میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آہ! سقوط یروشلم

آہ! سقوط یروشلم

منتظم
هفته, ۲۳ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(آخری قسط)
عالم اسلام میں جہاں درجنوں بے اثر ممالک شامل ہیں وہی اس میں پاکستان ،ترکی ،ایران اور سعودی عربیہ جیسے اہم ممالک بھی شامل ہیں ۔پاکستان کے پاس ایٹم بم ،بہترین بری،بحری اور ائیر فورس ہے ۔ایران کے پاس پاکستان جیسی عسکری قوت نا صحیح مگر قابل فوجی قیادت اور اپنے مقاصد کے لیے قربانی دینے کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ترکی کے پاس فوجی قوت زیادہ بہتر نا صحیح مگر سفارتی قوت اور اچھی معیشت ضرورہے ۔سعودی عربیہ کا مذہبی پس منظر اور مضبوط معیشت کے علاوہ عالمی اثر رسوخ اپنی اہمیت رکھتا ہے ۔عالم اسلام انہی چار ممالک کے زیرِاثر ہے گر چہ بعض استثنا ت بھی ہیں ۔بدقسمتی یہی ہے کہ یہ چار ممالک چار متضاد اطراف کی طرف رُخ کرکے عالم اسلام کو اپنی مرضی کے تابع رکھنے کی بیماری میں مبتلاہیں اور آج کے دور میں ملک تو ملک ایک فرد بھی کسی کی مرضی کے تابع جینے کا قائل نہیں ہے ۔ان چاروں کے نزدیک فلسطین اور القدس بلا شبہ اہمیت کا حامل تو ہے مگر ان میں ہر ملک اپنے ایک خاص مذہبی پس منظر اور خاص زاؤیہ نگاہ سے اس مسئلے کو ہینڈل کرتا ہے جس سے بہت کچھ مراد تو لیا جا سکتا ہے مگر یہ ہرگز نہیں کہ ایران کے شام ،عراق اور یمن ،سعودی عربیہ کے یمن ،ترکی کے کردستان اور پاکستان کی کشمیر پالیسی پر القدس کو اولیت یافوقیت حاصل ہے ۔ہر صاحب ایمان مسلمان کے نزدیک ’’القدس‘‘کو اولیت ہونی چاہیے مگر ستر برس کی عالم اسلام کے حکمرانوں کی منافقت اور حماقت سے یہ مسئلہ اس حد تک پس منظر میں چلا گیا کہ امریکہ نے یروشلم کو باضابط اسرائیل کے دار الخلافہ کی حیثیت سے قبول کرتے ہو ئے دوسرے کمزور ممالک کے لیے ایک مجبوری کھڑا کرکے عالمی رائے عامہ کو منقسم کردیا ہے جس پر اب یہودی ساہو کار آہستہ آہستہ اور غیر محسوس انداز میں کام کرتے ہو ئے آج ہی کے فیصلے کی طرح کبھی اور کسی وقت دنیا کر حیران کر دینے والی وہ المناک خبر بھی سنوا دیں گے کہ دراصل یہاں مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی ہے جس پر مسلمانوں نے بالجبر مسجد اقصیٰ بنوادی ہے اس کی سب سے بڑی مثال ’’بابری مسجد‘‘کی شہادت قرار دی جا سکتی ہے جس کی شہادت پر عالم اسلام نے آج ہی کی طرح زبانی احتجاج تو ضرور کیا مگر اس زبانی کلامی ردعمل کا کوئی اثر ہندوستانی برہمنوں پر نہیں پڑا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کے ہزاروں احتجاجوں کی طرح ’’یروشلم ‘‘پرآج کے احتجاج کے بعدعالم اسلام کے لیے یہ سانحہ قصہ پارینہ بنتے ہی بھارت کا ہندو انتہا پسند بابری مسجد پر مندر بنانے کابھی آغاز کر دے گا ۔
خیر یہ تو ہوئی اس یروشلم کی بات جس سے متعلق میرا یہ ایمان تھا کہ اگر امریکہ نے اس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی حرکت کی تو قیامت برپا ہو گی مگر افسوس ہوا کچھ بھی نہیں ہواسوائے ماضی کے احتجاجوں کی طرح ایک احتجاج کے! کیا مسجدِ اقصیٰ کا ہمارے حکمرانوں سے رشتہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ امریکہ کے ظالم اور جارح صدر نے ان کے جیتے جی اس کو ہنستے مسکراتے ہو ئے اسرائیل کے حوالے کردیا ۔آج یہ ثابت ہو گیا کہ عالم اسلام کی غیرت و حمیت مرچکی ہے اور اس کا بہت پہلے جنازہ نکل چکا ہے بالخصوص عالم عربی کا جنہیں یروشلم اور فلسطین کے ساتھ ہمارے مقابلے میں سینکڑوں مستحکم رشتے قائم ہیں ۔فلسطین عرب ہیں ،ان کی زبان عربی ہے ،ان کی تہذیب و ثقافت عربی اوراسلامی ہے اُ ن کے عالم عربی کے ساتھ سینکڑوں برسوں پر محیط تاریخ وابستہ ہے ۔جب عالم عربی یروشلم کے لیے بالخصوص اور فلسطین کے لیے بالعموم کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو ایک دور درازعجمی کشمیر ی مسلمان کے لیے وہ کیا کریں گے ؟ سچائی یہی ہے کہ عالم عربی کو ہمارا اور ہماری تحریک کا سرسری تعارف بھی حاصل نہیں ہے چہ جائیکہ وہ بھارت کے مقابلے میں ہمارے موقف کا ادراک کرتے ہو ئے ہماری تائید کریں ۔ایسا نا ہوتا تو متحدہ عرب امارات نرنیدر مودی کو خوش کرنے کے لیے سینکڑوں کنال زمین مندر کی تعمیر کے لیے فراہم نا کرتا نا ہی سعودی عربیہ اس کو ’’اعلیٰ ترین سیول ایوارڈ‘‘سے نوازتا ! ان واقعات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جس عالم اسلام کو ہم عمومی طور پر اپنا پشتیبان سمجھتے ہیں وہ دورِ حاضر کا بہت بڑا جھوٹ ہے ۔وہ جب حساس ترین مذہبی مسئلے پر فلسطین کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا ہے تو اسے سینکڑوں گنا کمزور پوزیشن کے مسئلے پر کشمیریوں کے ساتھ کیوں کھڑا ہو جائے گا جبکہ اس کے لیے بھارت کی بڑی وسیع تجارتی منڈی دیکھ کر ہی منہ کی رال ٹپکنے لگتی ہے ۔وہ نریندر مودی کے ماضی کو بھول کر صرف مادی اور تجارتی مفادات کے لیے جب اس حد تک جا سکتا ہے تو پھر کشمیری محدود اور چھوٹی قوم کے لیے وہ کیوں تڑپیں گے اور کیوں ان کی آزادی کے لیے نام نہاد جمہوری ملک کے بے تاج بادشاہ کو ناراض کر دیں گے ؟
مسئلہ یروشلم پر نئی المناک پیش رفت کو ذہن میں رکھتے ہو ئے ہماری لیڈر شپ کو چاہیے کہ وہ ’’جذبات سے اوپر اٹھ کر‘‘اپنی پوزیشن کا ادراک کرتے ہو ئے عالمی سطح پر کمزورسفارتی حمایت کا بھر پور تجزیہ کرے ۔اپنے محدود وسائل ،کمزور قوم ،اقوام عالم کے مالی مفادات کی ترجیحات اور خود غرضیوں کو ذہن میں رکھتے ہو ئے حکمت عملی ترتیب دے دیں اور یہ مان کر چلے کہ خود غرض دنیا میں ہمارے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوگا ۔نا ہی عالمی عربی اس کے سوا کچھ کر پائے گا کہ جب بھی اُو ،آئی ،سی کا اجلاس ہوگا تووہ پاکستان کی شدید خواہش کے احترام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرے گا بس۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کے لیے بھارت کے ساتھ سفارتی یا تجارتی تعلقات منقطع کر دے گا ۔نا ہی وہ بھارت کے خلاف عالمی سطح پر ایسا ماحول تیار کریں گے یا تیار کرنے میں معاونت دیں گے جس سے بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائے گا ۔عالم عربی اور اسلامی کا دل لبھانے کے لیے اس کے پاس جہاں دنیا کی بہت بڑی تجارتی منڈی موجود ہے وہی اس کے پاس ’’غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور مسلمانانِ ہند کی بیس کروڑ آبادی کاکارڈ ‘‘جیب میںموجود ہے جس کوبھارت جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے ۔لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی حالات کے ساتھ ساتھ علاقائی حالات کابھی بروقت درست تجزیہ کرے اس لیے کہ خوابوں میں غلطاں رہنا قیادت کا نہیں عوام کا کام ہوتا ہے ۔
قیادت لمحہ بہ لمحہ بدلتے عالمی اور مقامی حالات پر گہری نظر رکھتی ہے تاکہ قوم کی منزل نزدیک ہونے کے برعکس بعید تر نا ہو ۔ہم نے جو بھی کرنا ہے وہ مقامی طور پر ہی کرنا ہوگا ۔اگر باہر سے کوئی مدد کرتا ہے تو فبھا نہیں تو جب ہمارا ذہن و ضمیر دوسروں پر تکیہ کرنے کے برعکس صرف اپنے اوپر بھروسہ کرنے کا عادی اور خوگر ہوگا تو ہم مسئلہ کشمیر سے جڑے لاکھوں جانوں کی قربانی اور مستقبل میں ان کے ایثار اور پھر اس کی حساسیت سے ہمیشہ تڑپتے رہیں گے اس لیے کہ موجودہ حالات میں ہم جیسی چھوٹی قوم کا وسیع جانی قربانیاںدیتے رہنا ہمارے مستقبل پر بوجھ بنتی جارہے ہیں۔ جہاںخودسپردگی کے برعکس استقامت ،جذباتیت کے برعکس حکمت اورکم سے کم مالی و جانی نقصان ہماری باٹم لائین ہونی چاہیے وہی عالمی حالات پر گہری نگاہ کے ساتھ ساتھ سقوط ڈھاکہ ،بابری مسجد کی شہادت ،برما میں روہینگیائی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی ،اخوان المسلمون جیسی خالص مذہبی اور سیاسی تحریک کو جڑ سے اکھاڑنے کی عالمی عربی کی مسلسل کوششیںاورشام ،عراق اور یمن میں آپسی قابل نفرت کشت و خون ،اسرائیل،امریکہ اور بھارت کے اتحادِ ثلاثہ اور ان کے ساتھ عالم عربی کے مستحکم تعلقات اور رشتے اور سب سے بڑھ کر سقوطِ یروشلم جیسے المیے کے قابل برداشت تصورات ذہن میں ہر وقت استحضار رکھنا قیادت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں قوم کے سامنے اس ٹمٹماتے چراغ کو روشن رکھ سکیںجو عرصہ دراز سے اس کے معصومین کے خون سے منورہے ۔ (ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں