شریف فیملی کا لندن میں اچانک "اکٹھ" کھیل کیا؟
شیئر کریں
٭شہباز شریف کا دوبارہ لندن جانا پارٹی کے اندر بھی بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے، وہ اپنے بڑے بھائی سے بات چیت کے لیے پہلے ہی تقریباً ایک ماہ لندن میں گزار چکے ہیں
٭نون لیگ کے اندر کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے، حالیہ صورت حال کے متعلق جو کوئی بھی کہہ رہا ہے کہ اسے پتا ہے تو وہ درست بات نہیں کر رہا، پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی لاعلم ہے، سینئرلیگی رہنما
٭وطن واپسی کے لیے نواز شریف کو چودھری شوگر ملز کیس میں حفاظتی ضمانت حاصل کرنا ہوگی، العزیزیہ کیس میں عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا، جس میں انہیں 7 سال کی سزاہوئی ہے
٭وطن واپسی سے قبل شریف برادران ’کچھ ضمانتیں‘حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، حفاظتی ضمانت ملے گی یا نہیں یہ تب پتہ چلے گاجب نواز شریف ممکنہ واپسی سے قبل حفاظتی ضمانت کی درخواست دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سیاسی صورت حال ایک جمود کے بعد اچانک تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ایک طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 21 اکتوبر کو وطن واپس آنے کا اعلان کر دیا ہے۔تو الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کروانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نیب ترامیم ختم کیے جانے کے بعد درجنوں سیاستدانوں کے مبینہ کرپشن کیسز کھل چکے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ احتساب عدالتوں میں مقدمات کی واپس کی گئی فائلیں پہنچا دی گئی ہیں۔تحریک انصاف کی لیڈر شپ یا تو اسیری میں ہے یا روپوش۔ پیپلزپارٹی نے دبے اور کھلے لفظوں میں مسلم لیگ ن کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جب سب صحافی اور تجزیہ کار یہ پیشین گوئیاں کر رہے تھے کہ نواز شریف کے لیے اسٹیج تیار ہو چکا ہے تو اس سارے ہنگام میں دو تین روز میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے اچانک تیز گام تجزیوں کو وہیں روک دیا ہے۔ہوا کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جب واپسی کا اعلان کیا تو اس کے بعد پاکستان میں ان کی جماعت نے تیاریاں شروع کر دی۔خود نواز شریف نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں منگل کے روز کارکنوں سے خطاب میں دو جرنیلوں اور چار ججوں کے احتساب کی بات کی تھیں جنہوں نے مبینہ طور پر ان کی حکومت کے خلاف سازش کی۔ جب نواز شریف یہ بیان دے رہے تھے تو شہباز شریف وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد لندن میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد پاکستان واپس آرہے تھے جبکہ ادھر سے مریم نواز لندن جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔شہباز شریف کو واپس آئے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں نواز شریف نے واپس لندن طلب کر لیا۔جمعرات کی صبح مریم نواز کا ٹکٹ پہلے ہی بک تھا شہباز شریف نے بھی ٹکٹ بک کروایا۔شریف خاندان کے اس اچانک ہونے والے لندن میں اکٹھ پر نواز شریف کے ایک بہت ہی قریبی ساتھی نے بتایا کہ ’یہ ایسی صورت حال ہے جس کا پارٹی کے اندر کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے جو کوئی بھی کہہ رہا ہے کہ اسے پتا ہے تو وہ درست بات نہیں کر رہا ہے۔ میں میاں صاحب کے بہت قریب ہوں میرے علم میں کچھ بھی نہیں ہے بلکہ پارٹی کے اعلیٰ قیادت بھی لاعلم ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان ہے لیکن جو کچھ بھی ہے، ہے غیر معمولی۔مسلم لیگ ن کی قیادت سے جب رابطہ کیا گیا تو یا وہ تبصرے کے لیے دستیاب نہیں ہے اور جو دستیاب ہیں عطاء اللہ تارڑ اور رانا مشہود، وہ اس صورت حال سے لاعلم ہیں کہ لندن میں شریف فیملی کے اچانک اکٹھ کا مطلب کیا ہے۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے لاہور میں مریم نواز سے بالمشافہ ملاقات بھی کی جس میں نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے نیب ترامیم کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اپنے اور شریف خاندان کے دیگر افراد کے خلاف کیسز کے دوبارہ کھلنے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے نتیجے میں انہیں درپیش قانونی پیچیدگیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سوال بھی زیر غور ہے کہ اگلی حکومت میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے پارٹی کا انتخاب کون ہوگا؟
شہباز شریف کی عجلت میں لندن واپسی کے برعکس مریم نواز کا دورہ برطانیہ کوئی حیران کن نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے داخلے کے معاملات دیکھنے اور اپنے والد سے ملنے کے لیے لندن جا رہی ہیں۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ مریم نواز کا دورہ لندن بہت پہلے سے طے شدہ اور خاندانی مصروفیات نمٹانے کے لیے ہے، یہ ایک مختصر دورہ ہوگا کیونکہ نواز شریف چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور 21 اکتوبر کو اُن کی متوقع وطن واپسی سے قبل تیاریاں کریں۔شہباز شریف کا دوبارہ لندن جانا پارٹی کے اندر بھی بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے، وہ اپنے طبی معائنے اور اپنے بڑے بھائی سے بات چیت کے لیے پہلے ہی تقریباً ایک ماہ لندن میں گزار چکے ہیں۔نواز شریف کے ہمراہ اسٹین ہاپ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے ہی اعلان کیا تھا کہ نواز شریف 21/اکتوبر کو پاکستان واپس آرہے ہیں۔اس دورے میں دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے سے کئی ملاقاتوں میں گفت و شنید کی، پارٹی کے دیگر ارکان بھی ان ملاقاتوں میں شریک ہوئے۔حالیہ ہفتوں میں محمد زبیر، عابد شیر علی اور خواجہ آصف سب ہی نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی ہے اور نواز شریف کی وطن واپسی کے منصوبے سے متعلق اپنے پیغامات پہنچائے ہیں۔ وطن واپسی کے لیے نواز شریف کو چوہدری شوگر ملز کیس میں حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم انہیں العزیزیہ کیس میں عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا، جس میں انہیں 7 سال کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ 2019 میں ’طبی بنیادوں‘پر ملک چھوڑ جانے سے قبل کوٹ لکھپت جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔نیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی مخالفت کے امکان کے حوالے سے پارٹی ذرائع نے کہا کہ یہ تب پتا چلے گا جب نواز شریف اپنی ممکنہ وطن واپسی سے قبل حفاظتی ضمانت کے لیے درخواست دیں گے، اُن کی وطن واپسی سے قبل شریف برادران ’کچھ ضمانتیں‘حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔دوبارہ کیسز کھلنے کے بعد نواز شریف کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور شہباز شریف کو رمضان شوگر ملز سے متعلق کیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔