ہائے امریکا ،بائے امریکا
شیئر کریں
اگر دنیا میں مکافاتِ عمل کا آفاقی و آسمانی قانون ابھی تک رائج ہے پھر یقینا امریکا کے ساتھ وہی کچھ ہو رہاہے ،جو کبھی امریکا دنیا بھر کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ امریکا نے ایک مدت تک دنیا کو سیاسی،لسانی ،نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیے رکھا اور آج وہی تقسیم امریکا میں صاف ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ امریکا نے کم ازکم پانچ دہائیوں تک ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا اور آج امریکی ذرائع ابلاغ امریکی انتخابات میں چین اور روس کی مبینہ مداخلت کی چیخ ،چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے ۔ گزشتہ نصف صدی سے امریکا جس جمہوریت کے حق میں صبح و شام رطب اللسان رہا ، آج اُسی جمہوری نظام ہائے حکومت میں امریکا کے اپنے منتخب نمائندے کیڑے نکال رہے ہیں اور تجاویز دے ہیں کہ منقسم امریکا کو مزید تقسیم در تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے ایک نئے حکومتی نظام کی تشکیل پر بحث وتمحیص کا آغاز کیا جائے۔امریکا کل تک جس جدید ترین ٹیکنالوجی پر نازکرتے ہوئے دنیا بھر کو جتلایا کرتا تھا کہ امریکاکے انتخابی عمل کو دھاندلی جیسے الزامات سے بچانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ اور آن لائن ووٹنگ جیسی جدید سہولیات استعمال کی جاتی ہیں۔ آج اُسی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ حالیہ امریکی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ اور آن لائن ووٹنگ کو دھاندلی کے ایک موثر آلہ کے طور پر بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا ہے ۔
لطیفہ ملاحظہ ہو کہ جس وقت ہماری اپوزیشن جماعتیں اور حکومتی رہنما انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے انسداد کے لیے انتخابی اصطلاحات میں آن لائن ووٹنگ کا طریقہ کار متعارف کروانے کی ترمیم کرنے کا سوچ رہے ہیں ،عین اُسی وقت امریکا میں آن لان ووٹنگ کو ترک کرکے پرچی سسٹم کے ذریعے انگوٹھا لگا کر ووٹ ڈالنے کا نظام لائے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہاہے۔ سب سے بڑا لمحہ فکریہ تو یہ ہے غریب ممالک کے بچے بچے کے ہاتھ میں اسلحہ تھمانے والے امریکا میں آج اتنا اسلحہ جمع ہوچکا ہے کہ گمان کیا جارہاہے کہ ہر امریکی کے گھر میں راشن موجود ہو یہ ضروری نہیں لیکن جدیداسلحہ کی موجودگی لازمی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ انتخابات میں امریکی شہریوں نے جسے شئے کی سب سے زیادہ خریداری کی ہے ،وہ جدید اسلحہ ہے ۔واضح رہے کہ عام امریکی شہریوں کا بڑے پیمانے پر اسلحہ خرید کر اپنے گھروں میں رکھنا صرف اُن کے عدم تحفظ کے احساس کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ اس بات کی خطرناک علامت بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں امریکی کی دو بڑی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ نے امریکی معاشرے کو سوائے زوال کے کچھ نہیں دیا۔
لمحہ فکریہ تو یہ ہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معاشرے میں اچانک سے در آنے والے اسی جمہوری و اخلاقی زوال کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں نہیں بلکہ کربھی رہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکی انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ایوانِ اقتدار میں متمکن امریکی صدر کے انتخابی اختیارات سلب کرنے کی بہت پرانی روایت رہی ہے۔ مگر صدر ٹرمپ حالیہ انتخابات کے بعد اپنے انتظامی اختیارات پہلے سے بھی زیادہ بھرپور انداز میں استعمال کررہے ہیں ۔ ٹرمپ نے جو بائیڈن کو امریکی وزارت دفاع کی جانب سے ملنے والی تمام بریفنگ بھی رکوادی ہیں ۔نیز وہ اہم ترین عہدوں پر تقرر و تبادلے بھی اُسی شان سے فرمارہے ہیں جیسے کے وہ انتخابات سے پہلے کیا کرتے تھے ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگے کہ امریکی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے زیادہ شدت اور بے حمی کے ساتھ صدارتی اختیارات کو استعمال کرنا شروع کردیاہے ۔
بعض تجزیہ کاروں کا تو خیال ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آنے والے دنوں میں امریکی انتخابات میں اپنی جیت کا سرکاری حکم نامہ وائٹ ہاؤس سے خود بھی جاری کرسکتے ہیں۔ بھلے ہی اس صدارتی حکم نامے کی اہمیت امریکی آئین اور قانون کے نظر میں کچھ بھی نہ لیکن بہر حال اس طرح کا حکم نامہ ٹرمپ کے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے زبردست بہانہ ضرور فراہم کرسکتاہے ۔یہ ہی وہ نازک وقت ہوگا جب امریکی شہریوں کا خریدا ہوااسلحہ امریکا کے خلاف بھی استعمال ہوسکتاہے ۔ ہماری دُعا ہے کہ خدا کرے کہ ایسا وقت کبھی نہ آئے لیکن جس ملک کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہو کم ازکم ایسی ریاست کو تو ہر متوقع اور غیر متوقع صورت حال کے لیے پوری طرح سے تیار رہنا چاہئے۔ یاد رہے کہ امریکی انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کے امریکی صدر کے بیانیے نے امریکا بھر میں مظاہروں اور پُرتشدد واقعات کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔گزشتہ ہفتوں کے دوران انتخابی نتائج کے معاملہ پر امریکی شہروں میں کئی پُرتشدد واقعات سامنے آئے اور مسلح مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے حق میں نہ صرف کھل کر اظہار خیال کیا بلکہ نسلی تعصب کی فضا کو اُبھارنے کی بھی کوشش کی ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ امریکاجیسے ملک میں بھی سیاسی تناؤ کے نتیجے میں تشدد و انارکی پھیلنے کے وسیع تر خطرات پائے جاتے ہیں۔ جبکہ خطرہ تو یہ بھی ہے کہ 20 جنوری 2021 کی شام جب امریکی فوج نئے منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کو سلامی پیش کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس میں جمع ہوں گے تو عین ممکن ہے کہ اُس وقت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو سیلوٹ کرنے کا کہہ دیا جائے تو اس طرح امریکی فوج بھی شدید ترین مشکل صورت حال سے دوچار ہوسکتی ہے۔
مگر صورت حال صرف یہیں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلی مدت کے لیے اپنی صدارت کو محفوظ اور یقینی بنانے کے لیے ایک خطرناک قسم کا پلان بی بھی تیار کیا ہوا۔ جس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے دو ماہ میں ایران، چین یا روس کے خلاف باقاعدہ جنگ بھی چھیڑ سکتے ہیں ۔ تاکہ جنگ کے خصوصی حالات کی وجہ سے حالیہ امریکی انتخابات کے نتائج کو پس پشت ڈال کر ’’نظریہ ضرورت ‘‘ کے تحت ٹرمپ کو عہدہ صدارت پر برقرار رکھنے کے لیے امریکی ریاست کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی باقی نہ بچے۔ اس حوالے سے معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے ۔جس میں چار موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ’’ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر حملہ کرنے کے لیے اعلی عسکری حکام سے صلاح و مشورہ بھی کرچکے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے سینیئر ترین مشیروں سے پوچھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے کون سے آپشن ہیں اور ان کا کیا جواب دیا جائے‘‘۔
اخباری رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ’’امریکی افواج کے حملے کا امکان ایران کے افزودگی پروگرام کے مرکز ’’نتنز‘‘پر ہے‘‘۔ جس کے بارے میں ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ یہ صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔نیز رپورٹ کے دیگر مندرجات کے مطابق ’’امریکی نائب صدر مائیک پینس، سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو، قائم مقام دفاعی سیکریٹری کرسٹوفر ملر اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک میلے سینیئر مشیروں میں شامل تھے اور مذکورہ افراد نے امریکی صدر کو حملے سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا‘‘۔لیکن اس خفیہ اجلاس کی جان کاری رکھنے والے عہدیداروں نے اخبار کو یہ بھی بتایا ہے کہ’’ ٹرمپ،ایران اور اُس کے جوہری اثاثوں پر حملہ کرنے کے منصوبوں کے بارے میں ابھی بھی سوچ رہے ہیں‘‘۔اس طرح کی دستاویز سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤ س میں اپنے قیام کو اگلی مدت کے لیے یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی اقدام انتہائی آسانی سے اُٹھاسکتے ہیں۔
یادرہے کہ یہ سکے کا صرف ایک رُخ ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سکے کا دوسرا رخ بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے اورٹرمپ کی مانند ڈیموکریٹ رہنما جو بائیڈن بھی اقتدار کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے پر پوری طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق جو بائیڈن نے بھی دنیا بھر میں تعینات ریپبلکن سفیروں کو خفیہ ہدایت جاری کردی ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامہ کی طرف سے جاری ہونے والے سرکاری احکامات کی مختلف حیلے بہانوں سے مزاحمت کرنا شروع کردیں اور آخری اطلاعات آنے تک انہوں جوبائیڈن کی منشاء اور ہدایت کے مطابق ریپبلکن سفیروں نے بھی اپنے رنگ، ڈھنگ چوکھے سیاسی انداز میں دکھانے شروع کردیئے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر میں اپنی پالیسیاں کو جاری رکھنے ،منوانے یا تبدیل کروانے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔ علاوہ ازیں جوبائیڈن کے سیاسی بیانات دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھلے ہی جتنے خوش کن اور دلفریب محسوس ہورہے ہوںلیکن اصل میں وہ بھی اپنے حامیوں کو انتخابی نتائج کے دفاع کے لیے ہرممکن حربہ آزمانے کی کھلی چھوٹ دے چکے ہیں۔ اس لیے اگر امریکا میں سیاسی حالات ناگفتہ صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو اس میں صرف ریپبلکن ہی نہیں بلکہ ڈیموکریٹ بھی برابر کے ذمہ دار ہوں گے ۔ سب سے بڑھ کر تو چند صفحات کا امریکی آئین بنانے والے وہ عالی دماغ ’’امریکی فادرز‘‘ ذمہ دار ہوں گے کہ جنہوںنے پورے امریکی آئین میں ایک بھی آئینی شق وضاحت سے لکھنے کی زحمت گوار ا نہیں کی اور آئین کو ایسے بنایا کہ جوچاہے اس میں سے اپنی مرضی کا ’’آئینی حکم ‘‘برآمد کرلے ۔ ہمارے خیال میں امریکا کو بھی گیارہویں ، بارہویں ،اٹھارویں اور اکیسویں ترمیمات جیسی کسی ترمیم کی شدت سے ضرورت ہے ۔بصورت دیگر دنیا بھر سے ہائے امریکا کہنے والے والے، ہم جیسے لوگ امریکا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بائے بھی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔