میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہمارے رانجھے

ہمارے رانجھے

احمد اعوان
هفته, ۲۳ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم شاہدخاقان عباسی صاحب وزیرداخلہ اوروزیرخارجہ کابیان کے گھرکی صفائی ضروری ہے کسی طرح بھی نظراندازکیے جانے کے لائق نہیں ہے ۔اس سے پہلے چوہدری نثارنے ملک کوسنگین خطرات لاحق ہونے کی بات کی تھی ،سوال یہ ہے کہ وہ سنگین خطرات کیاہیں ؟اگرہم کڑیوں سے کڑیاں جوڑیں توہم ان خطرات تک پہنچ سکتے ہیں ،میاں نوازشریف نے اقتدارسنبھالنے کے بعدجن چندضرورتوں کوفوری طورپرپوراکرنے کی کوشش شروع کردی تھی ۔ان میں ایک ضرورت پڑوسیوں سے تعلقات اچھے کرناتھے ۔اس سلسلے کوماضی میں وہ جہاں چھوڑکر بھیج دیئے گئے تھے انہوں نے اس سلسلے کووہیں سے جوڑااورانڈیاسے تعلقات درست کرنے کی کوشش کاآغازکیامگرسول حکومت کی کوشش بحرحال کوشش ہی ہوتی ہے ۔
اگرریاست حکومت کی سوچ سے متفق نہ ہوتوحکومت اپنی کوشش کوایک حدسے آگے نہیں لے جاسکتی ۔اس باربھی کچھ ایساہی ہوا۔انڈیاسے تعلقات خوشگوارنہ ہوسکے اورآئندہ بھی ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں ۔حکومت انڈیاسے اس لیے تعلقات اچھے کرناچاہتی ہے کیونکہ حکومت کوعلم ہے کہ ریاست نے دہلی کے لال قلعے پرجھنڈالہرانے کاخواب ضروردکھاناہے مگراقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں ایساممکن نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکا افغانستان اورعراق میں قبضہ کرنے کے باوجودوہاں مقامی حکومت کاقیام عمل میں لایا۔چاہے وہ مقای حکومت لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہومگرایک نام کی ہی سہی مگر عوامی نامی حکومت قائم کی جاتی ہے ۔حکومت سمجھتی ہے کہ جب ہم نے دلی فتح نہیں کرناتوپھردلی سے جھگڑاکب تک ؟مگردلی سے جھگڑ اکسی کے لیے راشن کارڈبھی توہوسکتا ہے ؟انڈیاگزشتہ کچھ عرصے میں اپنے سفارتی محاذ پرزبردست کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہاہے ۔جس میں سے ایک کامیابی حال ہی میں تجارتی تنظیم برکس کے اعلامیے میں پاکستان کے اندرموجودبین الاقوامی طورپر کالعدم تنظیموں کی مزاحمت کے بیان کواعلامیے میں شامل کرواناہے ۔اس تنظیم میں ہمارادوست چین بھی شامل تھا۔
موودی، ٹرمپ کواس بات پرقائل کرچکاہے کہ امریکا لشکرطیبہ اوردیگربین الاقوامی طورپرکالعدم تنظیموں کے دفاترکوپاکستان کے اندرڈرون کے ذریعے نشانہ بنائے ۔اس صورتحال میں راولپنڈی ،فیصل آباد،لاہوروغیرہ میں بھی امریکا ڈرون حملے کرسکتاہے اورٹرمپ اس حوالے سے کوئی اہم فیصلہ لے سکتاہے ۔ ان ڈرون حملوں کے بعدپیداہونے والی صورتحال میں حزب اختلاف کی پارٹیاں جوایک عرصے سے حکومت مخالف تحریک چلارہی ہیں وہ اس تمام صورتحال کوحکومت کے سرڈالیں گی اوراس عمل کوحکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کانام دیں گی جبکہ یہ حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں آزادخارجہ پالیسی ہرمنتخب حکومت کاخواب رہی ہے ۔اورمحترمہ بے نظیرکی پہلی حکومت میں توان کوصاف کہہ دیاگیاتھاکہ وہ خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کرینگی ۔خواب دکھانے والوں نے بلاول کوبھی خواب دکھائے ہیں کہ اگروہ زرداری سے جان چھڑوالیں توان سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اوران کواقتدارمیں حصہ دیاجاسکتاہے ۔اس وقت حکومت نئی پیداہونے والی صورتحال کے نتائج کااندازہ قبل ازوقت لگاتے ہوئے ملک کواس صورتحال سے بچانے کے لیے بھرپورکوشش کررہی ہے ۔
چندہفتوں کے دوران وزیرخارجہ‘ وزیرداخلہ اوروزیراعظم کی میٹنگزاورپریس کانفرنس یاغیرملکی دوروں کودیکھیں تواس بات کاباخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت ذمہ داری کاثبوت دے رہی ہے ۔ اورکسی بڑے خطرے کے پیش نظر حکومت اس خطرے سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہی ہے ۔خواجہ آصف کے بعداحسن اقبال اورپھرشاہدخاقان صاحب نے یک زبان ہوکراس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ملک کے اندرسے ان قوتوں کوکنٹرول میں لاناہوگاجن کی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کوبدنامی کاسامناکرناپڑرہاہے ۔اگرہم ماضی میں ڈان لیکس کی طرف جائیں تواس میٹنگ میں یہی بات جواس حکومت کاموقف ہے اس کاحکومت نے کھل کراظہارکیا تھا۔اوراس پرڈان لیکس سامنے آگئی حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے امریکا کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہوتی ہے ۔اورہم امریکا کی اندرونی کہانیوں تک سے پردااٹھاتے ہیں توکیاامریکا کوہمارے رازاورہمارے بارے میں ہماری پالیسیوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا؟یہاں وہ مثال یادآرہی ہے کہ جس آدمی کی بیوی اخلاقی لحاظ سے کمزورہوتی ہے اس شخص کے سوایہ بات سارے محلے کومعلوم ہوتی ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لبرلزحلقوں نے کبھی بھی دوقومی نظریے کونہیں مانا اس وقت سے ریاست کودفاع میں مددحاصل کرنے کے لیے دینی لوگوں کواستعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔اورتاریخ گواہ ہے کہ پاکستان پرجومشکل جووقت آیا پاکستان کے مذہبی حلقے استعمال ہونے کے لیے اپنے آپ کوپیش کرتے رہے ہیں ۔ جہادافغانستان سے البدر،الشمس بنگال اورکل کشمیر،افغانستان تک بکھرے شہداء کے لہوکی خوشبوں گواہی دے رہی ہے کہ سرکارنے وطن کے دفاع کے لیے جب جب مذہبی حلقوں کواستعمال کرناچاہا وہ لبیک لبیک کہتے دوڑے چلے آئے مگرجواب میں اسلامی نظام کے نفاذکے لیے صرف کمیٹیاں بنتی رہی ہیں ۔ سلالہ چیک پوسٹ پرحملہ ،کاکول اکیڈمی کے قریب حملہ کوئٹہ میں ڈرون حملہ ریمنڈڈیوس کی حوالگی توکل کی باتیں ہیں ۔ماضی میں ایمل کانسی کوامریکیوں کے حوالے کرنے سے بھی پیچھے جائیں توہراس وقت جب ہمیں کسی اپنے کے ڈولوں کی ضرورت پڑی ،ہمیں بس ’’جوبچ گیااس پرشکرکرو‘‘ کی تھپکی دے دی گئی ۔خدانہ کرے مگراگرشہروں پرڈرون حملے ہوگئے تو کیا ہوگا؟ چندلوگ صاف صاف کہیں گے۔ ہم امریکا سے نہیں لڑسکتے وہ ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہے یہی بات سوچ کرلگتاہے حکومتی وزراء مارپڑنے سے پہلے قوم کوبچانے کی فکرمیں مصروف ہیں ؟رانجھاہیرحاصل نہ کرسکنے کے باوجودجس طرح رانجھاہی ہے اسی طرح ہمارے رانجھے بھی چوریاں کھائیں ۔ وہ ہمیشہ ہمارے رانجھے ہی رہیں گے ،چاہے ہیرکوکوئی کندھے پرڈال کرلے ہی کیوں ناجائے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں