امریکی امداد کیلئے جنگ لڑرہے ہیںنہ ہی پاکستان برائے فروخت ہے،ترجمان پاک فوج
شیئر کریں
اسلام آباد (بیورورپورٹ/ نیوز ایجنسیاں) پاکستان نے امریکی نائب صدر مائیک پینس کی جانب سے دی جانے والی دھمکی پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ اتحادی ایک دوسرے کیلئے تنبیہ جاری نہیں کرتے۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے ایک جاری بیان میں کہا کہ امریکی نائب صدر کی جانب سے افغانستان میں دیا جانے والا حالیہ بیان امریکی انتظامیہ سے پاکستانی حکام کی ہونے والی ملاقاتوں اور بات چیت سے بالکل مختلف ہے۔ترجمان نے امریکی نائب صدر کی دھمکی پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی ایک دوسرے کیلئے تنبیہ جاری نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ امریکا کو ایک تنبیہ ان لوگوں کو بھی جاری کرنی جانا چاہیے جو افغانستان میں منشیات کی پیدوار، غیر سرکاری اور انتظامی مقامات کی توسیع، صنعتی پیمانے پر بد عنوانی، حکومت کو ختم کرنے اور داعش کو یہاں جڑیں مضبوط کرنے کی اجازت دینے میں ملوث ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امن قائم کرنے کے لیے مذاکراتی میکنزم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہاکہ بالآخر اپنی ناکامی کے الزامات دوسروں پر ڈالنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو امریکی نائب صدر اور پنٹاگون کے بیانات پر تشویش ہے امریکا کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ امریکا کو ہمارے خدشات پر بھی توجہ دینی چاہیے امریکا کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ ایک جیسا برتاو کرنا چاہییان کا کہنا تھا کہ امریکی سیکورٹی پالیسی پر پاکستان نے واضح جواب دیا ہے امریکی یکطرفہ بیان پر امریکا سے بات چیت جاری ہے پاکستان نے دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کردیئے ہیں ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکی امداد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا اور نہ ہی برائے فروخت ہے۔میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی کسی اور ملک نے نہیں لڑی، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اچھے رہنے چاہیے، اتحادی ایک دوسرے کو نوٹسز نہیں دیتے اور الزام تراشیاں نہیں کرتے، بات چیت چاہے فارن ڈپلومیسی کے ذریعے ہو یا ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے چلتی رہنی چاہیے اور یہ چلے گی۔امریکا کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور اس کی کامیابیوں کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’اس کا بہت بڑا تعلق ماحول کے ساتھ ہے، پاکستان نے اپنی سرحدی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور انہیں شکست دی، افغانستان کی اپنی تاریخ، ثقافت اور جغرافیہ ہے جن کا جب غیر ملکی افواج سامنا کرتی ہیں تو انہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے اس لیے وہاں جنگ لڑنا اتنا آسان نہیں، امریکا نے اس حوالے سے پاکستان سے تعاون مانگا جو ہم نے کیا، لیکن افغان جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں امریکی، اس کی اتحادی افواج اور افغان فورسز نے لڑنا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے حصے کا بہت کام کرلیا اب افغانستان کی باری ہے، ہم نے افغانستان سے ملنے والے 2 ہزار 600 کلو میٹر کے علاقے میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو ختم کردیا اور کئی دہشت گرد افغان سرحدی علاقے میں حکومتی عملدرای نہ ہونے کی وجہ سے فرار جن کا خاتمہ افغانستان کی ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کردیا ہے اور چیک پوسٹیں قائم کر رہے ہیں، دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کے لیے افغانستان کو بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ محفوظ بارڈر کے لیے انٹیلی جنسی شیئرنگ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور افغانستان میں منشیات کے کاروبار کو روکنا بھی بہت ضروری ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’ہم افغانستان میں امریکا کی جنگ نہیں لڑ سکتے، ہم امریکا سے ہر طرح کا دفاعی تعاون کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن بلیم گیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔