حیدرآباد دکن کا ہولو کاسٹ!
شیئر کریں
کیپٹن ایل پانڈو رنگاریڈی
بھارت میں عمومی طور پر بیان کی جانے والی یہ ایک فرضی کہانی ہے کہ 17 ستمبر 1948ء کو آصف جاہی سلطنت کا اختتام ہوا اور پھر حیدرآباد دکن کا انڈین یونین میں انضمام عمل میں آیا۔ اس طرح حیدرآباد دکن میں جمہوریت کا آغاز ہوا۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ ایک سچائی ہے کہ 17 ستمبر نہ صرف تلنگانہ کی تاریخ میں ایک اہم تاریخ ہے بلکہ فرانس کی تاریخ میں بھی یہ دن بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ستمبر 1793ء میں انقلابِ فرانس کے بعد وہاں دہشت کی ایک خوفناک لہر شروع ہوئی۔ انقلابِ فرانس میں بے شمار نوجوانوں اور قائدین کی جانیں گئیں۔17 ستمبر 1973ء کو ایک ممتاز لیڈر کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ اسی طرح ستمبر 1948ء میں پولیس ایکشن کے بعد ریاست حیدرآباد میں ہولو کاسٹ کیا گیا۔
طبعیاتی سیاست میں رضاکاروں کی کارروائی اور ہندو ردِعمل تقریباً یکساں اور متضاد رہا اور یہی وجہ تھی کہ بھارت کے فوجی گورنر میجر جنرل جے این چودھری نے نظامِ سلطنت کے تحت آنے والے علاقے پر بڑی بے فکری سے قبضہ کرلیا۔ تاریخ میں اس بارے میں ان کا بیان موجود ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا نامزد چیف منسٹر کے ایم ویلوڈی نے اظہار کیا تھا۔ آزاد ہند کو وراثت میں برطانوی راج کے نہ صرف انتظامی آلات ملے تھے بلکہ مسلم وفاداری سے متعلق اس کی بے چینی و بے قراری بھی ملی تھی۔ دوسری طرف پاکستان کی تخلیق بھی عمل میں آئی تھی جو مسلمانوں کے لیے ایک امکانی متبادل جگہ یا مقام بن گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1948ء میں پولیس ایکشن کے بعد جب ریاست حیدرآباد میں لاقانونیت یقینی دکھائی دے رہی تھی تو انتظامیہ نے محتاط خاموشی اختیار کیے رکھی۔
پولیس ایکشن کے بارے میں جو باتیں منظرعام پر آئیں ان میں بعض عناصر کی جانب سے قتل، لوٹ مار، غارت گری کا بازار گرم کیے جانے سے متعلق متاثرین کے بیانات سامنے آئے اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ماضی کے عمل کا ردِعمل تھے لیکن بعد میں جن رائٹرز نے سقوطِ حیدرآباد کے بارے میں قلم اٹھایا‘ ان لوگوں نے مابعد پولیس ایکشن واقعات کو ماضی میں پیش آئے واقعات کے منطقی نتیجے کے طور پرلیا اور ساتھ ہی حیدرآباد میں مسلمانوں کے خلاف جارحیت کو اکثر برسوں میں مسلمانوں کی اجارہ داری کے بعد توازن اقتدار کے لیے مذاکرات کے طور پر سمجھا گیا۔
دکن کے مسلمانوں کے خلاف جو جارحیت تھی‘ اس سے ریاست کو پاک کرنے کا آغاز 17 ستمبر 1948 آپریشن کیٹرپلر (آپریشن پولو نہیں) کے اختتام کے ساتھ ہوا۔ اس وقت مسلمانوں پر ناقابلِ بیان ظلم کیا گیا اور ان اضلاع میں جہاں مسلمانوں کی بہت زیادہ آبادی تھی یا وہ اکثریت میں تھے‘ وہاں سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی جان بوجھ کر کوششیں کی گئیں۔ خاص طور پر بیدر، عثمان آباد، گلبرگہ، پربھنی، ناندیڑ، بیڑ اور جالنہ جیسے اضلاع میں مسلم آبادی کو مٹانے کے دانستہ اقدامات کیے گئے۔ اس وقت راجہ ڈھونڈری راج بہادر کو وزیر آبادکاری بنایا گیا تھا۔ انہوں نے حکومت کے نام5 اگست 1949ء کو اپنے نوٹ میں واضح طور پر لکھا کہ فوجی حکومت نے حیدرآباد سے ساڑھے سات لاکھ مسلمانوں کو شمالی ہند روانہ کیا۔ درحقیقت اس مسلم آبادی کو نہ صرف حیدرآباد چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ انہیں بھارت کو خیرباد کہنے پربھی مجبور کیا گیا۔
یہ بھی سچ ہے کہ حضور نظام کی فوج میں افغان، عرب اور بلوچ سپاہی موجود تھے لیکن پولیس ایکشن کے بعد ان تمام فوجیوں کو بھی زبردستی بھارت سے نکال دیا گیا۔ یہ بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیسی یا نوابی ریاستوں کے مکین انگریز سامراج کی رعایا نہیں تھے بلکہ وہ انگریزوں کی جانب سے تحفظ کردہ لوگ تھے لیکن جب انگریزوں کی بالادستی کا خاتمہ ہوا اور نوابی ریاستیں 15 اگست 1947ء کو انگریزوں کے شکنجے سے مکمل طور پر آزاد ہوگئیں‘ تب ان ریاستوں کے عوام کو انگریزوں کی جانب سے تحفظ کا جو ا سٹیٹس حاصل تھا‘ وہ ختم ہوگیا؛ تاہم بھارت نے جب حملہ کیا تب حیدرآباد کے عوام خودبخود ہندوستان کے شہری نہیں بنے اور جب1955ء میں اس تعلق سے ایک قانون مرتب کیا گیا‘تب نوابی یا دیسی ریاستوں کے عوام کو بھارت کا شہری قرار دیا گیا اور اس کوشش میں ایک اور دائمی ثبوت ہائی کورٹ آف جسٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے عزت مآب مسٹر جسٹس مارکونسی ا سمتھ کی جانب سے 2 اکتوبر 2019ء کو دیا گیا فیصلہ ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ لندن کی نیشنل ویسٹ منسٹر بینک میں حیدرآباد کے فنڈ سے متعلق مقدمے میں دیا تھا۔ انہوں نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا ’’ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 15 اگست 1947 کے دن سے آپریشن پولو کے خاتمے تک‘ برطانوی حکومت اور ملکہ برطانیا کی نظر میں حیدرآباد ایک بیرونی مملکت تھی اور نظام ہشتم ریاست حیدرآباد دکن کے حکمران تھے۔ جسٹس صاحب کا کہنا تھا‘میرے فیصلہ میں یہ بھی حقیقت ہے کہ حیدرآباد کا انڈیا کے ساتھ الحاق عمل میں آیا۔ آیا پولیس ایکشن کی یادوں کا تعاقب کیا جائے یا نہیں‘ ملکہ برطانیا کے تحت حیدرآباد کے موقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر حکومت نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا۔
مذکورہ جج نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر یہ بھی کہا تھا کہ ملکہ برطانیا کی حکومت نے جو بیان دیا تھا وہ یہی تھا کہ آپریشن پولو ( پولیس ایکشن ) سے حیدرآباد کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کم از کم ایک انگریز عدالت کے مقاصد کے لیے۔ ( یہ فیصلہ دراصل لندن ہائی کورٹ نے معین نواز جنگ کی جانب سے برطانیا کی ایک بینک میں جمع کروائی گئی رقم سے متعلق سنایا۔ صفحہ نمبر 68، پیراگراف 193)۔ واضح رہے کہ ستمبر 1948 ء کو انڈین افواج نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کیا تھا اور پانچ دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر انچیف سید احمد العیدروس کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد ریاستِ حیدرآباد دکن پر قبضہ کیا گیا تھا مگر حیدرآباد نے 26 جنوری 1950ء کو باقاعدہ ہندوستان کا حصہ بنائے جانے سے قبل ہندوستان کو تسلیم بھی نہیں کیا تھا۔ ( Ibid Judgement pg:14)۔ ایک اور قابل تردید حقیقت بھارت کی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف طور پر کہا کہ ایچ ای ایچ دی نظام حکومت کا جو علاقہ ہے‘ وہ 26 جنوری 1950ء سے قبل کبھی بھی ہندوستان کا علاقہ نہیں رہا۔ واضح رہے کہ پانچ روزہ فوجی کارروائی میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئی تھیں اور دیہی علاقوں میں دیر تک فسادات کا بازار گرم رہا۔ یہاں تک کہ بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے انڈین فوجیوں کی جانب سے شہریوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولی مارنے کی اطلاعات کے بعد تحقیقات کے لیے سندر لال کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ کی بروقت اشاعت نہیں کی گئی اور اسے ابھی تک بھی پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس رپورٹ میں 27 ہزار سے 40 ہزار کے درمیان لوگوں کے مارے جانے کی بات تسلیم کی گئی ہے جبکہ بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کارروائی اور بعد ازاں اس سے پیدا ہونے والے فسادات میں 2 لاکھ سے بھی زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
ستمبر 1948 میں جو سیاہ نصیب سانحات پیش آئے اْن میں کسی کی جیت نہیں ہوئی‘ کوئی فاتح نہیں ہوا؛ تاہم حکومت ہند کو چاہیے کہ وہ حیدرآباد کے مسلمانوں سے معذرت کرے، اظہارِ افسوس کرے۔ اْسی طرح جس طرح برطانیا کی ملکہ ایلزبتھ دوم نے جلیانوالا باغ قتل عام اور کانگریس پارٹی نے آپریشن بلیو ا سٹار کے لیے سکھوں سے اظہارِ افسوس اور اظہارِ معذرت کیا تھا۔ ایسے میں آپریشن کیٹر پلر ( آپریشن پولو ) کے لیے معذرت کیوں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔