عمران خان کی استقامت
شیئر کریں
باعث افتخار/انجینئر افتخار چودھری
تحریک انصاف کی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کی پُرکاری اور عمران خان کی استقامت کا موازنہ ہمیں ایک بہت پرانا سبق یاد دلاتا ہے: لومڑی، اپنی فطرت میں مکار ہوتی ہے، چالاکی سے اپنا کھانا پینا حاصل کر لیتی ہے، لیکن اس کی مکاری اسے کبھی جنگل کا بادشاہ نہیں بننے دیتی۔ اسی طرح، مولانا فضل الرحمن کی سیاست بھی مفادات ، دھوکہ اور فریب کی مثال رہی ہے، لیکن یہ فریب انہیں ایک لیڈر یا رہنما نہیں بنا سکی، جیسا کہ عمران خان ہے۔
لومڑی اپنی تیز طراری اور موقع پرستی سے وقتی کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے، لیکن وہ کبھی شیر کی طاقت، دلیری اور عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ شیر ہمیشہ میدان کا بادشاہ ہوتا ہے، اس کی طاقت اور کردار اسے بلند رکھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست میں بھی یہی لومڑی کی سی عیاری دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی مکاری سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور وقتی فائدے اٹھاتے ہیں۔ لیکن وہ کبھی عمران خان جیسے شیر کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جو اپنے اصولوں پر ڈٹا رہتا ہے اور طاقتور ارادے سے لیڈر شپ کا حق ادا کرتا ہے۔عمر خیام کا قول ہے:
”اگر چو صد سالہ حاکم بمانی
نگاہ بہ آسمان، مردم نہ دانی
چو وقت بیاید، چون شمع خاموشی
سرمایہ ناز و افتخار نتوانی”
”چاہے تم سو سال حکومت کرو، اگر تم نے عوام کی فکر نہ کی تو تمہاری حکومت بے سود ہے۔ جب وقت آئے گا، تمہاری حکومت بھی موم بتی کی طرح بجھ جائے گی، اور تمہارا غرور کچھ کام نہ آئے گا”۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاست بھی اسی قول کی مصداق ہے۔ وہ اپنی مکاری سے وقتی اقتدار حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جب حق کا وقت آئے گا، تو ان کا دھوکہ بے نقاب ہو جائے گا اور ان کی سیاست موم بتی کی طرح بجھ جائے گی۔شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا قول ہے:”حق کے لیے کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اس میں عزت اور وقار ہوتا ہے، جو ہر قیمت پر قائم رہتا ہے”۔
یہ قول عمران خان کی سیاست پر صادق آتا ہے۔ عمران خان وہ لیڈر ہے جس نے ہمیشہ حق اور سچائی کا ساتھ دیا، چاہے اس کے لیے کتنی ہی مشکلات آئیں۔ ان کی جدوجہد میں فراڈ یا دھوکہ دہی نہیں، بلکہ اصولوں کی پاسداری ہے۔یہاں تک کہ کئی انگلش اسکالرز بھی اس بارے میں بات کر چکے ہیں۔ معروف اسکالر اور مصنف جان ڈون نے کہا:
”The hypocrite is a man who is more concerned with his image than with his actions.”
”منافق وہ شخص ہے جو اپنی اعمال سے زیادہ اپنے شبیہ کی فکر کرتا ہے”۔
اسی طرح، سکالر ولیم بلیک نے لکھا:
”He who is not able to see the hypocrisy around him is blind to the truth.”
(ترجمہ: ”جو شخص اپنے ارد گرد کی منافقت کو نہیں دیکھ سکتا، وہ حقیقت سے نابینا ہے۔”)
مولانا فضل الرحمن نے وقتاً فوقتاً اپنی مفاد پرستانہ سیاست کے ذریعے عوام کو دھوکہ دیا، اپنی چالاکی سے وقتی فائدے اٹھائے، لیکن عوام ان کی حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ یہ عوام جانتے ہیں کہ جب بھی بات اصولوں کی آئے گی، تو عمران خان جیسا شیر ہی سامنے کھڑا ہوگا، جس کا مقصد ذاتی مفادات نہیں، بلکہ قوم کی خدمت اور اصلاح ہے۔
ایک مثال میں دینا چاہوں گا کہ دو بھائی ایک چوک میں دوڑتے ہوئے پہنچے تو لوگوں نے پوچھا بھئی کیا ہوا تو انہوں نے کہا کہ پچھلے چوک میں والد صاحب کو غنڈوں نے گھیر لیا تھا وہ انہیں مار رہے تھے تو ہم بڑی مشکل سے جان بچا کر پہنچے ہیں۔ یہی حال مولانا فضل الرحمن کا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے آج ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کے کہنے کے مطابق فضل الرحمان میرے والد ہیں ،مفتی محمود کے ساتھ جو سلوک کیا تھا ،وہ تاریخ کا قصہ ہے۔ انہیں اٹھا کے اسمبلی کے فلور سے باہر پھینک دیا تھا اور آج یہ لوگ انہی کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں۔ اسی دور میں آپ کے بلوچستان کے مولوی شمس الدین ہوا کرتے تھے تو پیپلز پارٹی کے دور میں ان کے اوپر ٹرک چڑھا کر ان کو مار دیا گیا تھا۔ آپ کا حافظہ کمزور نہیں ہے۔ آپ کی نیت خراب ہے تو کوئی بات نہیں ہم اس دور میں اک ستم اور سمجھ کر برداشت کر لیں گے لیکن یہ ضرور آپ کو سبق دے کے جائیں گے کہ دھوکے باز کو دنیا عزت نہیں دیتی۔یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی آنکھوں میں جو چمک دکھائی دیتی ہے، وہ ہمیشہ سچی نہیں ہوتی۔ ”کیپ گڈ تھنگ گوئنگ” ۔ اپنے اصولوں کو چھوڑے بغیر، اپنے ظرف کو مضبوط رکھیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ جیل میں بند ہونا ایک لیڈر کی جدوجہد کا حصہ ہے، اور یہ ان کے عزم و استقامت کا مظہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔