میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لائن آف کنٹرول پر شہادتیں۔۔ لیکن حوصلے بلندہیں

لائن آف کنٹرول پر شہادتیں۔۔ لیکن حوصلے بلندہیں

منتظم
بدھ, ۲۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اشتیاق احمد خان
بہادرقیادت میںکمزور دل سپاہی بھی بہادر ہو جاتا ہے۔ افواج پاکستان کا ہر ہر سپاہی جس جذبہ سے سرشار ہے اس جذبے نے ہی کم ظرف دشمن کو حدود میں رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ قیادت کے مختلف مدارج ہیں ،ہر درجے کی قیادت اپنی سطح پر نہ صرف باصلاحیت ہے بلکہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار ہے۔ پاک فوج کے جوانوں نے وہ وہ کارنامے انجام دیئے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے کہ کیا انسان ایسا بھی کرسکتا ہے۔ یہ کام انسانی بس میں نہیں ہے، یہ یقینا کوئی ایسی قوت ہے جو ان انسانوں میں حلول کر گئی ہے کہ برف پوش پہاڑ ان کے حوصلے کو پست کر سکتے ہیں ، نہ ہی سمندر کی اتھاہ گہرائیاںانہیں خوفزدہ کر سکتی ہیں۔
گزشتہ ایک عرصے سے دنیا کی اکثر قوتیں پاکستان کی مسلح افواج کو شتربے مہار ثابت کرنے میں تلی ہوئی ہیں، مغرب کے نام نہاد دانشور اور آزادی صحافت کے ٹھیکیدار اپنی چونٹی سے بھی چھوٹی دانش کو ہمالیہ ثابت کرنے پر بضد ہیںتو آزادی صحافت کے نام پرمسلح افواج کو شتر بے مہار ثابت کی مذموم سازشوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے کبھی ایک اور کبھی دوسرا اخبار پاکستان آرمی کو Rog Army ثابت کرنے پر بضد ہے۔ لیکن پاکستان آرمی کے سپاہی سے سپہ سالار تک سب نے اپنے نظم وضبط سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان آرمی بے لگام گھوڑا نہیں، ایک ذمہ داراور نظم وضبط کا پابند ادارہ ہے۔
رواں سال کے دوران بھارتی درندگی سے کافی تعداد میں شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور فوجیوں کی شہادت بھی ہوئی ہیں۔ بھارتی اشتعال انگیزی اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ اب تو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باو¿نڈری پر بلاجواز فائرنگ روز مرہ کا معمول بن چکی ہے۔ امریکی انتخابات میں ٹرمپ (ایک انتہا پسند امریکی لیڈر) کی کامیابی کے بعد اس سلسلے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ مودی کی انتہا پسند سرکار کو اپنے تئیں یقین ہے کہ ٹرمپ اس کے لیے ٹرمپ کارڈ ثابت ہو گا شاید ہی کوئی دن جاتا ہوکہ بھارت سیز فائر کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔
پاکستان کے شیر دل جوان ہر وقت مستعد ہیں اور بھارت کی ہر دراندازی کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ، پاکستان میں شہری آبادی کا نقصان زیادہ نہیں ہے ۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ نے تو قوم کو حقائق سے بے خبر نہیں رکھا نہ ہی سرحدی چوکیوں پر موجود سپاہی اور افسر اپنے شہیدوں کی نعش کو وہاں چھوڑتے ہیں نہ ہی اپنی جان بچانے کے لیے زخمیوں کی امداد سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔پاکستان اپنے جانثاروں کو شہادت پر پورے اعزاز واحترام کے ساتھ تدفین عمل میں لاتا ہے۔ شہادتوں کا اعتراف بھی کرتا ہے اور وطن پر جان نچھاور کرنے والوں کی تصاویر بھی جاری کرتا ہے۔ اس عمل سے قوم میں مایوسی نہیں پھیل رہی ہے بلکہ دشمن کے خلاف ڈٹ جانے اور نعمت خداوندی پر اپنی جان نچھاور کرنے کا جذبہ ہر شہادت کے ساتھ بڑھ رہا ہے جس کو یقین نہ ہوجارحیت کے حالیہ سلسلہ شروع ہونے کے بعدلکھائے گئے رضاکاروں کے ناموں کی فہرست دیکھ لیں اور اس میں اضافے کی رفتار کو بھی ۔ اس فہرست میں جہاں 16 اور18 سال کے جذباتی نوجوان شامل ہیں وہیں ایک قابل قدر تعداد ان افراد کی بھی ہے جن کی عمریں 70 اور80 سال ہے یہ نظارہ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب ایک عمر رسیدہ فرد کو رضا کار میں نام لکھنے سے انکار کیاگیا تو وہ بچوں کی طرح رونے لگا کہ ٹھیک ہے میری عمر بڑھ گئی ہے لیکن کیا میں اب اپنے جوانوں کو پانی پلانے کے قابل بھی نہیں رہا ہوں، کیا میں غرناطہ کی اس فاطمہ سے بھی کم تر ہو گیا ہوں جو گڑیا کھیلنے کی عمر میں میدان جہاد میں تھی زخمیوں کی مرہم پٹی کر رہی تھی اور پانی پلا رہی تھی۔ یہ جذبہ تو آج بھی زندہ ہے، فرق صرف اتنا سا ہے کہ اس وقت قومی قیادت بھی اس ہی جذبہ سے سرشارتھی۔ آج مودی سرکار سے دوستی وطن کی حرمت سے عزیز ہو چکی ہے۔
کل بھوشن یادیوکو ظاہر کرنا اس لیے بھی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ جہاں سے پکڑا گیا تھا اس کی گرفتاری کے گواہ بھی موجود تھے اور اس "دوست” ملک کا دباو¿ بھی تھا کہ اس کے راستے داخل ہونے والے حاضر سروس بھارتی افسر کو واپس کیا جائے کہ وہ ” دوست” ملک کل بھوش یادیو کو بزنس ویزا جاری کر چکا تھا اور اس کی اصلیت جاننے کے باوجود اس کا ویزا منسوخ کرنے اور ملک بدر کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری سے قبل گزشتہ3-4 سال کے دوران ماہ محرم میں ایران جانے والے زائرین کے قافلوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پاکستان میںفرقہ واریت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا، کل بھوشن یادیوکی گرفتاری اور اس کا نیٹ ورک بے نقاب ہونے کے بعد رواں سال محرم کے دوران زائرین نے اپنے سفر محفوظ حالات میں طے کیے اور فرقہ واریت کے الاو¿ کی تپش میں کمی آئی ہے۔
برہان وانی کی شہادت نے نہیں بلکہ اس کی جانب سے سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال نے بھارت کو پوری دنیا میں بے نقاب کر دیا ہے۔بھارت کا کشمیر میں بیرونی دراندازی کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے وقت کا پھٹا ہوا ڈھول بن چکا ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کا الزام لگانے والا بھارت خود بے نقاب ہو چکا۔
اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا جائے سفارت کاری کی آڑ میں جاسوسی اور دہشت گرد بھیجنے اور پکڑے جانے پرشرمندہ ہونے کے بجائے بھارت نے دراندازی بڑھا دی ہے اور اب اس نے ایٹمی جارحیت میں بھی پہل کر دی ہے۔ بھارتی ایٹمی آبدوز کا پاکستانی سمندری حدود میںداخل ہونا عملاً ایٹمی جارحیت ہے۔ یہ آبدوز جب پاکستانی حدود میں داخل ہو چکی تھی اور اس قدر لاپروا تھی کہ اس کو اپنی نگرانی اور نقل وحمل کی تصویر کشی اور فلم بندی تک کا احساس نہ ہو سکا۔ اس کے لاپروا عملہ کی جانب سے کسی ایٹمی ہتھیارکا استعمال بعید از امکان نہیں ہو سکتا۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ جب اس آبدوز کی اس حد تک نگرانی کر لی گئی تھی کہ اس کی تصاویر اور فلمیں تک بنا لی گئیں تو پھر یہ بھی ناممکن نہیں تھا کہ اس آبدوز کو گھیر کر پورٹ تک نہ لے آیا جاتا اور پوری دنیا کو ثبوت کے ساتھ بتا دیا جاتا کہ بھارت ایٹمی جارحیت میں پہل کر چکا اب پاکستان کا کوئی اقدام دفاعی ہوگا۔ لیکن اس فیصلہ کے لیے جس حوصلے کی ضرورت ہے وہ مسلح افواج میں تو سپاہی سے جنرل تک موجود ہے ۔لیکن جمہوریت کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ وزیراعظم سپریم کمانڈر ہوتا ہے اور مسلح افواج کے سربراہ اس کی اجازت کے پابند ہوتے ہیں، نواز شریف مودی سے دوستی کو ہر معاملے پر فوقیت دیتے آئے ہیں۔اس معاملے پر بھی سمندری حدود میں گھس آنے والے آبدوز کو واپس جانے کا موقع دیکر نواز شریف نے اپنے حلف کا تو پاس رکھا یا نہیں لیکن مودی سے دوستی کا پاس ضرور رکھاہے۔ مودی وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کا نہ ہو ا وہ دوستوں سے دوستی کیا نبھا ئے گا۔ جس نے ہندو ھرم کے مطابق بیوی کے ساتھ سات پھیرے لے کر ایک بھی پھیرے کا وعدہ پورا نہیں کیا ، وہ صرف مفاد کا غلام ہے، ہندودھرم میں شادی کے وقت دلہن دولہا کا دامن تھام کر اگنی دیوی کے سات پھیر لگاتی ہے ، یہ اگنی دیوی کو گواہ بنا کر سات جنم ساتھ نبھانے کا وعدہ(وچن) ہوتا ہے لیکن جس کو نہ تو بیوی کی قربانی کا احساس ہے نہ ہی دھرم کی تعلیمات کا بھرم رکھنے کا احساس ، وہ کب سچا دوست ہو سکتا ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں