عدلیہ کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیں!
جرات ڈیسک
بدھ, ۲۳ اکتوبر ۲۰۲۴
شیئر کریں
سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پیر کی صبح 26ویں آئینی ترمیم باقاعدہ آئین کا حصہ بنانے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے اس کی توثیق کر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آئینی ترامیم کے بعداب طوفان ٹل چکا ہے؟تاہم اس سوال کا جواب ترمیم کی منظوری پر مبارک سلامت کی گرد بیٹھنے کے بعد ہی سامنے آسکے گا ،بظاہر حقیقت یہ نظر آرہی ہے کہ حکومت عدلیہ کو اپنی جیب کی گھڑی بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئی ہے ۔
پاکستان میں آئینی ترامیم کی تاریخ کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی وہ ترامیم ہیں جو مارشل لاؤں میں براہ راست ڈکٹیٹر بقلم خودکرتے رہے۔ جس میں پہلے آئین سے آخری آئین تک’ آئین کو معطل رکھنا’ دستور سبوتاژ کرنا اور ریاست کے عوام اور عمرانی معاہدے کو کاغذ کا چیتھڑا کہہ کر پاؤں تلے روند ڈالنے کی تاریخ ملتی ہے۔ آئینی ترامیم کا دوسرا حصہ چند خاندانوں کو،چند سرمایہ داروں کواور بالا طبقات کو عوام پر حاوی اور مسلط رکھنے کے لیے لایا جاتا رہا۔ اس قبیل کی ترامیم میں مذہبی سیاست کرنے والی اکثر سیاسی جماعتوں نے مذہب کارڈ استعمال کیا اور سادہ لوح پاکستانی عوام ان مہمات میں ہر طرح کا نذرانہ دیتے رہے۔ اس تاریخ کے اندر سے یہ تاریخ بھی سامنے آئی کہ ہر ایسی مہم کے بعد ظاہر ہوا کہ دراصل یہ ترامیم ایک عالمی ایجنڈے کا پاکستانی ماڈل تھیں۔ جس کے نتیجے میں لوگ سیاست میں مذہبی کارڈ سے اس قدر مایوس ہوگئے کہ آج کئی عشروں سے دیکھی’ اَن دیکھی اور آزمودہ بیساکھیوں کے بغیر شاید ہی کوئی اس طرزِ سیاست کے کرتا دھرتاؤں کو اپنا مستقبل سونپنے پر تیار ہو۔ ایک تاریخی بات یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ یہ کارڈز جنرل یحییٰ’ جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف’ تینوں کے مارش لاؤں کی مشترکہ ڈاکٹرائن رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیاہے کہ اس سے پہلے ترامیم کو منظور کروانے کی ناکام کوشش کے بعدمذاکرات اور دوڑ دھوپ کے بعدآئینی ترمیم کا جو مسودہ پیش کیا گیا وہ پہلے کے مقابلے میں کافی حد تک تبدیل شدہ تھا۔ حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جس نے ترامیم کے لیے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرکے تجاویز فراہم کرنے کے اہم موقع کو گنوا دیا، اس نے بھی اعتراف کیا کہ یہ آئینی مسودہ ابتدائی طور پر پیش کیے جانے والے مسودے سے قدرے بہترہے۔سینیٹ میں پارٹی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے اس ‘کامیابی’ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کاوشوں کی تعریف کی، البتہ انہوں نے ججوں کے انتخاب اور اعلیٰ عدلیہ میں اہم تقرریوں کے نئے عمل پر اپنی پارٹی کے تحفظات کو برقرار رکھا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن اور خاص طورپر پاکستان پپلز پارٹی یہ آئینی ترامیم منظور کرانے کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو اس پورے معاملے میں نہ (ن) لیگ جیتی ہے’ نہ پیپلز پارٹی اور نہ تحریک انصاف۔ جیت دراصل جمعیت علمائے اسلام کی ہوئی ہے جس نے اپنی چند نشستوں کی بنیاد پر اپنی شرائط منظور کرائیں اور آئینی ترامیم کو ممکن بنا کر شہباز شریف اوران کی اتحادی حکومت کو آکسیجن فراہم کردی ۔گزشتہ شب پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے جانے والے بل میں 22 ترامیم شامل تھیں جوکہ گزشتہ ماہ پیش کیے جانے والے مسودے میں 50 شقوں سے نصف سے بھی کم ہیں۔ یہ تبدیل شدہ مسودہ کافی حد تک قابلِ قبول تھا جبکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر ووٹنگ کا عمل چند دن بعد کیا جاتا تو وہ بھی اس میں حصہ لیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں چند معاملات کے حوالے سے جیل میں قید اپنے پارٹی قائد سے مشاورت کرنے کی ضرورت تھی۔مسودے کے حوالے سے سب سے پہلا خیال یہی تھا کہ ترامیم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کو متنازع بنا دیتیں کیونکہ یوں اس عمل میں حکومت کا کردار اہم ہوجاتا۔ عدالت عظمیٰ کے اندر اور ریاست کی مختلف شاخوں میں طویل عرصے سے جاری تنازعات اور تقسیم کے درمیان، ان آئینی ترامیم کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ میں مزید ایک نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ اب وکلا برادری اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ایک خدشہ جو بدستور موجود ہے وہ یہ ہے کہ حکمران اتحاد نئے ‘آئینی بینچ’ میں اپنی پسند کے ججوں کی تقرری کے لیے ترامیم کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کرسکتا ہے یا وہ اپنے ‘ہم خیال’ جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کرنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ترمیم تو ہو گئی تاہم اس ترمیم کے بعد پارلیمنٹ کی بالادستی اس وقت تک ممکن نہیں ہو گی جب تک عدالتی مداخلت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنے اور ادارے کو اپنی حدود تک محدود کرنے کے اقدامات نہ کیے گئے۔
حکمران اتحاد کی سیاسی حکمت عملی، مولانا، بلاول کا ‘ایک صفحہ’ نظریاتی اختلاف کے باوجود اتفاق کی نایاب مثال ہے۔ عدالتی اصلاحات سے متعلق ترامیم میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود مطلوبہ نمبر حاصل کرنا موجودہ حکمران اتحاد کی بہرحال بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول اور 26 ویں ترمیم کے تناظر میں عدد سے زیادہ سیاسی حکمت عملی اور شخصیت پرستی سے نکل کر اجتماعی سوچ کامیابی کی ضمانت بنی ہے۔مولانا فضل الرحمن کے پارلیمان میں کُل 13 اور تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 100سے زائد ہے تاہم سیاسی حکمت عملی میں مولانا فضل الرحمن نے حز ب اختلاف کی سیاست میں مرکزی کردار حاصل کیا جبکہ تحریک انصاف اپنی عددی برتری سے فائدہ اٹھانے اور اپنے پیادہ سپاہیوں کے ذریعے یہ پارلیمانی جنگ جیتنے میں ناکام ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا المیہ ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے محاذ پر پروپیگنڈا مضبوط ہونے کے باوجود وہ کوئی واضح سیاسی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا معاملہ ہو یا پارلیمانی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا، بدقسمتی سے احتجاج اور پُرتشدد احتجاج کو ہتھیار تو بنایا گیا لیکن موثر سیاسی لائحہ عمل کو قطعی نہیں آزمایا گیا۔سوال یہ ہے کہ آیا 26 اکتوبر کے قلیل وقت تک کیا نئے چیف جسٹس کی تقرری ہو جائے گی؟ 26ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس کی مدت اور تقرری کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ اس ترمیم کے بعد موجودہ چیف جسٹس کی نامزدگی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے کرے گی۔ترمیم کی رو سے پارلیمانی کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کیا کرے گی جبکہ ترمیم کی منظوری کے بعد موجودہ پہلی نامزدگی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 3 روز قبل ہو گی۔25 اکتوبر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت کا آخری دن ہے۔ 26 اکتوبر سے نئے چیف جسٹس عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اس صورت حال میں قانونی ماہرین کے مطابق نئے چیف جسٹس کی نامزدگی 22 یا 23
اکتوبر کو ہو جانی چاہیے۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے آٹھ اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے۔ نیا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے منتخب ہو گا۔ نامزد جج کے انکار کی صورت میں باقی سینیئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا۔ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا۔ چیف جسٹس کی مدت 3سال ہو گی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفیٰ دے، 65 سال کا ہو جائے یا برطرف کیا جائے۔یہ ترامیم قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل متعارفکروائی گئی ہیں، جس کی وجہ سے یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا وہ عہدے کی مدت میں2سال مزید توسیع لینے کے اہل ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون کا کہناہے کہ وہ یہ واضح کر ناچاہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے لیے عمر کی آخری حد 65 برس ہی رہے گی۔ اس لیے کوئی اگر 64 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 65 برس میں ریٹائر ہوجائے گا۔ عمر کی حد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ لیکن اگر کوئی 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 63 برس میں عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد ریٹائرڈ تصور ہو گا اور اسے عمر کے 2سال مزید نہیں ملیں گے۔نئے چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار اہم ہوگا۔ سرکاری ذرائع سے میسر معلومات کے مطابق صدر پاکستان کے دستخط کے بعد 26 ویں ترمیم گزٹ آف پاکستان کا حصہ بن چکی ہے تو نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعدا سپیکر قومی اسمبلینے تمام پارلیمانی سربراہوں کو خط لکھ کر امیدواروں کے نام مانگ لئے ہیں اب جو نام موصول ہوں گے ان ہی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق چونکہ نئے چیف جسٹس کی تقرری میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے لہذا نہیں معلوم کہ یہ پارلیمانی کمیٹی جلدی میں اتفاق رائے سے بن پائے گی یا نہیں۔اصول کے مطابق 12 رکنی کمیٹی میں اکثریتی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔آئینی ترامیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری بھی کمیشن کے تحت ہو گی۔ 12 رکنی کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج، سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور سپریم کورٹ کا 15 سالہ تجربہ رکھنے والا وکیل، جو پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ہو گا، شامل ہو گا۔جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے، جبکہ ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہو گا، جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرری کی اہلیت رکھتا ہو۔26ویں آئینی ترمیم کے مطابق کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہو گا جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو۔ سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے پانچ سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہے۔اب جبکہ آئینی ترمیم منظوری کے بعد گزٹ نوٹی فیکشن بھی جاری ہوچکاہے ،توقع کی جانی چاہئے کہ اس متازعہ ترمیم کے ذریعے بنائے گئے اپنے فیصلوں سے اس ترمیم اور اس کے تحت ججوں کی تعیناتی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کریں تاکہ عوام اور خاص طوپر سیاسی پارٹیوں کا عدلیہ پر اعتماد ہو اور عدالتی فیصلوں کو جھرلواو ر چمک کا نتیجہ قرار دئے جانے کا سلسلہ ختم ہوسکے ۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات اور انا سے بالاتر ہو کر بہترین قومی مفاد میں آگے بڑھیں۔قانونی ماہرین کے مطابق نئی ترمیم کا پہلا چیلنج یہ ہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کتنا جلد اور اتفاق رائے سے نئے چیف جسٹس کے نام پر متفق ہوتی ہیں۔تاہم عدلیہ کو آزادانہ طورپر کام کرنے کا موقع دینے کیلئے ہر ایک کو اپنی اناؤں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا تب ہی آئین کی جیت ہو گی۔