عام انتخابات کے امکانات
شیئر کریں
بالاآخر ایوان بالا نے مردم شماری اور حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2017ء کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی۔ بل کے حق میں 84 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا نے کی۔ انہوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستا ن پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، نیشنل پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ ملک میں آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو گئی اور یہ امکانات پوری طرح روشن ہو گئے ہیں کہ اگلے سال قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں گے‘ ایک نئی منتخب حکومت برسر اقتدار آئے گی‘ اور اس طرح ملک میں جمہوری تسلسل کو قائم رکھا جا سکے گا۔ سینیٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بل کی صدارتی توثیق پر ملک میں نئی حلقہ بندیوں کا کام جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی نے 16 نومبر کو منظور کر لیا تھا‘ اس طرح سینیٹ سے پورے پینتیس دن کی تاخیر سے اس کی منظوری ملی ہے۔ ان پینتیس دنوں میں پوری قوم گومگو کا شکار رہی۔ اگر یہی کام گزشتہ ماہ قومی اسمبلی سے منظوری کے فوراً بعد کر لیا جاتا تو اب تک الیکشن کمیشن مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کا ایک مرحلہ طے بھی کر چکا ہوتا اور اگلے مرحلے کی تیاریاں جاری ہوتیں۔
بہرحال دیر آید درست آید۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن اس تاخیر کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے کام کرے تاکہ اگلے سال عام انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعلامیہ کے مطابق جمعہ کے روز ہونے والے اجلاس میں چاروں چیف سیکرٹریز، صوبائی الیکشن کمشنرز، سیکرٹری شماریات اور چیئرمین نادرا کو بلایا گیا ہے۔ اجلاس میں تمام متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی جائیں گی کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے افرادی قوت، نقشہ جات اور نئی مردم شماری کا ڈیٹا فراہم کریں۔ الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے لیے محکمہ شماریات سے تمام اضلاع و تحصیلوں کے شماریاتی چارجز، سرکل اور بلاکس میںآبادی کے سرکاری اعداد و شمار بھی درکار ہوں گے؛ چنانچہ ان شعبوں سے متعلقہ حکام کو بھی جلد طلب کیے جانے کا امکان ہے اور انہیں اس مقصد کے لیے متعلقہ ضروری دستاویزات کے ساتھ الرٹ رہنا چاہیے تاکہ جب طلب کیا جائے تو ڈیٹا اور دستاویزات اکٹھی کرنے میں مزید وقت ضائع نہ ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے ابتدائی کام شروع کر دیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ مردم شماری 2017ء کے اعداد و شمار کے تحت قومی اسمبلی اور صوبائی حلقوں کی تعداد میں رد و بدل کے بعد فی حلقہ آبادی تبدیل ہو جائے گی کیونکہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں فی حلقہ آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہو گا۔ وہاں اوسطاً فی حلقہ آبادی 7 لاکھ 91 ہزار نفوس پر مشتمل ہو گی۔ سندھ میں فی حلقہ آبادی کا تناسب 7 لاکھ 85 ہزار، پنجاب میں 7 لاکھ 80 ہزار اور بلوچستان میں 7 لاکھ 71 ہزار ہو گا۔ قبائلی علاقوں میں ہر حلقہ اندازاً تین لاکھ 69 ہزار پر مشتمل ہو گا۔ یاد رہے کہ یہ حلقہ بندی عارضی اور صرف اگلے سال کے عام انتخابات کے لیے ہو گی اور مردم شماری کے حتمی نتائج آنے پر الیکشن کمیشن کو ان پر نظر ثانی کرنا پڑے گی؛ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ حتمی نتائج‘ عبوری نتائج کے مطابق ہی ہوں۔ اس صورت میں اب جو حلقہ بندیاں کی جا رہی ہیں‘ ان میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔
آئینی ترمیم کے نتیجے میں ملک میں الیکشن کی راہ تو ہموار ہوئی‘ لیکن خاصے انتظار اور بعد از خرابی آ بسیار؛ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے انتظامی معاملات پر توجہ دے تاکہ ہر ضروری کام آ خری لمحوں میں مکمل کرنے کی روش کو بدلا جا سکے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کام عدالت ہی حکومت سے کرنے کے لیے کہے‘ حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا خود کچھ احساس کرنا چاہیے۔ کوئی بھی حکومت جب اقتدار سنبھالتی ہے تو یہ طے کیا جاتا ہے سب سے پہلے ابتدائی چند ماہ میں کیا کام کرنے ہیں۔ پھر یہ منصوبہ بندی کی پہلے دو برسوں میں کیا کیا کام ہونے چاہئیں۔ اس عرصے میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ پانچ برسوں میں کیا کرنا ہے اور پھر اس کے مطابق آگے بڑھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں پاکستان میں حکومتیں ایسی کوئی ذمہ داری محسوس یا قبول نہیں کرتیں۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے جو اس وقت حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم کے حوالے سے نکلا یا اڑھائی تین سال پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کے معاملے میں نکلا تھا۔ اب جبکہ ایک بڑا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ کام وقت پر مکمل کر لیا جائے اور کوئی ایشو ان معاملات میں نئی رکاوٹیں پیدا کرنے کا باعث نہ بنے۔
(تجزیہ :بی این پی)