میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد ضروری نہیں، مخصوص نشستوں کے فیصلے پر اختلافی نوٹ جاری

اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد ضروری نہیں، مخصوص نشستوں کے فیصلے پر اختلافی نوٹ جاری

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۳ اکتوبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

 

سپریم کورٹ میں دائر مخصوص نشستوں کے کیس میں دو ججز کا اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری ہوچکا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی فیصلے میں اضافی نوٹ بھی لکھا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 14 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے، توقع ہے کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پرغور کرکے انہیں درست کریں گے۔چیف جسٹس نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ امید کرتا ہوں اکثریتی ججز اپنی غلطیوں کی تصیح کریں گے، بردار ججز یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اکثریتی مختصر فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت نہیں ہوسکی۔ میرے ساتھی ججز جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے اس کے خلاف ووٹ دیا ، امید کرتا ہوں کہ اکثریتی فیصلہ دینے والے اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے، امید کرتا ہوں کہ اکثریتی ججز اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کے مطابق پاکستان کو چلائیں۔انہوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر میری رائے کے خلاف گئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکثریتی ججز کی رائے پر بھی سوالات اٹھائے۔چیف جسٹس نے لکھا کہ آٹھ اکثریتی ججز کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، آٹھ اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں نمٹائی نہیں، جب اپیلیں نمٹائی نہیں گئیں تو کیس زیرِ التوا سمجھا جائے گا، آٹھ ججز نے اپیلیں زیرالتوا رکھ کر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کونئی درخواستیں دائرکرنے کا کہا، حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اکثریتی فیصلے پرعملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی۔چیف جسٹس نے لکھا کہ اکثریتی ججز نے وضاحت کی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی، کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد ضروری نہیں۔چیف جسٹس نے مزید لکھا کہ آٹھ ججز نے چیف جسٹس سمیت دیگر بنچ کے ممبران کو آگاہ کیے بغیر وضاحت جاری کی، چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر وضاحت ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی، نہیں معلوم پی ٹی آئی اورالیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواستوں پر سماعت کہاں ہوئی، اکثریتی ججزمیں سے متعدد دستیاب نہیں تھے تو چیمبر میں سماعت کیسے ہوئی، ججزکی عدم دستیابی کے باوجود وضاحتی فیصلہ جاری ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ عدالتی فیصلے کے زریعے آئین کو مصنوعی الفاظ میں نہیں ڈھال سکتی، آرٹیکل 51 اور 106 بالکل واضح ہے، سنی اتحاد کونسل کے کسی امیدوار نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل میں آزاد ارکان نے شمولیت اختیار کی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشتوں کیلئے کوئی فہرست بھی جمع نہیں کرائی۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل آزاد امیدواروں کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کی اہل نہیں ہے، تحریک انصاف کے امیدواروں میں کئی وکیل بھی الیکشن لڑ رہے تھے، تحریک انصاف نے آزاد امیدوار قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ مخصوص نشتیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں، مخصوص نشستوں کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسر کے اقدام کی سزا نہیں دی جا سکتی، یہ مقدمہ تحریک انصاف کا نہیں مخصوص نشستوں کے آئینی حق کا ہے۔جسٹس جمان خنا مندوخیل نے لکھا کہ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے تحریک انصاف کے 39 ارکان کو آزاد ڈکلیئرڈ کیا، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، 41 ارکان کی تحریک انصاف سے وابستگی ثابت نہیں ہوتی، آئین و قانون اجازت نہیں دیتا کہ کسی ممبر کو سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں