میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور بھارت کے خودکش حملے

کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور بھارت کے خودکش حملے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۳ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

بانیِ پاکستان نے کشمیر کے محل وقوع اور ہندوستان کی تقسیم کی اسکیم کو سامنے رکھتے ہوئے ،کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا تھا۔اس بیان میں یہ حکمت بھی پوشیدہ تھی کہ پاکستانی قوم اور حکمران کبھی بھی کشمیر سے غافل نہ ہوں۔ اسے پاکستان کے ساتھ ملانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں کیونکہ یہ ان کی حیات کا مسئلہ ہے۔انسانی زندگی کا انحصار پانی پر ہے اور پانی کشمیر سے بہہ کرپاکستان میں آتا ہے۔کشمیرعلاقائی، اخلاقی،مذہبی، ثقافتی، تمدنی ،معاشرتی اور ہندوئوں اور مسلمانوں میںمنظور شدہ تقسیم ِہندکے فارمولے کے تحت بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ قائد اعظمؒ کو یہ بھی معلوم تھا کہ انگریز ریڈ کلف ایوراڈ نے ہندوئوں کے ساتھ رواداری اور لڑائو اور حکومت کرو کی دائمی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت والے گرداس پور ضلع کو بھارت کے ساتھ ملا دیا۔اس اسکیم میںاپنے پرَوَردَہ قادیانیوں کو بھی شامل کر لیا۔
قادیانیوں کے لیڈر سر ظفراللہ خان نے ریڈ کلف کو ایک سازش کے تحت قائل کر لیا ۔ وہ اس طرح کہ تقسیم کے وقت گرداس پور میں ہنددئوں کی آبادی49 پرسنٹ دی۔ مسلمانوں کی آبادی51 پرسنٹ تھی اور قادیانوں کی2پرسنٹ آبادی تھی۔قادیانیوں نے اپنے جعلی نبی کی تحریریں ریڈ کلف کو دکھائیں جس میں اُس نے اپنے نئے مذہب میں اپنے آپ کو مسلمانوں سے ایک علیحدہ قادیانی مذہب قراردیاہے۔ اس طرح 2 پرسنٹ قادیانیوں کو 49 پر سنٹ ہندوئو ں کے ساتھ شامل کر کے ہنددئوں کا تناسب 51 پرسنٹ کر لیا گیا۔ اور اس جعلی اکثریت کے بہانے پر ریڈ کلف نے گرداس پور کو بھارت کے ساتھ شامل کر دیا۔ کشمیر جانے کا واحد زمینی راستہ درہ دانیال بھارت کو دے دیا ۔ اس سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہو کر قبضہ برقرار رکھنے میں موقع فراہم کر دیا۔ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد کشمیریوں کی نمائیدہ جماعت ،مسلم کانفرنس نے پاکستان کے ساتھ ملنے قرارداد پاس کی تھی۔ اس کے بعد کشمیر کے بھگوڑے راجہ نے بھارت کے ساتھ شریک ہونے کی جعلی قراداد پاس کی ۔اب تو راجہ کے بیٹے نے بھی اس قرارداد کو جعلی قرار دے دیا ہے۔ بھارت نے اس قراراداد کو بہانہ بنا کر کشمیر پر ناجائز قبضہ کے لیے اپنی فوجیں اُتار دیں۔ قائداعظم ؒ نے اُس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جرنل گریسی کو کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم دیا۔ جرنل گریسی نے قائدؒ کا حکم ماننے سے انکارکیا۔
اسی دوران پونچھ کے ریٹائرڈ مسلمان فوجیوں نے بھارت کی فوج کو کشمیر سے نکالنے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیا۔ ان جہاد میںپاکستان کے بہادر سرحدی قبائل بھی شریک ہو گئے۔اُدھر گلگت بلتستان کے مسلمان مجاہدین نے بھگوڑے راجہ کی فوجوں کو شکست دے کر اپنے علاقے سے نکال دیا۔پونچھ کے مجاہدین ا ور پاکستان کے قبائلیوں نے آزادجموں و کشمیر کاتین میل چوڑا اور تیس میل لمبا موجودہ علاقہ بھارت سے واپس لے لیا۔ مجاہدین کشمیر سری نگر کے قریب پہنچنے والے تھے کہ بھارت کے لیڈر نہرو اپنے دانشور ،کوٹلیہ چانکیہ کی منافقت بھری پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جنگ بندی کی درخواست لیے اقوام متحدہ پہنچ گئے۔ اقوام متحدہ کے سامنے وعدہ کیا کہ کشمیر میںحالات پرامن ہوتے ہی ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیریوں کو حق استصواب رائے کا حق دیا جائے گا کہ کشمیری ا پنی آزاد رائے سے فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔وہ دن اور یہ دن کہ بھارت دنیا کے سامنے کیے، اپنے وعدے سے اعلانیہ مکر گیا۔
اقوام متحدہ نے وقتاً فوقتاً کشمیر پر قراردادیں بھی پاس کی۔ جو اب بھی اس کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔اقوام متحدہ نے ایل او سی پر اپنے مبصر بھی تعینات کیے ہوئے ہیں۔مگر مغرب کی لونڈی اقوام متحدہ مسلم دشمنی میں اس پر عمل درآمند نہیں کروا رہی۔انڈونیشیا اور سوڈان میں عیسائی اقلیتیوں کو فوراً ریفرنڈیم کروا کے آزادی دِلا دی۔ مگر کشمیر اور فلسطین میں جانب داری برت رہی ہے۔ نہ جانے57؍اسلامی ملکوں کے مسلم حکمرانوں اور مسلم امہ کو اللہ کا یہ سبق کب یاد آئے گاکہ یہود و نصارا تمہارے دوست نہیں ہو سکتے جب تک تم ان جیسے نہ بن جائو۔ صاحبو!جب تک مسلمان اپنی لیڈر شپ خود پیدا نہیں کریں گے مغرب ان کے مسائل کبھی بھی حل نہیں کرے گا۔مسلمانوں کو اپنی’’ لیگ آف مسلم نیشن‘‘ بنانی چاہیے۔ جہاں تک کشمیر کا مسئلہ ہے ،بھارت تو شروع دن سے کشمیر پر ہر طرح سے قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے اقدامات پر اقدامات کرتا گیا۔ دوسری طرف بانیِ پاکستان قائد اعظمؒ کی پالیسی سے پاکستان کے حکمران پیچھے ہٹتے گئے۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے جہاں تک کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر بھی کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اِن نادان حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ تو قائد ؒ کی برصغیر کے مسلمانوں کی نمایندگی کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی زور دارتحریک تھی جس کو ہندوئوں اورانگریزوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نیم دلی سے منظور کیا تھا۔ہندو لیڈروں نے تو اُسی وقت ہی کہہ دیا تھا کہ جوںجوںدو قومی نظریہ کمزرو پڑھے گا۔ ہم پاکستان کو واپس بھارت
میں ملا کر اَکھنڈ بھارت بنا لیں گے۔ اُسی ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے بنگالی مسلمانوں کو قومیت کے زہر میں مبتلا کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اوراب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہندو انتہا پسند دہشت گرد مودی کہتا ہے کہ مجھے گلگت اوربلوچستان سے مدد کے لیے فون کال آ رہی ہیں۔بھارت پاکستان اور خصوصی طور پر بلوچستان میں کھل کر دہشتگردی پھیلا رہا ہے۔اپنے ڈاکڑائن پر عمل کر کے افغانستان اور کسی حد تک ایران کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔
کشمیر سے پاکستان کی طرف بہہ کر آنے والے دریائوں پر لا تعداد بند بنا بنا کر پاکستان کا پانی روک لیا ہے۔ اس پانی کو اپنے علاقوں کی طرف موڑ رہا ہے۔ جب چاہے اس جمع شدہ پانی کو چھوڑ کر سیلاب اور روک کر پاکستان میں قحط کی سی کیفیت پیدا کر دے گا۔اب تودریائے سندھ پر کارگل کے مقام پرسرنگ لگا کر اس کے پانی کو اپنی طرف موڑ رہا ہے۔ اورپاکستان ہے کہ سندھ تاس معاہدے کی مناسب طور پر رکھوالی بھی نہیں کر سکتا۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کارگل کی جنگ چھیڑ کر بھارت کے سیاچین پر متعین۳۳ ہزار فوج کی سپلائی لین پر قبضہ کرلینا کا پروگرام تھا۔ہم دنیاکو کہہ سکتے تھے کی بھارت نے شملہ معاہدے کے بعد سیا چین پر ناجائز قبضہ کیاہوا ہے اس لیے ہم بھی حق بجانب ہیں۔ ہم نے اپنا علاقہ واپس لے رہے ہیں۔مگر ناہل وزیر اعظم نے امریکا سے ہاتھ جوڑ کر پسپائی اختیار کی۔ پاکستانی فوج اور مجاہدین کو نا حق بھارت کے رحم کرم پرچھوڑ دیا۔بھارتی فوجیوں نے انہیں چوٹیوں سے اُترتے ہوئے چن چن کر ہلاک کر دیا۔ شاید ان ہی شہید نیک روحوں کی سزا ملی اور پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے اس کو کرپشن کے الزام میں نا اہل قرار دے دیا۔ دوسری طرف بے نظیر صاحبہ نے سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں دے کر بھارت پر پرشیئر کم کیا۔
راجیو کے پاکستان کے دورے پر کشمیر کے بورڈ راستے سے ہٹا دیے۔کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں الیکشن کے موقعے پر بھارت پاکستان میں دو قومی نظریہ کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان کی سیکولر جماعتوں کی خفیہ طریقے سے اندر ہی اندرفنڈنگ کر تا رہا ہے۔اگر یہ وجہ نہیں تو کیوں سکھوں کی لسٹیں دیں گئیں؟ کیوں کشمیر کے بورڈ راستے سے ہٹائے گئے؟ دوسرے طرف نا اہل وزیر اعظم کھلم کھلا دو قومی نظریہ کی مخالفت کر کے لاہور میں۱۳؍ اگست 2011ء میں فرماتے ہیں’’ہم ہندو مسلمان ایک ہی قوم ہیں۔ ہمارا ایک ہی کلچرہے۔ ایک ہی ثقافت ہے۔ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔صرف درمیان میں ایک سرحد کی لکیر ہے۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں