’’خان آف میانوالی ‘‘ کو سیلوٹ
شیئر کریں
ایک ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے کہ بنی گالہ کے عمران خان چوک پر رانا مختار خالد کی گاڑی نے چڑھائی چڑھنا شروع ہی کی تھی کہ عمران خان کے تین گاڑیوں پر مشتمل قافلے نے ہمیں کراس کیا ۔۔ گیٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی خیبر پختونخواہ تحریک انصاف کی آبرو مند بیٹیوں فرزانہ زین اور فلک ناز چترالی نے بھی ہمیں آ لیا ۔ لان کی ہلکی دھوپ میں’’ خان آف میانوالی‘‘ اپنے ساتھیوں علیم خان ، جہانگیر خان ترین اور دوسروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ کپتان نے دیکھتے ہی اُٹھتے ہوئے کہا کہ آ گئے ہو۔وہ ہمارے ساتھ کمرے میں آ گئے ۔ ملاقات کے اختتام پر انہوں نے بتایا کہ ابھی سعودی سفیر سے مل کر آ رہاہوں ، ایران کے سفیر سے ملنے جانا ہے ۔ُ ان دِنوں حوثی باغیوں اور یمن کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ کشیدگی کے نشانے پر تھا ۔ میں نے سوال کیا کہ آپ دونوں کے درمیان مصالحت کروانے میں کوئی کردار ادار کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ ۔ ایک ایقان جو کپتان کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے۔ وہ اُن کی آنکھوں سے جھلکتا دکھائی دیا ۔ بڑے یقین سے اُن کا کہنا تھا ،جب میں ایسی کسی پوزیشن میں ہوا تو بھرپور کردار اداکروں گا ، امریکا سمیت بڑی طاقتیں ایسا نہیں چاہیں گی ۔ میری طرف سے اتنا کہنا تھا کہ گاڑی کی طرف چلتے چلتے وہ ٹہر گئے’’ اُن کا کیا ہے، ہم نے وہ کرنا ہے جو ہمارے ملک قوم اور خطے کے مفاد میں ہوگا ۔ نیا پاکستان ایسا پاکستان ہوگا جو کسی کے رُعب میں نہیں آئے گا‘‘۔ سارے لوگ گاڑی میں بیٹھ چُکے تھے، بیٹھنے سے پہلے میرا نام لے کر انہوں نے ہاتھ ہلایا اور گاڑیاں بڑے گیٹ سے باہر نکل گئیں ۔میرے ذہن میں قوم کے سامنے مُکے لہرانے والے پرویز مشرف آگئے جو امریکی وزیر دفاع جنرل کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر ہی ڈھیر ہو گئے تھے اور جتنا عرصہ بر سرِ اقتدار رہے قوم کو پتھر کے زمانے کا ڈراوا دے کر امریکیوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے رہے۔۔بات پرویز مشرف پر ختم نہیں ہوتی ماضی قریب میں جنرل ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ ایسا کوئی بھی نہیں تھا جس نے امریکا کو للکارا ہو۔
روایتی سیاست کے پجاریوں کو عمران خان سے سب سے بڑا خطرہ یہی تھاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی قائدانہ صلاحتیں اپنا رنگ دکھاتی جائیں گی اور ماضی کی سیاست قصہ پارینہ بننے لگے گی ۔ان سب کے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ مختلف چینلز پر اپنے اپنے مالکان کے کاروباری مفاد کے تحفظ کی جنگ لڑنے میں مصروف وہ سب جو یوٹرن کے حوالے سے عمران خان پر تنقید کے کوڑے برسا رہے تھے ۔ عمران خان کی جرات اور بہادری کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ایسا کیوں نہ کرتے فرار کی راہ نظر نہیں آتی ۔ بائیس سال تک سیاست کی وادیِ پُر خار میں جدوجہد کرنے والے نے ایک ٹوئٹ سے ہی بائیس کروڑ عوام کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک ایٹمی پاور کے سربراہ کے لہجے میں بات کرنے سے دُنیا دم بخود ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی جرأتِ اظہار سے مغربی دنیا اور سرکردہ ایشیائی ممالک حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا خصوصاً اخبارات چیخ اُٹھے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے کہ عمران خان پاکستان کے روایتی حُکمرانوں جیسا نہیں ہے۔ روس، ایران ، جنوبی کوریا، عرب ممالک ، فرانس ، تُرکی ، برطانیا ، جاپان اور عوامی جمہوریہ چین کے اخبارات نے ڈونلڈ ٹرمپ کو منہ توڑ جواب کے معاملے کو شہ سُر خیوں کی زینت بنایا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی وہ فوٹیج بار بار دکھائی جا رہی ہے جس میں وہ پرچیاں تھامے امریکی صدر اوباما کو ’’ سبق ‘‘ سُنا رہے ہیں ۔ امریکی صدر اُسی وقت سے سٹپٹا رہے ہیں جب سے انہوں نے پاکستان کی امداد بند کی اور پاکستان امریکا کے اس اقدام کو خاطر میں نہیں لایا ۔امریکی اس پر بھی لہوکے گھونٹ پی کر رہ گئے کہ عرب ممالک اور عوامی جمہوریہ چین کے کامیاب دوروں نے عمران خان کے جذبے کے لیے مہمیز کا کام دیا ہے۔ عربوں نے پاکستانی وزیر اعظم سے جو والہانہ انسپائریشن لی ہے اُس نے استعمار اور انکل سام کے غبارے سے ہوا نکالنا شروع کر دی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے تین ماہ کے عرصے میں اپنے چھ غیر ملکی دورں میں جو کامیابی اور پزیرائی حاصل کی ہے وہ بھی ماضی میں کسی پاکستانی حُکمران کا مقدر نہ بن سکی ۔ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے جس والہانہ انداز میں عمران خان کو خوش آمدید کہا اور رُخصت کیا اُس کی ملائیشیاکی اپنی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف عمران خان کے ساتھ نیازی لاحقہ پھبتی کسنے کے انداز میں لگاتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں امریکا کے جارحانہ طرزِ عمل کے سامنے ان دونوں جماعتوں کی قیادت کا جو انداز ہوتا تھا اُسے جرم ضعیفی سے تعبیر کیاجاتا رہا ہے۔ سابقہ نواز حکومت تو کل وقتی وزیر خارجہ سے ہی محروم رہی ۔ امریکا اور بھارت کے جارحانہ رویہ کے مقابلے میں قوم کی غیرت وحمیت کا بھرم رکھنے کے لیے اکثر اوقات پاک فوج کی قیادت کو میدان میں آنا پڑتاتھا ۔ لیکن نئے پاکستان میں دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے تمام ادارے یک قالب و یک جان ہیں۔
امریکا کو افغانستان میں جس شکست کا سامنا ہے وہ اُس کی اپنی کرنی ہے۔ اس میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ’’ امریکی صدر بُش اوربرطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرکواگر کوئی دس منٹ پہلے افغانستان پر حملہ آوروں کے عبرتناک انجام سے آگاہ کر دیتا تو شاید یہ دونوں افغانستان پر حملہ آور ہونے کی غلطی کبھی نہ کرتے ۔‘‘ولیم ڈیل رمپل (Wiliam Deal Rumal ) ایک انگریز مصنف ہیں جنہیں برِ صغیر میں مغلوں کی تاریخ پر اتھارٹی سمجھا جا تا ہے ۔ اپنی کتاب ’’ The Last Mughal ‘‘ میں وہ افغان اور ان سے ملحقہ برکی قبائل کے علاقوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ 1843 ء میں اٹھارہ ہزار فوجیوں کی مدد سے برطانیا نے افغانستان پر چڑھائی کی ۔ افغانون نے یہ جنگ جیت لی ۔ اٹھارہ ہزار فوجیوں میں سے صرف ایک فوجی کو زندہ چھوڑا ، تاکہ وہ واپس جا کر اپنی حکومت کو بتا سکے کی اُس کی بھیجی ہوئی فوج کا کیا حشر ہوا ہے ۔ چار سال بعد انگریز وں نے دوبارہ افغانستان پر حملہ کیا اس کے ایک حصے پر قابض بھی ہو گئے لیکن چھ ماہ بعد افغانوں نے گوریلا وار چھیڑ دی جو ان کے نزدیک جہاد کا درجہ رکھتا تھا اس جہاد میں بھی انگریزوں کا وہی حشر ہوا جو پہلے ہوا تھا یعنی انگریزوں کو شکست ۔ بدترین شکست ‘‘ اس کے بعد کے معرکوں میں بھی پٹھانوں نے کسی کی اجارہ داری قبول نہیں کی ۔روس کو ہار ماننا پڑی اور اب امریکا کی قیادت میں نیٹو افواج بھی واپسی کی راہ تک رہی ہیں ۔کالم سمیٹے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اُس کی اپنی زبان میں جواب دینے پر ’’ خان آف میانوالی ‘‘کو سیلوٹ کہ قوموں کی برادری میں پاکستان کا نام ایک غیرت مند قوم کے طور پر دوبارہ اُجاگر ہوا ہے۔