میثاق جمہوریت کا انجام
شیئر کریں
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حالات کی نزاکت کا جائزہ لے کر مسلم لیگ (ن) کے نااہل وزیراعظم میاں نوازن شریف پر اپنے دروازے بند کرکے ’’نو مفاہمت ‘‘کا بورڈ آویزاں کردیا ہے ‘ماضی میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جسے’’میثاق جمہوریت ‘‘کہا جاتا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن بھی اس میں شریک تھے۔ سب کا مقصد پرویز مشرف کے اقتدار کو لپیٹنا تھا۔ نئی صورتحال میں بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ن لیگ سے منہ موڑ کر مقتدر قوتوں کی سمت کرلیا ہے۔ وہ اور ان کے کئی ساتھی اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ نیب اور دیگر تحقیقی اداروں نے ان کا تعاقب بھی کیا ہے لیکن فی الوقت چونکہ نواز شریف خاندان کی گردن ناپی جارہی ہے لہٰذا آصف زرداری نے اپنا آپ اور ساتھیوں کو بچانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرلی ہے۔ یوں بھی وہ مفاہمت اور مصالحت کے بادشاہ بلکہ اسی فن میں لاثانی ہیں ان کی ہری جھنڈی کے بعد قیس سیاست کے جنگل میں تنہا رہ گیا ہے۔ یہ تنہائی مزید بڑھتی جارہی ہے اور شیخ رشید کے بقول ن لیگ کی دیوار سے اینٹیں گرنا شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے تو آئندہ چند روز میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت بعض وزراء کے پارٹی چھوڑنے کی اطلاع بھی منکشف کردی ہے۔ یہ نواز شریف کے پر اور چونچ جسم سے جدا کرنے کی شروعات ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بھی یہی عمل کیا گیا ہے جس کے اب کئی دھڑے ہوچکے ہیں اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو بھی قربان گاہ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔
حال ہی میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین سے لندن میں پاکستان مخالف کئی سیاستدانوں نے ملاقات کی ہے‘ ان میں پاکستان دشمن کی شہرت رکھنے والے صوبہ خیبر پختونخوا کے رہنما اجمل ختک کے صاحبزادے ایمل ختک بھی شامل تھے ایمل نام اس سے قبل بھی پاکستانیوں کی سماعت سے ٹکراتا رہا ہے بلوچستان کا ایک عسکریت پسند ایمل کانسی تھا جسے صدر فاروق لغاری نے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا۔اجمل خٹک خیبر پختونخوا کے سیاستدان ولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے۔ بھٹو دور میں انہیں ولی خان نے کابل بھیجا جہاں سے وہ پختونستان بنانے کے لیے کام کرتے رہے۔ ان کا کابل میں بھارتی سفار تخانے سے گہرا رابطہ تھا۔ افغان حکومت خود مختار پختونستان کی پر زور حمایت کررہی تھی۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا تھا۔
اب اجمل خٹک کے صاحبزادے ایمل خٹک نے لندن میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سے ایک وفد کے ہمراہ ملاقات کی ہے۔ ان کے ساتھ زرداری حکومت میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور دیگر دانشوروں اور صحافیوں کا ایک گروپ بھی تھا جن میں مہاجر دانشور ڈاکٹر سید ندیم‘ فرحت تاج‘ دلاور اصغر ‘حلیمہ سعدیہ طاہر اسلم گورا‘ پختون دانشور جہانزیب خان‘ انیس فاروقی وغیرہ شامل تھے جن کا مختلف قومیتوں سے تعلق تھا۔ ڈھائی تین گھنٹے تک یہ نشست جاری رہی جس کے دوران پاکستان اور اس خطے کے حالات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پاکستان کے صوبوں کے لیے آزادی کے لائحہ عمل تحریکوں اور دیگر امور پر کھل کر اظہار خیال ہوا۔حسیین حقانی نے امریکہ میں پاکستان سفیر کی حیثیت سے جو ماہ وسال گذارے اس کے دوران امریکیوں کو سیکڑوں وزیرے جاری کیئے اور کسی تحقیق کے بغیر انہیں پاکستان میں خوب کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ایسے ہی ایک کردار ریمند ڈیوس نے لاہور کے بھرے بازار میں ایک پاکستانی کو گولی مار دی تھی جس سے وہ جاں بحق ہوگیا تھا تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے انہیں یہ ضرور معلوم ہوگا کہ1979 میں ایرانی انقلاب سے قبل شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے ایران میں رہائش پذیر 44 ہزار امریکی باشندوں کو سفارتکار کا درجہ دے دیا تھا لیکن یہ سب امریکی مل کر بھی علامہ آیت اﷲ خمینی اور انقلاب کا راستہ نہیں روک سکے تھے بلکہ انقلاب کے بعد خود امریکہ نے اپنے سابق اتحادی اور ساتھی رضا شاہ پہلوی سے ایسی آنکھیں بدلی تھیں کہ بیچارے کو مصر کے ایک چھوٹے سے مکان میں گمنامی کی موت نصیب ہوئی اور اسی گھر کے صحن میں چند لوگوں نے اس کی تدفین کردی پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو شخص بھی اقتدار یا اختیارات سے محروم ہوتا ہے وہ ’’ملک دشمن ‘‘ہوجاتا ہے میاں نواز شریف نے 2013 کے عام انتخابات مین ’’چھو منتر ‘‘پڑھ کر کامیابی حاصل کی اور وزیراعظم بن گئے چار سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔اب جبکہ پانامہ تحقیقات کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے دبئی کے اقاصے پر انہیں نااہل کہہ کر اقتدار سے ہٹایا ہے تو ان کی نظروں میں عدلیہ اور نیب قابل گردن زدنی ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کے سیاستدان محمود خان اچکزئی نااہل وزیراعظم نواز شریف کے ایک اتحادی ہیں۔ ان کے بھائی احمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر ہیں بھانجے بھتیجے بھی اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ جب 2016 میں وزیراعظم نواز شریف کے خصوصی مشیر کی حیثیت سے افغانستان گئے تو انہوں نے کابل میں کہا تھا پاکستان میں افغانستان سے آنے والوں کو ایجنسیوں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا افغانستان کی ملکیت ہے اور افغان مہاجرین یہاں آزادانہ آسکتے ہیں۔ ان کے یہ الفاظ آج بھی تاریخ میں رقم ہیں کہ’’اس پاکستان کو زندہ باد کہنا گناہ کبیرہ ہے جس میں پشتون غلام ہوں‘ پشتونخوا ‘بلوچستان اور سندھ کو آج بھی ایک کالونی کے طور پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘ ۔یہ میاں نواز شریف کے ایک اتحادی کے ’’زریں خیالات ‘‘ہیں ڈان لیکس جیسے کئی معاملات ‘معاہدات اور تمسکات ہیں‘جو بالآخران کی نااہلی کا باعث بنے ہیں۔ اس کے باوجود وہ سوال کرتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا؟ ان کی کم عقلی یہ ہے کہ 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں دریافت کیا۔ اس نو زائیدہ سیاسی بچے نے ان ہی کی گود میں پرورش پائی ‘پروان چڑھے اور پھر اسی ادارے یا اس کے سپہ سلاروں سے ٹکراتے رہے۔ ان کے سمجھ دار بھائی شہباز شریف نے یہ کہہ کر معافی تلافی کی کوشش کی ہے کہ فوج اور عدلیہ کا اپنا احتساب کا نظام موجود ہے ‘ انہیں نیب کے دائرے میں لانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن سابق فوجی جرنیل پرویز مشرف کے خلاف ان کے بڑے بھائی کے دل ودماغ میں ایسی آگ بھری ہوئی ہے کہ ان کے بس میں ہو تو اپنے ہاتھوں سے سولی پر لٹکا دیں ۔اس آگ نے میاں نواز شریف کو اداروں سے ٹکرادیا ہے ۔ان کے بعض قریبی ساتھی آگ میں پیٹرول ڈالنے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اپنے ہی اداروں سے محاذ آرائی کی سزا یہ ہے کہ آج آصف علی زرداری’’گڈ بک ‘‘میں ہیں ان کے لیے ایک عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ہی کیا کم تھے کہ اب آصف زرداری بھی اپنی سپاہ سمیت خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ہیں اور بارودی بیانات کی ’’توپیں‘‘ چلا رہے ہیں۔بھاولپور سے رکن قومی اسمبلی ریاض احمد پیر زادہ نے پارٹی کی قیادت شہباز شریف کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کردی ہے اور شیخ رشید ن لیگ کی اینٹیں نکلنے کی خبر دے رہے ہیں۔ آصف زرداری ان کی گرفتاری اور عمران خان انہیں جیل میں ڈالنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ عقل وسمجھ بروئے کار لاکر سمجھوتے کی طرف سفر کیا جائے ورنہ ماضی کی طرح پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ’’میثاق جمہوریت ‘‘کا عبرتناک انجام قریب آگیا ہے۔