میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا میں ڈیلٹا وائرس میں کمی

امریکا میں ڈیلٹا وائرس میں کمی

ویب ڈیسک
هفته, ۲۳ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

ایمیلی انتھیس

موسم گرما میں ڈیلٹا ویری اینٹ میں خوفناک اضافے کے بعد کورونا وائرس میں دوبارہ کمی نظر آرہی ہے۔امریکا میں روزانہ تقریباً 90ہزار نئے کیسزسامنے آرہے ہیں اور یہ اگست کے کیسز سے 40 فیصد کم ہیں۔ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں اور انتقال کرجانے والوں کی تعداد میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی ہے؛ تاہم یہ بحران ہر جگہ سے ختم نہیں ہوا خاص طورپر الاسکا میں صورتِ حال کافی سنگین ہے مگر قومی سطح پر اس کا ٹرینڈ بڑی حد تک واضح ہوچکا ہے۔امید یں جاگ رہی ہیں کہ ہم بدترین صورتِ حال کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
گزشتہ دو سال کے دوران امریکا میں کورونا بار بار ایک نئی لہر کی شکل میں حملہ ا?ور ہوتا رہا ہے جس سے کبھی ہسپتال بھر جاتے اور کبھی ان میں کمی آجاتی۔جب امریکی ذرا سست پڑ جاتے تو یہ لہر پھر عود کر آتی۔ اس طرح کے وائرس کے نشیب وفراز کی وجوہات کا تجزیہ تو مشکل ہوگا اورمستقبل کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنا اس سے بھی مشکل ہے۔ مگر اب جبکہ موسم سرما کی آمد آمد ہے‘ ہماری رجائیت پسندی کی وجوہات واضح ہیں۔ تقریباً70 فیصد سے زائد بالغ شہریوں کو مکمل ویکسین لگ چکی ہے اور 12سال سے کم عمر کے بچے بھی اس اہل ہوگئے ہیں کہ آئندہ ایک دو ہفتوں میں انہیں بھی ویکسین کی خوراک مل جائے گی۔فیڈرل حکام بہت جلد کووڈ کی پہلی گولی کی منظوری بھی دینے والے ہیں۔
بوسٹن یونیورسٹی میں سنٹر فار ایمرجنگ انفیکشیئس ڈیزیز پالیسی اینڈ ریسرچ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ناہید بھڈیلیا کہتی ہیں ’’بلاشبہ ہم گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال ایک بہتر صورتحال میں ہیں‘‘؛تاہم سائنسدانوں نے وارننگ دی ہے کہ ہم ابھی کووڈ سے باہر نہیں نکل سکے۔آج بھی دو ہزار سے زائد امریکی شہری روزانہ فو ت ہو رہے ہیں۔موسم سرما میں کووڈ کی نئی لہر بھی متوقع ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر یہ دیکھا جائے کہ کتنے امریکی شہریوں کو ابھی تک کووڈ کی ویکسین لگنے والی ہے اور ایسے کتنے لوگ ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ معلومات نہیں رکھتے تو اس مرحلے پریہ کہنا آسان نہیں ہوگا کہ ہمیں اس وقت بنیادی حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا ترک کر دینا چاہئے۔ ڈاکٹر ناہید بھڈیلیا کہتی ہیں کہ ہم یہ کام بار بار کر چکے ہیں،مگر ہم نے وقت سے بہت پہلے پیڈل سے پائوں اٹھا لیا۔ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس وقت جب ہم کووڈ کی فنش لائن کے قریب پہنچنے والے ہیں‘ہمیں اس ضمن میں مزید محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ جب 2020ء کے آغاز میں کووڈکیسز کی پہلی لہر نے امریکا میں تباہی مچائی تھی بدقسمتی سے اس وقت ہمارے پاس کووڈ کی ویکسین دستیاب نہیں تھی اور کسی فرد میں کورونا کے اس مہلک وائرس کے خلاف امیونٹی بھی نہیں پائی جاتی تھی۔کورونا کیسز میں کمی لانے کے لیے اس وقت تک ہمارے پا س ایک ہی حل موجود تھا کہ ہر شخص اپنے انفرادی رویے میں تبدیلی لائے۔
یہ پہلا موقع تھا جب یہ حکم جاری ہوا تھا کہ سب لوگ اپنے گھروں کے اندر محدود رہیں،ہر طرح کا کاروبار بند کر دیا جائے،ہر شخص کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا، حتی الوسع ایک دوسرے سے سماجی احتیاطی فاصلہ برقرار رکھا جائے،بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی تھی۔ابھی تک یہی بحث جاری ہے کہ ان احتیاطی اقدامات میں سے کون سا سب سے موثر ثابت ہوا ہے مگر کئی مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ ان سب نے مل کر ایک فرق تو ڈالا ہے۔لوگوں کو گھروں تک محدود رکھا گیا اور اس سطرح کووڈ کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پا لیا گیا۔ریسرچرز کے مطابق رضا کارانہ سماجی فاصلہ رکھنے سمیت ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر موثر طریقے سے قابو پا لیا گیا۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ماہر وبائی امراض جینیفر نوزو کے خیال میں ’’ اگر یہ پابندیاں ختم کر دی جائیں تو امید ہے کہ کورونا کی ہلاکت ا?فرینی کی یادیں ذہنوں سے محو ہو جائیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ کووڈ کیسز میں ابھی مزید اضافہ ہو نا ہے اور ایسی ہی کئی لہریں دیکھنے میں آئیں گی۔ بزنس اور مقامی حکومتیں ایک بار پھر یہ پابندیاں عائد کریں گی اور جن لوگوں نے اب زندگی کا سابقہ انداز اپنا لیا ہے‘ انہیں ایک مرتبہ پھر گھروں میں بند رہنا پڑے گا اور ماسک پہننا ہوگا۔
یو ایس کووڈ19ٹرینڈز اینڈ امپیکٹ سروے‘ جس نے اپریل 2020ء سے اوسطاً 44 ہزار فیس بک یوزرز کا روزانہ سروے کیا ہے‘ کے مطابق گزشتہ موسم سرما کے دوران کیسز میں اضافہ ہونے کے دوران جتنے لوگوں کے بارزاور ریستواران میں کھانا کھانے کی رپورٹس جاری ہوئی تھیں‘اب ان کی تعدا د میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ڈاکٹر نوزو کے مطابق عوامی آگاہی کی بدولت اب کورونا کیسز میں کمی ہو گئی ہے۔ہم اس بحران اور اطمینان کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں۔ کووڈ کیسز کے عروج کے دنوں میں ڈیلٹا ویری اینٹ اس وقت پھیلا جب امریکی شہریوں کی اکثریت کو ویکسین لگ چکی تھی اور وہ کافی مطمئن تھے۔ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ پرانی لہر کے مقابلے میں ڈیلٹا کی موجودہ لہر سے انسانی رویے میں کم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ ا?ف ہیلتھ میٹرکس کے مطابق وسط جولائی میں 23 فیصد امریکی شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ عوامی اجتماعات میں ہمیشہ ماسک پہن کر جاتے ہیں جو مارچ 2020ء کے بعد کم ترین شرح ہے۔
31اگست کو ڈیلٹا ویری اینٹ اپنے عروج پر تھا تو یہ شرح 41 فیصد تک چلی گئی مگر پھر بھی یہ ان 77 فیصد سے کہیں کم ہے جنہوں نے یہ رپور ٹ کیا تھا کہ انہوں نے کوروناکی موسم سرما کی بھرپور لہر کے دورا ن ماسک پہنا تھا۔انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرسٹوفر مرے کہتے ہیں ’’کیا آپ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ ایک نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں یا کووڈ سے پہلے کی زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
پھر بھی اگر ہم اپنے رویوں میں ہلکی سے بھی تبدیلی لے آئیں تو ہمیں کم سے کم کورونا وائرس پھیلانے میں مدد مل سکتی ہے اور ڈیلٹا انفرادی اور آرگنائزیشنل‘ دونوں سطحوں پر انسانی رویوں میں بہت تیزی سے تبدیلی لاتا ہے۔سکولوں میں نئی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی گئی ہیں،کمپنیوں نے بزنس دوبارہ کھولنے کا ارادہ فی الحال ترک کردیا ہے،آرگنائزیشنز نے اپنے ایونٹس منسوخ کر دیے ہیں اور اس طرح وائرس کے پاس پھیلنے کے بہت کم مواقع دستیاب ہیں۔ اسی دوران مزید معتدل موسم خزاں شروع ہو چکا ہے اور اس سے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو ملک کے کئی علاقوں میں گھروں سے باہر نکلنے کا امکان بڑھ گیا ہے جہاں وائرس کے پھیلنے کے امکانات اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ یونیورسٹی ا?ف وسکونسن کے ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر ڈیوڈ او کونر کہتے ہیں ’’اس وقت سفر کرنے کے لیے ایک مثالی موسم ہے جب موسم گرما کے وسط کے مقابلے میں جنوبی امریکا میں سرد موسم ہے جبکہ سردیوں کے وسط کے گرم موسم کے مقابلے میں شمالی امریکا میں ایک گرم موسم پا یا جاتا ہے
رویوں میں تبدیلی کورونا وائرس کیسز میں کمی لانے کا ایک عارضی اور مختصر سا طریقہ ہو سکتا ہے جبکہ کووڈ میں حقیقی کمی صرف امیونٹی کے ذریعے ہی آئے گی۔ جب کورونا وائرس کی ویکسین عام دستیاب ہو گئی اور بالغ شہریوں کو وائرس کے خلاف تحفظ مل گیا تو اس کے بعد پہلی مرتبہ قومی سطح پر ڈیلٹا وائرس کا پھیلائو منظر عام پر آیا۔ جس نے بہت سے امریکی شہریوں کو ویکسین لگوانے پر مجبور کیا۔ یہ ویری اینٹ اتنا متعدی تھا کہ اس نے پوری پوری آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی وجہ سے ان لوگوں میں بھی امیونٹی بڑھ گئی جنہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ اگرچہ نہ ویکسین اور نہ ہی پہلے سے موجود انفیکشن وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ یہ صرف وائرس سے متاثر ہونے کے چانسز کو کم کرتے ہیں؛ چنانچہ ستمبر کے مہینے تک وائرس کو مہمان نواز میزبان ملنا مشکل ہو گئے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیفری شامن کہتے ہیں ’’اب ڈیلٹا کے انفیکشن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے‘‘؛ تاہم کووڈ کیسز میں کمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امریکا ’’ہرڈ امیونٹی‘‘ کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یہ ایسا ہدف ہے جہاں تک کئی سائنسدانوں کے خیال میں پہنچنا ممکن نہیں ہے؛ تاہم انفیکشن کیسز اور ویکسی نیشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں میں تبدیلی سے کووڈ کیسز میں کمی لانا ممکن ہو سکتا ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جوشوا سالومن کہتے ہیں ’’یہ امیونٹی اور لوگوں کے محتاط رویے کا امتزاج ہے‘‘۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ مختلف عوامل کا امتزاج ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے مگر اس امتزاج سے ہی یہ طے ہو گا کہ وائرس میں کب اور کیونکر کمی آ سکتی ہے۔ کووڈ کی لہروں میں مختلف اضافوں کا انحصار اس امر پر ہو گا کہ اس سے پہلے کتنی بڑی لہریں آتی رہی ہیں اور اور جب سکول دوبارہ کھولے گئے تھے تو اس وقت تک کتنے لوگوں کو ویکسین لگ چکی تھی۔
یہاں ہمیں کچھ عمومی عوامل کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کیونکہ تھوڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر کووڈ پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یونیورسٹی ا?ف کیلیفورنیا لاس اینجلس کی بائیو سٹیٹیشین کرسٹینا ریمریز کہتی ہیں ’’10 سے 20 فیصد لوگ 80 سے 90 فیصد تک لوگوں میں انفیکشن پھیلانے کے ذمہ دار ہیں‘‘۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دو مختلف کمیونٹیز خود کو دو انتہائی مختلف ماحول میں پا سکتی ہیں اور اس کی وجہ محض یہ ہوگی کہ انفیکشن سے شدید متاثرہ ایک شخص نے اگرکسی پْرہجوم اِن ڈور ایونٹ میں شرکت کی تو ہر طرف کورونا وائرس پھیل جائے گا۔
آنے والے دنوں میں کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا بہت مشکل ہے؛ تاہم سائنس دانوں نے وارننگ جاری کی ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کیسز میں کمی کا سلسلہ مسلسل جاری رہے۔ برطانیہ اور اسرائیل‘ جہاں امریکا سے بھی زیادہ شہریوں کو ویکسین لگ چکی ہے‘ ابھی تک کووڈ کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ یونیورسٹی آف منیسوٹا کے سنٹر فار انفیکشیئس ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر مائیکل آسٹرہام کہتے ہیں ’’یہ ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے۔ ہمیں چار جولائی سے پہلے والے مائنڈ سیٹ کی طرف دوبارہ نہیں جانا چاہئے جب ہرکوئی یہ سمجھنا شروع ہو گیا تھا کہ اب کووڈ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے‘‘۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس موسم خزاں یا موسم سرما میں جب لوگوں نے زیادہ وقت گھروں کے اندر گزارنا اور چھٹیوں میں زیادہ سفر کرنا شروع کر دینا ہے‘ اس کے بعد اگر ایک بار پھر کووڈ کیسز میں اضافہ ہو گیا تو یہ بات زیادہ باعث حیرت نہیں ہو گی مگر چونکہ ویکسین اس لحاظ سے انتہائی موثر ثابت ہوئی ہے کہ اس کے بعد مریضوں کے ہسپتال میں داخلے اور اموات کی تعداد میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے؛ چنانچہ اس موسم سرما میں کووڈ کی صورتِ حال اتنی سنگین نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر سالومن کہتے ہیں ’’اس مرتبہ اتنی تباہی نہیں ہو گی جتنی ہمیں گزشتہ موسم سرما میں دیکھنے کو ملی تھی بشرطیکہ ہمارا بدقسمتی سے کسی نئے ویری اینٹ سے پالا نہ پڑ جائے‘‘۔
نئے ویری اینٹ کے پھیلنے کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ ویکسی نیشن سے ملنے والے تحفظ کے بعد یہ اتنا نہ پھیلے۔ اس بے یقینی کی ایک بڑی وجہ ہمارا اپنا رویہ بھی ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف میساچیوسٹس کے بائیو سٹیٹیشن نکولس ریچ کے مطابق ’’کووڈ کے نئے ویری اینٹ کے بارے میں پیش گوئی کرنا ایسے نہیں ہے جس طرح ہم موسم کی پیش گوئی کر سکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارا واسطہ انسانی رویوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ محکمہ صحت کے حکام کی طرف سے کس طرح کی نئی پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں اور ان پالیسیوں کے خلاف عوام کا رد عمل کیسا آتا ہے، سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں کس قسم کے ٹرینڈز چلتے ہیں، اس طرح ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے‘‘۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ ہمارا اپنا رویہ ہمارے کنٹرول میں ہوتا ہے اور جیسے ہی ہم موسم سرما میں پہنچتے ہیں تو ہمارے رویوں میں بھی تغیر آ جاتا ہے۔ عام طور پر وہ یہ مشورہ نہیں دیتے کہ آپ اپنی چھٹیوں کا پہلے سے طے شدہ پلان منسوخ کر دیں۔ اکثر لوگ خود ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی چھٹیاں اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ مل کر گزاریں گے مگرسائنسدان اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ہمیں معقول حد تک حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہئے۔ ابھی تک ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ اگر ہم نے ویکسین نہیں لگوائی تو ’’تھینکس گیونگ‘‘ کی آمد سے پہلے پہلے ویکسین لازمی لگوا لیں اور اگر ہمارے کسی عزیز و اقارب نے بھی ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی توان کی بھی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں بھی ویکسین لگوا دیں۔
کووڈ کے ماہرین کہتے ہیں کہ انتہائی رسک والے موقع پر ماسک پہننا، جب موسم اچھا ہو تو آئوٹ ڈور میں فنکشن منعقد کرانا اور چھٹیاں منانے سے پہلے کووڈ کے بار بار ٹیسٹ کرانا ایسے اقدامات ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم کووڈ کیسز میں خاطرخواہ کمی لا سکتے ہیں۔ کینیڈا کی یونیورسٹی آف سسکیچوان کی ویکسین اینڈ انفیکشیئس ڈیزیز آرگنائزیشن کی ماہر وبائی امراض انجیلا ریسمسن کہتی ہیں ’’اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس موسم سرما میں کرسمس پر لاک ڈائون نمبر 2 لگا دیا جائے؛ تاہم اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ ہمیں اس امر کا پورا ادراک ہونا چاہئے کہ ابھی کووڈ کا وائرس دنیا سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں