پھندہ منتظرہے!
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والی مقتدرشخصیات کے چند ہونہار،نونہال آج نہ صرف ارب پتی بلکہ کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کابھرپورفائدہ اٹھارہے ہیں۔کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پرفائزسرکاری افسر،سیاستدان اورٹیکنوکریٹ بیرونی ممالک میں دادِعیش دے رہے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی ایک کے خلاف بھاری رشوت اورسنگین بد عنوانی کے مقدمات زیرالتواتھے،جن کی پہلے این آراوکے تحت گلوخلاصی ہوئی،بعدازاں سیاسی جوڑتوڑکے قوم کی تقدیرسنوارنے کانعرہ لیکرحکومت میں آئے توسب سے پہلے قانون سازی کرکے اپنے مقدمات سے گلوخلاصی کرواناضروری سمجھا۔جن پرقومی دولت کے کھربوں روپے لوٹنے کاالزام تھا،ان کو باقاعدہ ایوان صدربلاکرعزت کی خلعت پہناکراورگلے میں پاکستان کی اعلیٰ خدمت کامیڈل پہناکرقوم کے ساتھ کھلواڑکرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی۔یہ وہ مقدرکے سکندربھیڑئے ہیں جوبھیڑکی کھال پہن کردوبارہ مملکتِ خداداد کی قسمت کے مالک بن گئے ہیں۔
ان میں کچھ توایسے تھے جومملکت ِخدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھے اورپالیسی سازبھی،جب تک ہوا کارخ موافق رہاوہ سیاہ وسفیدکے مالک بنے رہے۔ان کو اپنا اوران مہربانوں کامفاد،جن کے وہ ممنونِ احسان تھے،اس قدر عزیزتھاکہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کاخیال تک بھلابیٹھے،ملک توکیا،آنے والی نسلوں تک کوگروی رکھتے گئے۔ اشرافیہ کوعیش وعشرت کی لت ڈال گئے۔ہمارے عظیم دوست چین کے عظیم ترین انقلابی قائدماؤزے تنگ اورچواین لائی نے سادگی کواپنایا،وہ اوران کے ساتھی سختیاں جھیلتے رہے، جن اصولوں پرقائدین خودکاربند ہوں،عوام کیلئے ان کودل وجان سے قبول کرنااوران پربخوشی عمل کرنانہایت آسان ہوجاتاہے۔انقلاب کے بعدپہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اورچین اب دنیاکاایک عظیم ترین ملک بن گیاہے اورہم ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔
امریکاکی بارگاہ میں سربسجودہیں،جس کے منشی اورکارندے حکم چلاتے ہیں اورہم بلاچوں چراں حکم بجالاتے ہیں۔ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہماراہی کھاتے ہیں اورخوب کھاتے ہیں مانگ تانگ کے۔کئی دفعہ ناک کی لکیریں کھنچ کر،جوقرضہ ہم غیرممالک یامالیاتی اداروں سے لیتے ہیں،اس میں سے یہ”فرشتے”مشاورت اورخدمات کے نام پربہت کچھ ہتھیالے جاتے ہیں۔”مالِ غنیمت”میں سے کچھ سکے وہ”مقامی ہم جولیوں”کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپا رہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہارکے گیت اس وقت تک گاتے رہیں جب تک حکومت نہ بدل جائے۔
حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیرکیلئے اس طرح خاموش ہوجائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگر جلدہی پھرنکل آئیں گے۔راگ پھرشروع ہوگامگرسرتال پہلے سے مختلف۔اب خانہ بربادی کاذکرہوگا،ستیاناس اوربربادی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے ولا توبہ توبہ کاوردکرتے کانوں کوہاتھ لگائے اورسوچے کہ یہ حسین ملک کتنا بدقسمت ہے کہ اس میں بھیڑیئے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایک اعلی مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ طالع آزماایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ عوام کے اعتماد کی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص و ہوس کاکچھ نہیں بگاڑسکتی،نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھیل کھیلتے ہیں بلکہ اپنی”جرات وبہادری”پر فخر کرتے ہیں۔بعدمیں پکڑے جائیں توبھی اپنے کئے پرنادم ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کراپنادفاع کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کوبھی یہ کہناپڑجاتاہے کہ”کرپٹ عناصر شرمندہ نہیں بلکہ وہ اکڑکربڑے فخرکے ساتھ چلتے ہیں۔ان سے کئی کئی ملین ڈالرعدالتوں کے حکم پرحکومت نے وصول بھی کئے،اس کے باوجود وہ گالف کھیل رہے ہیں، معاشرہ کوان سے الگ تھلگ رہناچاہئے اوران کابائیکاٹ کرنا چاہئے”لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ کرپشن کی یہ موذی بیماری توان طبیبوں کے گھروں میں بھی ڈیرہ بسائے بیٹھی ہے جواس کاعلاج تجویزکررہے ہیں۔
خطاتومعاشرہ کی بھی ہے۔اچھائی برائی میں تمیزکمزورپڑجائے،عجزوانکسارکمزوری کی علامت تصورہونے لگے،برائی سے بچنابزدلی ٹھہرے اورچورڈاکورہزن کیلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے توکیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کا کردار ادا کریں۔ عموما کہا جاتا ہے کہ انسان کی سرشت میں مضمرہے کہ ہرانسان دل کی گہرائیوں میں نہ صرف نیکی اور بدی کاواضح احساس رکھتاہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہد کے جذبہ سے بھی عاری نہیں۔حالات کاجبرالبتہ اسے خاموش رہنے پرمجبورکردیتاہے۔روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتا ہے کہ خواہ مخواہ”پنگا”لیناسراسرحماقت ہے۔جو سرپھرے پرائی آگ میں کودپڑتے ہیں ان کے نہ صرف پاں جھلس جاتے ہیں،بعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سے عدم کی منزل تک لے جاتی ہے۔
عقلمندی،انہیں ناانصافی،ظلم اوربے رحمی سے نبردآزماہونے کی بجائے خاموش رہنے اوربہت کچھ”پی جانے”کی ترغیب دیتی ہے، یوں ان کی قوتِ برداشت کادائرہ پھیلتاجاتا ہے جس سے برخودغلط ظالموں کاحوصلہ بڑھتاہے۔وہ چنگیزخان کے لشکریوں کی طرح ہر مرغزار پرچڑھ دوڑتے ہیں۔بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اوربے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کاساتھ چھوڑدیتی ہے۔آٹھوں پہرگردش کرنے والاآسمان پھرعجیب وغریب منظردیکھتاہے۔مفتوحہ شہرمیں ایک ممتاز شہری کسی غیرمسلح تاتاری کے ہتھے چڑھ جاتاہے،اسے وہی لیٹ جانے کاحکم ہوتاہے جس کی بلاچوں چراں تعمیل ہوتی ہے۔تاتاری یہ کہہ کر ”یہیں لیٹے رہناجب تک میں کیمپ سے تلوارلاکر تمہاراگلہ نہ کاٹ دوں”چلاجاتاہے۔معززشہری بے حس وحرکت پڑارہتاہے،نہ اسے فرار کا خیال آتاہے،نہ جان بچانے کی سوجھتی ہے۔کافی دیرکے بعدتاتاری آتاہے،اس کاگلہ کاٹ دیتاہے۔
حدسے بڑھ جانے والی سفاکی غلامی کوجنم دیتی ہے۔کوئی بھی خواہ مخواہ گردن کٹوانانہیں چاہتا۔نہتے انسانوں کا جمِ غفیر توپ وتفنگ سے مسلح لشکرکے سامنے کیسے ٹھہرسکتاہے، خصوصاً جب قتل عام کااذن ہوچکاہویاہوسکتاہو۔ہلاکو خان نے اہلِ بغدادکوتہ تیغ کیاتودریاکاپانی گلرنگ ہوگیا،نادرشاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔گلیوں میں انسانی خون بارش کے پانی کی طرح بہنے لگا۔1857میں بار بار اجڑنے والی دلی کوپھرویساہی المیہ پیش آیا۔ شہزادگان کی لاشیں کئی دن درختوں سے لٹکتی رہیں،نازونعمت میں پلے بڑھے کتنے ہی اہلِ ثروت خون کی ہولی کی بھینٹ چڑھ گئے،جوبچ رہے وہ فاتحین کی قدم بوسی کو بڑھے۔اپنی وفادای کایقین دلانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، تابعداری کوشرطِ استواری سے یوں سنواراکہ وہ اصل ایمان ٹھہری۔
جسٹس مرحوم رستم کیانی نے1959میں دیئے گئے خطبہ یومِ اقبال میں ایک شوریدہ سرشاعرکے اس شعرکاحوالہ دیا تھا:
دیکھتاکیاہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کاپاکستان دیکھ
جسٹس مرحوم رستم کیانی اس وقت حکومت کے قانونی مشیرتھے۔ان سے رائے طلب کی گئی کہ اس پرکون سی دفعہ لگتی ہے۔انہوں نے کہاکہ”خدا کے بندو!وہ توصرف یہ کہتاہے کہ میرے منہ کی طرف کیادیکھتے ہو،پاکستان کی طرف دیکھو،کیا یہ وہی ملک ہے جوقائداعظم نے تراشاتھا”۔اب توغالباروحِ پاکستان بھی اپنے”جانثاروں”سے یہ سوال کرتی ہوگی ۔ کیاہم سے کوئی جواب بن پاتاہے؟ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی یہ سوچنے یا معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارہ کی کہ مملکتِ خدادادپاکستان کیونکرصفحہ ہستی پرنمودارہوا؟بانیانِ پاکستان کے خواب ،آرزوئیں،تمنائیں اورآدرش کیاتھے؟بابائے قوم نے کیاسوچا،کیاچاہاتھا،کون سی منزل متعین کی تھی؟کیسے وہاں تک پہنچناتھا؟وہ منزل کن اندھیروں میں کھوگئی،نشانِ منزل بھی کوئی دکھائی پڑتاہے یانہیں؟تاریخ گواہ ہے کہ آزادی تو کبھی بھی التجاؤں اوردرخواستوں سے نہیں ملی۔
صحرائے سینامیں40سال تک بھٹکنے کے بعدحضرت موسیٰ کی قوم کوبھی بالآخرمنزل مل گئی تھی۔احساسِ زیاں اگردامن گیرہوجائے توکیاخبرہم بھی گم گشتہ راہوں کوازسرِنوپا لیں۔ اپنی اپنی ذات کی قیدسے آزادہوجائیں۔ذاتی مفادکوہی زندگی کا واحد مقصدسمجھناترک کردیں۔ملک وقوم کی فلاح وبہبودکونہ صرف اپنافرض سمجھیں بلکہ اس کیلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کیلئے تیارہوجائیں۔کیاوہ ایک نئی صبح نہیں ہوگی جب ہم میں سے کئی ایک دیوانے سچ کوبرملاسچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے،کتناہی خوشگواراجالاہوگاجب جماعتی وفاداریوں سے بالاتر ہوکر،یاری دوست اوربرادری کی زنجیروں سے آزادہوکرہمارے اربابِ اختیارحق وانصاف کے تقاضے پورے کریں گے،قائدکے حسین چہرہ پرجمی گردجھڑنے لگے گی۔ پہلی مرتبہ ایسااحتساب شروع ہواہے۔ایک کڑاامتحان ہے اورقوم بھی ہاتھوں میں پھندہ لئے منتظر ہے۔ دیکھیں کون کون جھولتاہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔