میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ 		قسط32

سفر یاد۔۔۔ قسط32

منتظم
جمعه, ۲۳ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اگلے روز کالج پہنچ کر ہم پھر مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے اور اس کو بتایا کہ نسیم شرقی کے ولا میں پاکستانی رہتے ہیں اور ہم کو وہاں شفٹ کردیا جائے۔ وہ بولا تمہیں وہاں شفٹ کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے، ہم نے پوچھا پھر کس کے اختیار میں ہے؟ کہا ہیڈ آفس سے بات کرنا ہوگی، ہم نے کہا تو جناب ہیڈ آفس میں بات کریں کیونکہ ہمارے لیے جنادریہ کیمپ سائٹ پر رہنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ مصری منیجر ہیڈ آفس بات کرنے کے لیے راضی ہو گیا۔ ہم وہاں سے واپس اپنے دفتر میں آگئے، ہمارا موڈ آف تھا ہمارے باس سیمی نے ہمیں کام پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ ہمارا موڈ تو کئی روز سے خراب چل رہا تھا سیمی کا مشورہ ہمیں برا لگا، ہم اٹھ کر باہر نکلے اور جلال صاحب کی طرف چلے گئے۔ وہ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، ہمارا اترا ہوا منہ دیکھا تو سمجھانے لگے ،بولے میاں ایسے نہیں چلے گا یہاں کام کرنے کے لیے آئے ہو، اس لیے کام کرو یہاں کام نہ کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ہم نے کہا جلال صاحب ہم نے کب کام کرنے سے انکار کیا ہے ہمیں تو رہائش کے حوالے سے شکایت ہے۔ کیمپ میں رہائش اچھی نہیں، دوسرے کوئی پاکستانی نہیں ، وقت گزارنا بہت مشکل ہورہا ہے، ہمارا تو دل یہی کر رہا ہے کہ کسی طرح واپس چلے جائیں۔ جلال صاحب نے کہا یہ اتنی آسانی سے نہیں جانے دیں گے،پاسپورٹ ان کے پاس ہے، صبر شکر سے کام لو میاں اب تو تین سال بعد ہی واپسی ہو سکتی ہے۔ جلال صاحب اپنے کام میں لگ گئے ،ہم کچھ دیر بیٹھ کر واپس اپنے دفتر پہنچے جہاں سیمی کا موڈ مزید آف ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہاں گئے تھے اور کام چھوڑ کر کیوں گئے تھے۔ ہم چپ رہے ،سیمی نے مزید کچھ سخت باتیں کیں جن کا ہم نے جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کام میں لگ گئے۔ چھٹی کے وقت ہم پھر مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے اس سے پوچھا کہ اس کی ہیڈ آفس بات ہوئی یا نہیں۔ مصری منیجر نے کہا اس نے ہیڈآفس سے منظوری کے لیے لیٹر لکھ دیا ہے، دو ایک روز میں جواب آجائے گا، ہم نے پوچھا کیا درخواست منظور ہو جائے گی، مصری منیجر نے کہا میں نے زور تو دیا ہے جواب کا انتظار کرو۔ہم کیمپ واپس پہنچے تو موڈ سخت خراب تھا،اپنے کیبن میں جا کر لیٹ گئے، کھانا بھی نہیں کھایا، طبیعت بوجھل ہو رہی تھی، ان حالات میں جانے کب آنکھ لگ گئی۔ کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا جس کی آواز سے آنکھ کھل گئی، دروازہ کھولا تو سامنے گلزار کھڑا تھا۔ بولا بھائی کیا حالت بنائی ہوئی ہے آپ نے، کئی روز سے میری طرف چکر بھی نہیں لگایا تو میں آج دکان بند کرکے خود ہی آگیا۔ ہم نے شرمندگی کے ساتھ گلزار کا استقبال کیا اسے کیبن میں بٹھایا، رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے ،ہماری حالت بھوک سے خراب تھی، کیبن میں جوس اور بن رکھے تھے گلزار کو جوس پیش کیا اور خود جوس اور بن کھانے بیٹھ گئے۔
گلزار نے کہا بھائی لگتا ہے آپ نے کھانا بھی نہیں کھایا ،کم سے کم کھانا کھانے ہی آجاتے۔ ہم نے کہا خان صاحب تھے تو کھانا ہم یہیں بنا لیتے تھے، ہم تمہاری طرف بھی اس لیے نہیں آرہے تھے کہ خان صاحب ساتھ ہوتے تھے اور تماری شائد خان صاحب سے نہیں بن رہی تھی۔ گلزار بولا بھائی پردیس ہے یہاں کسی سے بنے نا بنے، گزارا کرنا ہوتا ہے۔ آپ آجاتے تو اچھا ہوتا خیر اب دکان پر چلیں سالن رکھا ہے ،بقالے سے روٹی لے لیں گے آپ کھانا تو کھا لیں۔ ہم نے کہا گلزار تہمارے خلوص کا قرض ہم نہیں اتار سکتے لیکن اس وقت کہیں جانے کی ہمت نہیں ہے بن سے کام چل جائے گا، کل کھانا تمہارے ساتھ ہی کھائیں گے۔ ہم نے گلزار کو بتایا کہ ہم نے رہائش تبدیل کرنے کی درخواست دے دی ہے، منظور ہو گئی تو ہم ایک دو روز میں نسیم شرقی شفٹ ہو جائیں گے۔وہاں کچھ پاکستانی بھی ہیں۔ گلزار بولا چلیں اچھا ہے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن جب تک آپ یہاں ہیں کھانا آپ نے میرے ساتھ ہی کھانا ہے۔ گلزار رخصت ہوا تو ہماری نیند بھی رخصت ہو چکی تھی۔ کافی دیر کروٹیں بدلتے رہے لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ ذہن میں سوچوں کی آندھی چل پڑی تھی، گھر کی یاد، محلے پڑوس کے دوست، دفتر کے ساتھی ، اپنے شہر کی گلیاں سب یاد آرہا تھا۔ اچھے مستقبل کی امید سعودی عرب کھینچ لائی تھی لیکن یہاں کے حالات نے مستقبل کی تصویر کو دھندلا کر دیا تھا،تین سال بعد کیا حالات ہوں گے، گھر والوں کی توقعات کیا ہوں گی، ہم کتنے پیسے بچا پائیں گے،یہاں تین سال کا کنٹریکٹ مکمل کرنے کے بعد کیا ہوگا۔ کیا ہم کو واپس پاکستان جانا پڑے گا یا یہیں کوئی دوسری نوکری کا انتظام ہو جائے گا۔ ہم نے سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا ابھی تو یہاں رہائش کا مسئلہ حل ہو جائے تو آگے کی آگے دیکھی جائے گی، اسی ادھیڑ بن میں آخر نیند آگئی۔۔۔ جاری ہے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں