میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا ’’امن مذاکرات‘‘ سے کیوں فرار ہوا؟(صحرا بہ صحرا..محمد انیس الرحمن)

امریکا ’’امن مذاکرات‘‘ سے کیوں فرار ہوا؟(صحرا بہ صحرا..محمد انیس الرحمن)

ویب ڈیسک
پیر, ۲۳ ستمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

آخر وہی ہوا جس کے بارے میں ہم بہت پہلے سے اپنے قارئین کو آگاہ کرتے آئے ہیں کہ امریکا افغانستان میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ یہاں سے فوجی انخلاء کرے گا ، امن مذاکرات ایک ڈراما ہے جس کا مقصد وقت حاصل کرنا ،داعش کو قدم جمانے کی مہلت فراہم کرنا، افغان طالبان کو اس بات پر مجبور کرناکہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ منسلک ہوکر مستقبل کی سیاسی حکمت عملی وضع کریں۔امریکا کو محدود انداز میں افغانستان میں اپنے عسکری اڈے قائم رکھنے کی سہولت بدستور موجود رہے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہری سی بات تھی کہ افغان طالبان نے امریکا کے ان مطالبات کو تسلیم نہیں کرنا تھا اس بات کو امریکی بھی جانتے تھے اور افغان طالبان کی لیڈرشپ روز اول سے امریکاکے اس صہیونی دجالی حربے سے واقف تھی وہ ’’امن مذاکرات‘‘ کی میز پر اس لیے بیٹھے تھے تاکہ امریکا دنیا کو یہ کہہ کر گمراہ نہ کرسکے کہ افغان طالبان کسی طور امن کے حامی ہی نہیں ہیں۔ اس لیے دوحہ میں امن مذاکرات کے دورانیے میں افغان طالبان نے امریکا کا یہ شوق بھی پورا کردیا۔ اس سارے کھیل میں امریکا کے نزدیک اس کے دو اہم مقاصد پورے نہیں ہوئے، مثلا افغان طالبان پر بذریعہ پاکستان دبائو ڈلوانا کہ وہ امریکی شرائط کے سامنے سرنگوں ہوجائیں لیکن یہ سب کچھ پاکستان کے بس میں نہیں تھا جو امریکا جیسی قوت کو نہیںمان رہے وہ بھلا پاکستان کو کیوں خاطر میں لاتے۔ اسی مقصد کی بارآوری کے لیے امریکا نے مودی کو تھپکی دی تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنا دیرینہ خواب پورا کرلے یعنی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ کر مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرجائے باقی دنیا کو امریکا دیکھ لے گالیکن امریکا کا دوسرا حربہ مودی کے گلے کا کانٹا بن گیا امریکا اور اسرائیل کی تمام تر تھپکی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مودی کے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت کی وہ ریاستیں جہاں پر ایک زمانے سے علیحدگی کی تحریکیں جاری تھیں انہیں ایک نیا ولولہ مل گیا اس لہر میں آکر ناگا لینڈ کی ریاست نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کرکے اپنا الگ جھنڈا لہرا دیا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ نے افغان امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان عین اسی دن کیا جس دن اسلام آباد میں سہ فریقی کانفرنس ہوئی یعنی چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان ’’امن مذاکرات‘‘ کی کامیابی کے بعد کی صورتحال میں خطے میں کامیاب معاشی پیش رفت کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ان سہ فریقی مذاکرات کے تیسرے دور میں چین نے سی پیک کا دائرہ افغانستان تک بڑھانے کا منصوبہ پیش کردیا تھاپاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات میں چینی ہم منصب وانگ ژی نے پاک افغان سرحد پر کولڈ اسٹوریج، پانی کی سپلائی، طبی مراکز اور امیگریشن کے مراکز کے قیام میں پاکستان کی مدد کرنے کا اعلان کیا تھاجس پر امن معاہدے کے مطابق کام تیز کرنے کے خیال کا اظہار شامل تھا۔اسلام آباد کے ذرائع کے مطابق تینوں ملکوں نے اکتوبر کے مہینے سے سفارتکاروں کی تربیتی پروگرام کے ساتھ ساتھ سیکورٹی، انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔چین کے مطابق پرامن افغانستان کو سی پیک کے منصوبے میں شامل کیا جاسکتا ہے یقینی بات ہے کہ سی پیک جس نے ایک طرف گوادر کے ذریعے آگے کی دنیا تک تجارتی رسوخ کو باقی ماندہ دنیا تک پہنچانا ہے وہیں پر امن افغانستان کی سرزمین بھی سی پیک کے منصوبے کے دائرے میں آنے سے وسطی ایشیا سے ہوتی ہوئی روس اور وہاں سے مشرقی یورپ تک دراز ہوجائے گی۔ اسی بنیاد پر چین کی جانب سے بیان آیا تھا کہ چینی حکومت افغان طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان پرامن مذاکرات کی حامی ہے جو اس افغانستان سمیت سارے خطے میں امن اور خوشحالی کا سبب بنے گا۔ لیکن امریکا کو خطے میں امن منظور ہی نہیں ہے اور اس جانب ہم کئی ماہ سے مسلسل اشارہ کیے جارہے ہیں کہ امریکا کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کسی طور بھی خطے کی پرامن صورتحال سے چین اور پاکستان کو مستفید نہیں ہونے دے گی۔

اس سارے معاملے میں ٹرمپ نے جو بیان دیا ہے جس میں بتایا گیا کہ کابل پر حملے کی وجہ سے امریکا افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کو معطل کررہا ہے کیونکہ اس حملے کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کی ہے ۔ تو یہ بڑی عجیب بات محسوس ہوتی کہ امریکا اب تک اپنے اور اپنے اتحادیوں کے ہزاروں فوجی افغانستان میں مروا چکا ہے اس وقت اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ جن افغان طالبان کے ساتھ وہ قیام امن کے لیے مذاکرات کررہا ہے انہیں کے ہاتھوں امریکا اور نیٹو کے فوجی مارے گئے ہیں اور اب جبکہ کابل کے ’’گرین علاقے‘‘ میں خودکش دھماکے میں امریکا سمیت بہت سے غیر ملکی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں تو اسے اس نے امن مذاکرات کی معطلی کا سبب گرداننا شروع کردیا ہے۔ یہ عجیب ہی نہیں بلکہ خاصی مضحکہ خیز صورتحال ہے ۔ افغانستان کی جنگ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ امریکا کی دجالی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے لیے تقریبا اسی ارب ڈالر کی سالانہ منفعت کا سبب ہے، وہ بھلا اسے کیسے ختم کرنے پر راضی ہوں گے۔ پیسے بے شک وار ٹیکس کے طور پر امریکی عوام کی جیبوں سے نکلیں لیکن یہی پیسہ تو امریکی صہیونی سیسیہ گروں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ اس لیے افغانستان سے نکلنے کا مینڈیٹ انہوں نے ٹرمپ کو نہیں دیا تھا ۔

افغانستان کے معاملے میں ٹرمپ کا کام صرف بڑھکیں لگانا تھا ، دوسرے اسے وائٹ ہائوس لانے کا اصل سبب یہ تھا کہ اس کے صہیونی داماد جیرالڈ کوشنرکو کھل کر وائٹ ہائوس میں اپنا کھیل کھیلنے کا موقع میسر آسکے اور اس نے یہ کھیل مشرق وسطی میں اب تک کامیابی سے کھیلا ہے۔ بہت پہلے ایک امریکی جریدے میں امریکا کے پہلے دس بااختیار ترین اشخاص کی لسٹ دیکھی تھی جس میں سب اوپر یعنی پہلا نمبر جیرالڈ کوشنر کا تھا !! یعنی وہ بغیر کسی حکومتی عہدے کے پہلے نمبرپر تھاجبکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام ساتویں نمبر پر تھا۔۔۔ ارے۔۔۔ تو پھر جیرالڈ کوشنر کیا ہے۔۔۔؟ یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ کوشنر نے مشرق وسطیٰ میں آگ لگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، امریکی صدر سے مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کا افتتاح کروایا، اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ ایم فرائڈمین سے مسجد اقصیٰ کی بنیاد میں سے پتھر نکلوا کر اس بات کا افتتاح کروایا کہ یہاں مسجد اقصی کو منہدم کرکے یہاں یہودیوں کا ’’ہیکل سلیمانی‘‘ تعمیر کیا جائے گا جس کی پلاننگ کئی برس قبل ہی مکمل کرلی گئی تھی۔ یہ تھے وہ اصل کام جو امریکا کی ڈیپ اسٹیٹ اور صہیونی اسٹیبلشمنٹ ڈونالڈ ٹرپ سے کرانے کے لیے اسے وائٹ ہائوس تک لائی تھی ورنہ ڈونالڈ ٹرمپ کسی سنجیدہ عہدے کے لیے موزوں شخصیت تو نہیں ہے وہ توصرف ایک تماشا ہے جسے دنیا کو دکھا کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

امریکی سی آئی اے اور پینٹاگان یعنی امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے ان دو بڑے مہروں کا کھیل افغانستان میں اس وقت زیادہ خطرناک نظر آتا ہے جب وہاں داعش کے وجود کے حوالے سے بات کی جاتی ہے۔ دوسری جانب امریکا کے افغانستان میں اٹھنے والے بے تحاشا اخراجات کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی تھی کہ بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم ’’بلیک واٹر‘‘ کے مالک ایرک پرنس نے امریکی حکومت کو پیش کش کی تھی کہ افغانستان سے سرکاری فوجیں نکال کر اس کی جگہ اس کی تنظیم بلیک واٹر کو افغانستان کا ’’جنگی ٹھیکہ‘‘ دے دیا جائے جو امریکی خزانے پر کم بوجھ ثابت ہوگا ۔ ماضی قریب میں ہونے والے ان تمام معاملات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش کے روپ میں بلیک واٹر کے لوگ ہی عراق اور شام میں کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور اب افغانستان میں جب سے ان کی تصاویر اور جنگی تربیت کی نوعیت ظاہر ہوئی ہے اس سے اندازا لگانا مشکل نہیں کہ یہ تمام کے تمام تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں جنہیں خاص مقاصد کے تحت مشرق وسطیٰ سے افغانستان منتقل کیا گیا تھاتاکہ افغان طالبان اور اس کی حمایتی گروپوں کو شکست دی جاسکے۔ خبروں اور تصاویر کے ذریعے جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق داعش کے ارکان نے کمانڈوز کی طرز کی وردیاں زیب تن کررکھی ہیں اور چہرے مکمل طور پر ڈھانپ رکھے ہیں اس کے ساتھ ان کے پاس جدید ترین فوجی گاڑیاں بھی ہیں جنہیں فوجی انداز میں کیموفلاج کیا جاتا ہے۔ اس تمام صورتحال سے اندازا لگانا مشکل نہیں کہ امریکا اب کھل کر اپنے ترکش کے آخری تیر یعنی داعش کو چلاکر خطے کو بڑی خانہ جنگی میں جھونکنا چاہتا ہے ، یہ کام اس نے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں اور بھارت کی مدد سے کے پی کے اور بلوچستان میں کرنے کی کوشش کی تھی جسے پاکستان کے سرفروش بیٹوں نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر ناکام بنا دیا ہے اب یہ کھیل افغانستان میں نئے سرے سے شروع ہونے جارہا ہے تاکہ اس آگ کی تپش میں چین اور پاکستان سی پیک کے ثمرات سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے پاس خطے میں اس وقت سنہری موقع تھا کہ وہ کسی حد تک عزت بچا کرخطے سے نکل جائے لیکن لگتا ہے عزت امریکا کی قسمت میں نہیں جو حال اس کا ویت نام ، کوریا اور صومالیہ میں ہوا تھا اس سے بدتر حال افغانستان میں ہونے جارہا ہے۔ افغان طالبان نے مذاکرات کے روز اول ہی کہہ دیا تھا کہ وہ مذاکرات اپنی جگہ لیکن افغان طالبان جنگ نہیں روکیں گے اور اس دوران امریکیوں کی جو درگت بنتی رہی وہ تمام دنیا کے سامنے ہیں لیکن اس وقت امریکا کی جانب سے جنگ بندی پر اصرار تو ہوتا رہا لیکن کسی موقع پر اس جنگ کو مذاکرات کی تعطلی کا سبب نہیں بنایا گیا پھر اچانک کابل دھماکے کو کیوں بنیاد بنا لیا گیا؟حقیقت یہ ہے کہ امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کو اس سے کیا ان کے نزدیک اگر اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت قائم کرنے کی کوشش میں سارے امریکی بھی مرجائیں تو ان کی بلا سے۔اب اگر ساری امریکی قوم دھنیا پی کر امریکیوں کی تابوت بند لاشیں واپس آتے دیکھنا چاہتی ہے اور آنکھیں بند کرکے امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی جیبیں ٹیکس کے ڈالروں سے بھرنا چاہتی ہے تو پھرکوئی کیا کرسکتا ہے۔ ماضی میں جب کوریا اور ویت نام کی جنگوں کے خلاف امریکی عوام سڑکوں پر نکلے تھے تو امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے فیصلوں سے رجوع کرنا پڑا تھا مگر آج صہیونی کارپوریٹیڈمیڈیا کی پٹی ان کی آنکھوں سے باندھ دی گئی ہے۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان کو سب سے زیادہ اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پرہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ امریکا اور اسرائیل مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو پہلے ہی پھنسا چکے ہیں اب کسی وقت بھی وہ افغانستان میں اپنے اڈوں کو محدود کرنے کا یکطرفہ اعلان کرکے داعش یا بلیک واٹر کو اپنی جنگی بساط پر آگے لاسکتا ہے تاکہ خطہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جغرافیائی طور پر افغانستان اور عراق وشام میں بہت فرق ہے جو کھیل آسانی سے داعش کے ذریعے وہاں کھیل لیا گیا ہے وہ افغانستان میں ممکن نہیں کیونکہ یہاں ــ’’چاروں طرف‘‘ ایسی قوتیں ہیں جو داعش یا اس کے بھیس میں بلیک واٹر کو کچل کر رکھ دیں گی۔ اس سارے کھیل میں بھارت اپنی خیر منائے۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں