نواز شریف کی واپسی کو حسنِ اتفاق کہیں یا مکافاتِ عمل؟
شیئر کریں
تحریر: راؤ محمد شاہد اقبال
انیسوی صدی میں ایڈون بوتھ نامی ایک عظیم ترین امریکی اداکار گزرا ہے۔جو اپنے وقت میں امریکی ناظرین میں دیو مالائی شہرت کا حامل تھا۔ ایک بار یہ ہی ایڈون بوتھ اپنی ایک فلم کی شوٹنگ کے لیئے بذریعہ ریل گاڑی نیویارک سے نیو جرسی شہر پہنچا۔جب وہ نیو جرسی اسٹیشن پر اُترا تو لوگوں کا ایک جم غفیر اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے اُمڈ آیا۔اُس کے استقبال کے لیئے آنے والا ہجوم اُس سے ملنے کے فراق میںاِس قدر بے قابو ہو گیا کہ اس کی زد میں آکر ایک لڑکا ریلوے پلیٹ فارم سے عین اس وقت ریل کی پٹری پر گر پڑا جب سامنے سے ایک تیز رفتار نان اسٹاپ ریل گاڑی چلی آرہی تھی۔اتفاق سے ایڈون کی نظر گرنے والے لڑکے پر پڑ گئی ،اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً لپک کر لڑکے کے پاس پہنچا ،اُسے اپنی مضبوط بانہوں میں اُٹھایا اور اس سے پہلے کہ ریل گاڑی اُن دونوں میں سے کسی ایک کو بھی کچلتی ہوئی گزر جاتی، پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ریلوے پلیٹ فارم پر چھلانگ لگاکر ایڈون بوتھ نے معصوم لڑکے کی جان بچالی ۔حاضر دماغی،پھرتی اور دلیری کے اس واقعے کی بدولت ایڈون بوتھ نے حقیقی زندگی میں بھی خود کو ایک ہیرو ثابت کرتے ہوئے وہاں موجود سبھی لوگوںسے خوب داد و تحسین پائی ۔اس واقعے کے ٹھیک دو ہفتے بعد ایڈون بوتھ کو سربراہ امریکی فوج جنرل الائنیز ایس گرانٹ کی دفتر سے ایک تعریفی خط موصول ہوا ۔اس خط کو پڑھنے کے بعد ایڈون پر منکشف ہوا کہ اُس نے جس نامعلوم لڑکے کو ریل گاڑی کے نیچے کچل جانے سے بچایا تھا ،وہ کوئی عام لڑکا نہیں بلکہ امریکی صدر ابراہم لنکن کا فرزند ِ ارجمند رابرٹ لنکن تھا۔امریکی صدر کے بیٹے کی جان بچانے کے اس واقعہ نے لنکن خاندان میں ایڈون بوتھ کی فیملی کو متعارف کرادیا۔یہ تعارف ایڈون بوتھ کے خاندان کے لیئے امریکی صدر کے صدارتی محل میں رسائی کا پروانہ ثابت ہوا،جس پر ایڈون بوتھ اور اس کے اہلِ خانہ پھولے نہ سماتے تھے لیکن تقدیر کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ چند ماہ بعد ایڈون بوتھ کے سگے بھائی جان ولکنر بوتھ نے صدر ابراہم لنکن کو قتل کرڈالا۔اِسے صرف ایک اتفاق کہیں یا کاتبِ تقدیر کا سوچا سمجھا فیصلہ ،آپ پر منحصر ہے ۔
اپریل 1992 میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کے بعد وطن واپس لوٹی تو اُس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پوری پاکستانی ٹیم کو وزیراعظم ہاؤس میں سرکاری دعوت پر مدعو کیا،خاص طور پر فاتح کرکٹ ٹیم کے ہر دلعزیز کپتان عمران خان کو اپنے قریب پاکر تو میاں صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔اس دعوت خاص میں بڑی تعداد میں غیر ملکی میڈیا بھی کوریج کے لیئے موجودتھا۔ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے نمائندے نے اس سنہری موقع کو غنیمت جانتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ٹیم کے کپتان عمران خان کا ایک مختصر سا انٹرویو بھی اپنے نیوز چینل کے لیئے ریکارڈ کر ڈالا ۔ دورانِ انٹرویو عمران خان ،وزیراعظم پاکستان کی بغل میں کھڑے تھے کہ غیر ملکی خبررساں نمائندے کے ایک سوال کے جواب میاں محمد نواز شریف نے ٹیم کے کپتان عمران خان کو سیاست میں آنے اور اُن کی سیاسی جماعت مسلم لیگ جوائن کرنے کی آفر دے ڈالی ،جس پر عمران خان نے حیرانگی سے کہاکہ” وہ اِس آفر پر وزیراعظم کے شکرگزار ہیں مگر سیاست کا میدان اور کھیل کامیدان بالکل الگ الگ ہیں اس لیئے وہ سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ،ہاں فلاحی کام ضرور کرنے چاہتے ہیں اور کینسر اسپتال بنانا اُن کا خواب ہے”۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے عمران خان کا جواب سننے کے بعد بھی بدستور سیاست میں آنے کا اپنا اصرار جاری رکھا جبکہ گفتگو کے اختتام پر میاں نواز شریف کی طرف سے یہ بھی کہا کہ اگر عمران خان چاہیں تو وہ اِن کے کینسر ہسپتال میں بھرپور معاونت فراہم کریں گے۔پھر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ کس طرح شریف برادران نے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں زبردست معاونت فراہم کی ۔یہ انٹرویو آج بھی یوٹیوب پر ملاحظہ کے لیئے دستیاب ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ1992 میں جس عمران خان کے ذہن میں میاں محمد نواز شریف نے سیاست میں حصہ لینے کا بیج بویا تھا ، وہ بیج جلد ہی ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگیا اور اپنی بیجائی کے ٹھیک چار سال بعد ہی 25 اپریل 1996 کو عمران خان نے تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈال کر سیاست کے میدان میں باقاعدہ قدم رکھ دیا۔کاتبِ تقدیر کا حسن ِتحریر ملاحظہ فرمائیں کہ عمران خان سیاست میں آنے کے بعد جس سیاسی جماعت کے سب سے بڑے حریف بن کر سامنے آئے ،وہ میاں محمد نوازشریف کی مسلم لیگ ن ہی تھی۔حد تو یہ ہے کہ میاں محمد نوازشریف کو سیاسی نااہلی اور وزارتِ عظمی سے برطرفی کا کاری زخم بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں ہی برداشت کرنا پڑا۔ذراسوچیئے کہ اگر میاں محمد نوازشریف 1992 میں عمران خان کو سیاست دان بننے کی آسان راہ نہ دکھاتے اور اُنہیں صرف کرکٹ کا ایک کھلاڑی ہی رہنے دیتے تو شایدوہ اپنی تیسری حکومت کی برطرفی ، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میںجیل جانے اور میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر جلاوطن ہونے سے بچ جاتے ۔
مگر دوسری جانب سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں اپنے آپ کو ملک کی سیاسی تاریخ کا سب سے زیادہ نااہل حکمران ثابت نہ کرتے یا وہ اپنی سیاسی نااہلیت کو چھپانے کے لیئے خبطِ عظمت میں مبتلا ہوکر 9 مئی کو ریاستِ پاکستان کی سالمیت پر حملہ آور ہونے کا مذموم منصوبہ نہ بناتے تو کیا پھر آج میاں محمد نوازشریف چوتھی بار ملک کا وزیراعظم بننے کے لیئے اپنی پوری سیاسی آن ،بان اور شان کے ساتھ مینار ِ پاکستان میں منعقدہ فقید المثال اور تاریخ ساز جلسہ سے خطاب کرپاتے؟۔ یقینا کبھی نہیں کیونکہ میاں محمد نواز شریف کو جیل کی کال کوٹھری سے راتوں رات اُٹھا کر لندن پہنچانا اور پھر ٹھیک چار برس بعد لندن سے بصد اصرار بلا کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کا یک لخت تمام ضروری بندوبست کا ہو جانا۔چند سال پہلے تک یہ ایک ناممکن سا نظر آنے والاکام لگتاتھا ،مگر عمران خان کے عامیانہ سیاسی کھلنڈرے پن اور غیر سیاسی بے وقوفیوں نے بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا واقعہ کو بھی ممکن بنادیاہے۔
لیکن سب سے اہم سوال پھر وہی ہے کہ اپنے سیاسی عروج کی عین ابتداء پر میاں محمد نوازشریف کی طرف سے اپنے زوال کے لیئے خود ہی ایک کردار کو ”عمران خان ” کی صورت میں منتخب کرنااور بعدازاں عمران خان کی جانب سے اپنی مقبولیت کی عین بامِ عروج پر ” نوازشریف ” کو اپنے پرانے سیاسی بدلوں کو سود سمیت چکانے کا موقع فراہم کرنا اِسے صرف ایک حسن ِاتفاق کہیں ،یا کپتان کی بد اعمالیوں کی قرار واقعی سزا ،یا پھر کاتبِ تقدیر کا مکافاتِ عمل کی صورت میں نافذ کیے جانے والا سوچا سمجھاازلی قانونِ قدرت ،فیصلہ آپ پر منحصر ہے ۔
مرے عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا
٭٭٭٭٭٭٭