میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی!

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی!

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۳ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

کیا کہنے ، محمود اچکزئی کے کیا کہنے!! دنیا میں ایسے’’ باکردار‘‘ لوگ ڈھونڈے نہیں ملتے۔ہم کہاں، حضرت علامہ اقبالؒ بھی یہ مصرعہ ’’شکوہ‘‘ میں ہی کہہ سکتے تھے:

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

مگر محمو اچکزئی سے ’’شکوہ‘‘کیسا، اگر وہ علامہ اقبال کو بھی کبھی ’’پنجابی‘‘ شاعر کہہ دیں۔آخر الطاف حسین بھی چیخ چیخ کر کہتے تھے۔تعصب آدمی کو پاگل بنائے رکھتا ہے، ایسا پاگل کہ وہ اس پر علم کا گمان رکھتا ہے۔ابھی الطاف حسین کی آوازیں کراچی کی فضاؤں میں موجود ہیں۔ اب یہ محمود اچکزئی بھی۔ کیا پی ڈی ایم قومیتوں کے تعصب کی پیدا وار ہے؟ اگر نہیں تو کراچی کا جلسہ ایسا کیوں تھا؟شرمناک ، کربناک ، کہ روح چیخ اُٹھے۔ مقرروں کی زبان پر لسانیت کا رنگ ایسا غالب تھا کہ اگر ا سے میٹھے سمندر میں تھوک دیتے تو وہ بھی نمکین ہو جاتا۔ اچکزئی صاحب کیا کہنے!آپ کندھے پر اپنی چادر سیدھی کیجیے!زبان کیسی ہے اس کی فکر چھوڑیں!
محمود اچکزئی صاحب کیا کہا! اردو کوئی رابطے کی زبان ہے؟اب آپ کی باتوں کو کیا دہرائیں، شاہجہاں پور کے وہ نیم کلاسیکی شاعر روش صدیقی یاد آتے ہیں:

اس شوخ کی باتوں کو دشوار ہے دہرانا
جب باد ِصبا آئی آشفتہ بیاں آئی
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

عظیم شعرا جب ہواؤں میں خوشبو گھولنے کی بات کرتے ہیں، بات کرنے کے حسین طور طریقے کا سوال اُٹھاتے ہیں،لہجے کو عطر دان سے تشبیہ دیتے ہیں،تہذیب کی زندگی پر اِصرار کرتے ہیں،دل کا ذکر بھی دل سے کرتے ہیں،شہد ، شکر، شیرینی اورشائستگی کے الفاظ لاتے ہیں تو نہ جانے کیوں اردو کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ چاند ، تارے، کرن ، پھول، شبنم شفق آبِ جو ، چاندنی کو اردوسے کیا نسبت رہی ہوگی کہ اس کا ذکراسی زبان میں حسین لگتا ہے۔اچکزئی صاحب اپنی چادر سنبھالتے ہوئے بتائیں کیا یہ صرف رابطے کی زبان ہے؟ میر کی ہم راز، غالب کی سہیلی ، خسرو کی پہیلی سے ایسی بیگانگی کیوں ہے؟

پی ڈی ایم کے کراچی جلسے میں ایسا کیوں لگاجیسے ادھورے سایوں کے غول نے تاریخ کے آسیبی چھکڑے کو اناڑی پن سے کھینچا ہو۔ جب ان رہنماؤں کے کنجِ لب سے نحوستوں کا حوصلہ بڑھاتے الفاظ نکلے تو ایسا کیوں لگا کہ دیواروں پر اُپلے لیپے جارہے ہیں۔افسوس سنجیدہ اور تجربہ کار سیاستدانوں کے نام پر بھی یہی کھیپ ہمیں میسر ہے جو نہیں جانتی کہ اگر تعصب کا کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہوجائے تو سماجی فاصلے سے بھی یہ نہیں مرتا۔ مصنوعی تنفس مہیا کرنے سے بھی جان میں جان نہیں آتی۔اس کی کوئی ویکسین ہی نہیں۔کھوکھلے انسان اگر عظمت کی تلاش میں ہو، کردار اس کی گواہی سے قاصر رہتا ہو تو ایسے لوگ گاہے ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہیں۔ مگر کردار کا مطالبہ ڈرامائی تیوروں سے کہاں پورا ہوتا ہے۔ کراچی میں یہ کیسا جلسہ تھا، جس سے کراچی لاتعلق رہا۔ جہاں میزبان بھی مہمان کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ جلسے کے ان’’ رفیع الفکر‘‘جعلی جمہوریت پسندوں نے پہلا تاثر خود دیا، جب اہلِ پاکستان کو سندھی ، بلوچی، سرائیکی، پشتون کی الگ الگ پہچانوں سے یاد کیا ۔ جلسے کے شرکاء کیا کوئی مشترک بنیاد نہ رکھتے تھے، اس جلسے کی مشترکات کیا تھیں؟ اب تک یہ گتھی سلجھ نہیں سکی، اگر چہ دسترخوانی قبیلے نے طوفان اُٹھا رکھا ہے! کراچی میں جلسے سے مخاطب رہنماؤں کاکراچی موضوع ہی نہ تھا۔ کراچی کے کسی ایک مسئلے کا ذکر بھی نہ ہوا، مسئلہ تو کجا کراچی کا ذکر تک نہ ہوا۔ ان رہنماؤں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہیں کی جتنی اپنے خلاف اہلِ کراچی میں پیدا کی۔ اگر کچھ نادان کیپٹن (ر) صفدر کے تنازع میں معاملات کو نہ اُلجھاتے تو پی ڈی ایم کے خلاف کراچی میں نفرت کا ایک طوفان اُٹھ سکتا تھا۔ ان رہنماؤں سے کراچی کے گلی کوچوں میں سوال ہوتے کہ آپ ہمارے ہیں کون؟ جب کراچی میں ہونے والے جلسے میں کراچی موضوع ہی نہ ہوگا، اہلِ کراچی مخاطب ہی نہ ہوں گے، مقامی لوگ لاتعلق ہوں گے، اور اسٹیج سے محمود اچکزئی پشتون ، بلوچ، سرائیکی، سندھی کی تکرار کریں گے،’’ توکون ہے، میں کون ہوں‘‘ کا کراہیت آمیز راگ چھیڑیں گے، میانِ من وتوکی بحث میں ’’پاکستانیت ‘‘ کو روندیں گے، تو پھر سوال محمود خان اچکزئی سے بھی ہوگا کہ ذرا یہ تو فرمائیںآپ کون ہیں؟انور مسعود کسی وارفتہ لمحے میں گنگنائے تھے:۔

ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں

مگر محمود اچکزئی کا مسئلہ صرف ’’علاقائیت‘‘ نہیں، بلکہ’’ کانگریسیت ‘‘ بھی ہے۔کریلا وہ بھی نیم چڑھا!!قومی معاملات میں ان کی روش پر آج بھی کانگریسی ذہن کی پہرے داری ہے۔ مقامی ، علاقائی اور قومی مسائل میں سے کسی ایک پر بھی ان کا تناظر پاکستانی نہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ سینیٹ میں کھڑے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے افغانستان پر بات کرتے ہیں۔بلوچستان میں جب ان کی حکومت تھی تو ان کا ہر رکن اسمبلی کے فلور پر پہلی بات افغانستان کی کرتا۔ پھر صوبے کو موضوع بناتے۔ یہ ریاست پر افغانستان میں مداخلت کے الزام لگاتے ہیں حالانکہ افغانستان میں یہ جماعت مداخلت کرتی آئی ہے۔اس حوالے سے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، اے این پی اور پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ)کا پس منظر، پیش ِ منظر اور تہہِ منظر یکساں ہے۔ انہوں نے افغانستان میں کبھی جائز حکومت تسلیم نہیں کی۔ سوویٹ افواج کی مداخلت کی حمایت کی ، امریکی مداخلت کے درپردہ حامی رہے۔سوال یہ ہے کہ ان کے افغانستان کی موجودہ امریکی حمایت یافتہ بندوبستی حکومت کے ساتھ مفادات کیا ہیں؟ وہ کیوں اپنی نجی محافل میں اشرف غنی کو غنی بابا کے نام سے پکارتے ہیں؟ محمود خان اچکزئی نے افغانستان میں 1983 سے 1989 تک خود ساختہ جلاوطنی کاٹی، انہوں نے واپس آکر پشتون بیلٹ اور کوئٹہ میں بھاری ہتھیاروں سے نجی ملیشیا کا کلچر پہلی بار متعارف کرایا۔ یہ نجی ملیشیا افغانستان میں تب کی عصمت ملیشیا سے مماثلت رکھتی تھی۔ جسے ببرک کارمل کی طرف سے فنڈز ملتے تھے ۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہوئی افغانستان سے آکر جو عناصر یہاں افغان طالبان کو بلوچستان میں نشانا بناتے رہے، اُن میں سے اکثر محمود خان اچکزئی کے پرانے وابستگان ثابت ہوتے رہے۔ یہ وہ عناصر تھے جو کبھی پرویز مشرف کے آپریشن کے بعد، کبھی ایرانی سرمائے کے بل پر اصحاب الشمال کی حمایت کے لیے بھرتیوں کی صورت میںافغانستان جا بسے تھے۔ یاد کریں! پرویز مشرف کے دور میں محمو د اچکزئی کی نجی ملیشیا کے خلاف اُن کے گھر واقع پشتون آباد میں کارروائی ہوئی تھی۔یہ نجی ملیشیا مخصوص لباس زیب تن رکھتی تھی۔کارروائی کے بعدنجی ملیشیا کے اکثر لوگ افغانستان فرارہوگئے۔ ان کے خلاف مختلف تھانوں میں سنگین نوعیت کے مقدما ت آج بھی درج ہیں۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کا ایک کارکن نجی ملیشیا کے خلاف آپریشن کے بعد افغانستان جا کرامریکی حمایت یافتہ اشرف غنی کی ناجائز حکومت میں رکنِ پارلیمنٹ بن جاتا ہے۔

محمود خان اچکزئی کی’’ حریت کیشی‘‘کا خانہ ساز اور جعلساز تصور محض پاکستانی فوج ، اردوزبان اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہی رزم آراء رہتا ہے۔ افغانستان میںروسیوں اور امریکیوں کے حملوں پر یہ نظریۂ مفاہمت کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ ان کو خوش آمدید کہتا ہے۔ محمود اچکزئی صاحب پاکستانی قوم کا حافظہ کمزور سمجھتے ہوںگے، مگر اتنا بھی نہیں کہ یہ بھول جائیں کہ اُنہوں نے افغان طالبان کی جائز حکومت کے خلاف ایران سے کیا کیا امداد لی تھی اور شمالی افغانستان کی قوتوں کو وہ کس طرح ایرانی کمک پہنچاتے تھے۔ یہاں محمود اچکزئی کی پشتون عصبیت بھی دبک کر کہیں بیٹھ گئی تھی کیونکہ طالبان پشتون تھے، اور شمالی اتحاد کی قوت غیر پشتون تھی۔ نفاق نے یہا ں آکر کیوں سمجھوتا کیا، اس کے اسباب کو تلاش کرنا ہوتو ’’کانگریسیت ‘‘کی اُس پرانی روش کا تاریخی مطالعہ کریں جو یہ عناصر قیام پاکستان سے قبل اسلام ، مسلم ملت کے تصور اور پاکستان کے خلاف رکھتے تھے۔ اسی لیے تو بھارت میں ان دنوں ہندؤں اور پاکستان میں اچکزئی کے ہاتھوں ’’اردو‘‘ زبان نشانا ہے۔ کانگریس کا پاکستان، اردو ، نظریہ پاکستان کے حوالے سے جو موقف تاریخی طور پررہا وہ محمود اچکزئی کے ہاں عملی طور پر نظر آتا ہے۔ پاکستان میںآئین کی بالادستی کے حوالے سے بات کرنے کا حق اور کسی کا تو ہوسکتا ہے،مگر یہ محمو داچکزئی کون سے آئین کی بالادستی کی بات کرتا ہے، ان جماعتوں کے پاس آئین کی بالادستی کے نام پر دراصل فوج مخالف ایک بیانیہ ہے۔ جس کی جڑیں قدیم کانگریس اور آج کے انتہاپسند ہندوتصورات میںپیوست ہیں۔ یہ آئین کی بالادستی کے نام پر دراصل ایک اندھیر نگری مچانے کی ’’آزادی‘‘ مانگ رہے ہیں۔ یہاں ایسے بے شرم تجزیہ کار ، میڈیا ہاؤسز اور اینکرز بھی موجود ہیں جو تمام جرائم کی چشم پوشی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں۔

محمو خان اچکزئی نے پی ڈی ایم کے دونوں جلسوں میںایک بات خاص طور پر کی کہ ہم یہاں کسی کو گالی دینے نہیں آئے، پھر وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو سب گالی جیسی ہوتی ہیں۔ایک ماہر نفسیات نے لکھا تھا کہ جب آدمی کسی چیز کا بار بار انکار کرے تو یہ اُس کے لاشعور میں چھپی تشنہ تکمیل خواہش ہوتی ہے۔ محمو اچکزئی آپ قومی شعور کو گزشتہ چار دہائیوں سے گالیاں ہی دیتے آئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں