’’ن‘‘ لیگ کی’’ن‘‘ لیگ کو شکست ،پی ٹی آئی کاکردار ۔۔۔۔!!
شیئر کریں
قیاس آرائیوں ،تجزیوں اور رنگ برنگے دعوؤں نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے ہونے والے انتخابات کو عوامی سطح پر خصوصی دلچسپی کا باعث بنادیا تھا ،تاہم پورے صوبے میں جس الیکشن کو غیر معمولی دلچسپی اور توجہ ملی وہ فیصل آباد سٹی کے میئر کا انتخاب تھا ،جہاں مخالف سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ن لیگ ہی ن لیگ کے مد مقابل تھی ،صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں رانا گروپ کے امیدوار ملک رزاق اور وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی کے والد چوہدری شیر علی کی قیادت میں میئر گروپ کے امیدوار شیراز کاہلوں کے مابین کانٹے دار مقابلہ تھا ، دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملوں کا سلسلہ جاری رہا جبکہ جماعتی حملوں سے اجتناب دونوں کی مجبوری تھی کہ خود زد میں آتے ۔سیاسی اور عوامی حلقوں میں ن لیگ کی اندرونی صفوںمیں تقسیم کی باتیں زبان زد خاص و عام ہیں جو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کی سربراہی میں راجپوت گروپ اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں کشمیری گروپ کی شناخت رکھتے ہیں ،راجپوت گروپ کے حوالے سے یہ بات بھی تواتر سے کہی جارہی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اس گروپ کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں جبکہ وزیر اعظم نوازشریف کا ذہنی میلان کشمیری گروپ کی جانب ہے ۔فیصل آباد کے سابق میئر اور وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی کے والد چوہدری شیر علی وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی رشتہ دار ہیں ، جبکہ رانا ثناء اللہ وزیر اعلی شہباز شریف سے بہت زیادہ قربت کی شہرت رکھتے ہیں ، رانا گروپ کو راجپوت گروپ کی سرپرستی حاصل ہے چنانچہ فیصل آباد میں میئر کے مقابلے کو راجپوت اور کشمیری گروپوں کے مابین مقابلہ سمجھا جارہا تھا ۔ بلدیہ فیصل آباد کے ووٹروں کی تعداد 182ہے جن میں سے 20کا تعلق تحریک انصاف سے ہے،20ووٹوں کے ساتھ الیکشن جیتنا ظاہر ہے کسی طور ممکن نہیں تھا اس لیے تحریک انصاف کے لیے مقامی سطح پر اس الیکشن میں دو آپشنز تھے ،نمبر ایک وہ دونوں سے لاتعلقی کا اظہار اس بنیاد پر کردیں کہ جو کوئی جیتا یہ جیت ن لیگ کے کھاتے میں ہی جائے گی۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ ان میں سے کسی ایک کی حمایت کرکے مقامی سیاست یا بلدیاتی ادارے میں اپنے لیے بہتر امکانات پیدا کرلیں ۔تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں نے بہت صحیح سیاسی فیصلہ کیا اور انہوں نے اپنا وزن رانا گروپ کے پلڑے میں ڈال دیا ۔میئر گروپ کے مقابلے میں رانا گروپ ان کے لیے لائق ترجیح کیوں بنا ،اس کی دو وجوہ ہیں ،نمبر ایک یہ کہ اگرچہ عمران خان کے لیے رانا ثناء اللہ کی زبان سے بھی پھول نہیں جھڑتے مگر عابد شیر علی جو لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں وہ رانا ثناء اللہ کی ’’گل افشانی ‘‘سے کئی گناہ زیادہ اور تضحیک آیز ہے ۔ ایک تو اس چیز نے تحریک انصاف کے لیے رانا ثناء اللہ گروپ کو قابل قبول بنایا دوسرے شیر علی گروپ کو کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کی آشیرباد حاصل کردہ گروپ سمجھا جاتا ہے اس لیے شیر علی گروپ کی شکست تحریک انصاف کے لیے بلاواسطہ طور پر صحیح نوازشریف کی شکست ہے اور اس طرح نوازشریف کی شکست کے احساس نے ان کے ’’انتقامی جذبے ‘‘کی تسکین کا سامان کیا ہے ۔عمران خان نے اس اقدام پر فیصل آباد میں رانا گروپ کو ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے ووٹروں کو جن کی سربراہی ممتاز چیمہ کررہے ہیں پارٹی سے نکالنے کا ’’نادر شاہی‘‘ حکم جاری کرکے ایک بار پھر اپنی سیاست سے نابلد ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ پیارے پاکستان کی روایتی سیاست میں مقامی سطح پر مخالف پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ معمول کی بات ہے دوسرے اگر تحریک انصاف کے 20ووٹ رانا گروپ کو نہ ملتے تب بھی وہ میئر گروپ کے 73ووٹوں کے مقابلے میں 85ووٹوں سے جیت جاتے ،اب یہ جیت 105ووٹوں سے ہوئی ہے ۔دوسرے مقامی تحریک انصاف نے عابد شیر علی کے والد کے گروپ کی شکست میں حصہ دار بن کر اپنے قائد عمران خان کے خلاف تضحیک آمیز لب و لہجے کا انتقام لیا اور ساتھ ہی راجپوت اور کشمیری گروپوں کے مابین خلیج کو وسیع کیا ہے ،عمران خان کا غیر سیاسی ذہن سیاست کی ایسی باریکیوں کے فہم سے عاری ہے ۔
آج جب یہ سطور شائع ہونگی ،پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف زرداری کراچی میں اپنا سیاسی شو کرچکے ہوں گے ،ان کی آمد یقینا ملکی سیاست میں قابل ذکر واقعہ ہے اور اس سے اگر ذہنوں میں یہ سوال کلبلائے کہ ان کی ڈیڑھ سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپسی سے ملک کے سیاسی منظر نامے میں کیا تبدیلیاں رونما ہونگی تو یہ غیر فطری نہیں ہے ۔ اس سوال کا صحیح جواب تو ان کے آنے کے بعد ان کے سیاسی طرز عمل کے آئینے میں ہی مل سکے گا البتہ قیاس اور خیال آرائی کی روشنی میں وہ کوئی بڑا سیاسی دھماکا نہیں کرسکیں گے ۔اقتدار کی غلام گردشوں میں گونجنے والی سرگوشیوں کے مطابق انہیں وزیر اعظم کی خاص قربت رکھنے والی شخصیت کے ذریعے واپسی کے لیے ’’سازگار ماحول‘‘ کا پیغام دیا گیا،اندر کی باتیں جاننے کے دعوے داروں کے مطابق یہ ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ بلاول کو حکومت کے خلاف سخت لب و لہجے میں بیانات کے ذریعے عمران خان کے متبادل کے طور پر سامنے لانے کی جو کوشش کی گئی تھی وہ بات نہیں بن سکی،کیونکہ عمران خان کی سیاسی مہم کا مرکزی نقطہ کرپشن ہے۔ اس نقطہ پر عمران سے زیادہ زور دار انداز سے آواز اٹھا کرہی اس سے آگے بڑھا جاسکتا ہے مگر بلاول کے لیے مشکل یہ ہے کہ جب وہ کرپشن کے خلاف ’’جہاد‘‘کا اعلان کرتا ہے تو اسے اس ردعمل کا سامنا کرنا ہوتا ہے کہ پہلے اپنے گھرکی صفائی پر تو توجہ دے ۔اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ زرداری واپس آکر کرپشن مخالف مہم کی بجائے روایتی سیاست کے داؤ پیج اور توڑ جوڑ کے حربے اختیار کرکے اس ختم ہوتے تاثر کو بحال کریں کہ ملک میں دو ہی سیاسی قوتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہیں ۔
یہ تو طے ہے کہ عبدالرحمن ملک کے ذریعے فوج سے معاملات سدھارنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکیں گزشتہ کالم میں عرض کیا گیا تھا کہ اس حوالے سے زرداری صاحب واپسی پر کچھ ’’احتیاط‘‘کو ملحوظ خاطر رکھیں گے ،آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جانا اس احتیاط کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے ۔پیپلز پارٹی میں یہ خدشات پائے جارہے تھے کہ اے ڈی خواجہ جس طرح کے کھرے پولیس افسر ہیں کسی جانب سے اشارہ ہوا تو وہ آصف زرداری کی گرفتاری میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے، لہذا فوری ممکنہ خطرے کو ٹال دیا گیا ہے ،اگرچہ باخبروں کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف کی حمایت کے باوجود وطن واپسی کیلیے امریکی مدد حاصل کی گئی ہے مگر ملک میں قیام انتہائی مختصر رکھنے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے جس کے تحت وہ جلدی جلدی آئندہ انتخابی اتحاد کے حوالے سے مختلف سیاسی قائدین سے رابطے،ناراض لیڈروں سے ملاقاتیں ،اور فوج کی حمایت میں بیانات کے ذریعے اپنے لیے بہتر امکانات پیدا کرنے کی کوشش کریںگے ۔سندھ ہائی کورٹ نے اگر آئندہ پانچ چھ روز میں ایان علی کے بیرون ملک جانے پر پابندی ختم کردی تو اسے بھی ’’بہتر امکانات ‘‘کا کرشمہ سمجھا جائے گا۔ بہرحال 27دسمبر کو بے بظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر آصف زرداری جو خطاب کریں گے اس سے پیپلز پارٹی کے سیاسی مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے گا ۔
٭٭