائے جائیں ،آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی اختیارات بھی منتقل کیے جائیں اور آرٹیکل 220کے تحت پولنگ اسٹیشنز پر فوج اور رینجرز کے اہلکاروں کو تعینات کیا جائے تاکہ شہری باآسانی ووٹ کاسٹ کرسکیں۔اس وقت سندھ کا گورنر ہاؤس سازشوں کا اڈہ بنا ہوا ہے ،جمہوریت دشمنی کے اقدامات کرنے کے فیصلے کیے جارہے ہیں ،مردہ گھوڑوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ،کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو مسترد کردیا ہے اور شہری واضح طور پر اعلان کررہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے ان دونوں جماعتوں سے انتقام لیں گے ،حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ شہر میں بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ،ہم ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سے پوچھنا چاہتے ہیں وہ بتائیں کہ انہیں کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے کیا تکلیف ہے ؟ وہ کیوں انتخابات نہیں کروانا چاہتے؟شہر میں امن و امان کی صورتحال مسلسل خراب ،مسلح ڈکیتیوں و اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہورہا ہے ،روزانہ شہریوں کو مزاحمت کرنے پرقتل کیا جارہا ہے ،دوپولیس اہلکار بھی مقابلے میں شہید کرد یئے گئے ، ہم نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور اہل خانہ سے اظہار ہمدردی وتعزیت کی ۔انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ شہر میں بدترین امن و امان پر وزیر اعلیٰ سندھ بھی عام شہری کی طرح صرف بیان ہی دے رہے ہیں ، وہ بتائیں کہ پولیس عوام کی جان ومال کے تحفظ میں کیوں ناکام ہے ؟ کیوں کراچی کے شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے؟ انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت بتائے سیو سٹی کے نام سے جو منصوبہ بنایا گیاتھا وہ کہاں ہے؟ اس منصوبے کے نتیجے میں قاتل کیوں نہیں پکڑے جارہے؟کنٹرول روم کہاں ہے جس سے اس منصوبے کے تحت پورے شہر کو کنٹرول کیا جانا تھا؟