نشئی قوم
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو،کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ پوری قوم کسی بدترین نشے میں مبتلا ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہوشاید کہ آپ کے گھروں کے آس پاس ، فٹ پاتھوں پر جب نشے میں دھت افرادبدمست ہوکر پڑے ہوتے ہیں تو انہیں بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے اطراف کیا ہورہا ہے؟ کون آرہا ہے، کون جارہا ہے؟ وہ اپنی دنیا میں ڈوبے ہوتے ہیں، یہ حال ہماری قوم کا ہے۔نگراں وزیراعظم فرماتے ہیں کہ انہیں ”مینڈیٹ” ملا ہے کہ وہ حکومت کریں۔ کس نے دیا مینڈیٹ؟ کیا وہ الیکشن جیت کر آئے ہیں؟ دوسری طرف جو سولہ ماہ سے بالکل فٹ فاٹ، چاک و چوبند تھے، اب ایک کے بعد ایک بیمار ہوکر بیرون ملک نکلنے کے چکروں میں ہیں۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں، قوم کو کسی کی پرواہ نہیں، وہ کسی بدترین نشے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بے حس ہوچکی ہیں۔ مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ اگر کسی کی پچاس ہزار تنخواہ بھی ہواور اس کے گھر میں صرف چار افراد ہوں(میاں بیوی اور دو بچے) تو پھر بھی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضہ لینا پڑے گا۔ پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر تین سوروپے پر پہنچ چکے ہیں۔ ان دونوں کے ریٹ بڑھنے کا مطلب ملک میں موجود ہر چیز کے نرخ بڑھنا ہوتا ہے۔ دودوھ دوسوتیس روپے لیٹر ہے، دودوھ فروشوں کا کہنا ہے کہ لوگوں نے دودھ خریدنا کم کردیا ہے، جس کی وجہ سے اب دودھ فروش سوچ رہے ہیں کہ وہ دودھ کچھ سستا کردیں۔
شہر قائد میں نشئی افراد نے شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا، گٹر کے ڈھکن چوری کرنے کے بعد شہر کے پیڈ سٹرن برج بھی غائب کرنے لگے۔ کراچی کے شہری جہاں بنیادی سہولیات سے محروم ہے وہی نشئی افراد نے مزید پریشانی میں اضافہ کردیا، کلفٹن جیسے پوش علاقے میں قائم پیڈسٹرین برج کی حفاظتی گرل کاٹ کر لے گئے ۔۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے پوری قوم پاگل ہو چکی ہے اور اِس قوم کا علاج کم ازکم ہماری زندگیوں میں تو ممکن نہیں، جس ملک میں لوگ مذاق مذاق میں کسی کی جان لے لیں، آئل ٹینکر سے بہتا ہوا تیل چرانے کے لیے زندہ جل جائیں، گیس سلنڈر کی بداحتیاطی سے چلتی ٹرین میں دھماکے کر دیں ، جس ملک میں ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو نذرآتش کردیا جائے،نجی املاک کو لوٹا جائے۔ایک موبائل کے لئے کسی کی بھی جان لے لی جائے۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ قوم نشئی بن چکی ہے؟ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ناز نخرے جس کے اٹھائے جاتے ہیں اسے ہیروئین کہاجاتا ہے، اسی طرح جسے مکمل نظراندازکیاجاتا ہے،کوئی لفٹ نہیں کرائی جاتی،جوبے چارہ فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہاہوتاہے،اسے ہیرؤنچی کہتے ہیں۔۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیرونچی بھی صرف ہیروئین کی خاطر زندگی تباہ کرنے کے درپے رہتا ہے، ہیروئین کے لئے گٹرکے ڈھکن چرانے سے لے کر ہر وہ کام کرنے پر تیارہوجاتا ہے جس کے لئے وہ نارمل زندگی میں کبھی تیار نہ ہوتا۔۔استاد نے جب کلاس میں سوال کیا کہ ہیرو بہادر ہوتا ہے اور ہیروئین خوبصورت ،آپ لوگ کیا بنناچاہو گے؟تو ایک بچے نے برجستہ جواب دیا۔۔دونوں۔۔استاد کو حیرت ہوئی کہ یہ کیسا جواب تھا، استاد نے تفصیل پوچھی تو بچے نے کہا۔۔یعنی۔۔ ہیرونچی ۔۔۔ایک تھانیدار نے اپنے ”جہاز” سپاہی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔تم اگر نشہ چھوڑ دو ایک دن میری طرح تھانیدار بن جاؤگے، کیوں کہ تمہارے اندر ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن نشہ تمہیں اندر سے کھارہا ہے۔ سپاہی نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا۔سرجی جب میں نشے میں ہوتا ہوں تو آئی جی سے بھی بڑا افسر بن جاتا ہوں۔
استاد نے جب کلاس میں بچوں سے بآواز بلند سوال پوچھا کہ سب سے زیادہ نشہ کس چیز میں ہوتا ہے ؟ ہمارے جیسا ایک احمق اسٹوڈنٹ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔سر تعلیم میں۔۔ استاد کو بڑی حیرت ہوئی، لیکن اپنے اسٹوڈنٹ سے سوال کئے بغیر رہ نہ سکا، پوچھا، وہ کیسے؟؟شاگرد بولا: کتابیں کھولتے ہی ہمیں نیند آجاتی ہے۔کسی چرسی کا بھائی مرگیا، اب اسے یہ ٹینشن ہوئی کہ بھابھی کو کس ”سلیقے ” سے اطلاع دے کہ اسے کم سے کم صدمہ پہنچے،بھابھی سے جاکر بولا۔۔۔بھائی نے سارے پیسے جوئے میں ہاردیے، وہ بولی، اللہ اس کی زندگی برباد کرے، چرسی کہنے لگا۔ بھائی نے اپنا گھر بھی بیچ ڈالا۔وہ بولی ، اللہ اس کی عمر کو روگ لگائے۔چرسی پھر کہنے لگا، بھائی نے ایک اور شادی کرلی ہے۔وہ بولی، اللہ کرے مرے ،میں اب اس کا مرا منہ بھی نہیں دیکھوں گی۔ چرسی نے باہر کے دروازے کی طرف منہ کیا اور زوردار آواز میں بولا۔بھائیو،اب میت اندر لے آؤ۔ایک بار کچھ نشئی قبرستان میں بیٹھے دم لگارہے تھے کہ اچانک پولیس نے چھاپہ ماردیا، باقی تو بھاگ گئے لیکن ایک لنگڑا تھا اس لئے اسے معلوم تھا کہ بھاگا تو پکڑے پھر بھی جانا ہے۔اس نے جلدی سے جیب سے ٹوپی نکالی اور قریب کی ہی قبر کے پاس بیٹھ کر بڑے مودب انداز میں فاتحہ خوانی کے ہاتھ بلند کردیے۔ پولیس نے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔چرسی بولا۔ میرے والد صاحب مر گئے ہیں تو دعا کر رہا ہوں۔ پولیس نے کہا یہ تو بچے کی قبر ہے اس پرچرسی نے برجستہ کہا۔ جی ہاں ابو بچپن میں ہی مر گئے تھے۔کسی جنگل میں ایک چیتا بیٹھ کر چرس کی سگریٹ بنارہا تھا کہ اچانک چوہا آگیا۔ اس نے چیتے سے کہا ،بھائی سگریٹ چھوڑ دو آؤ میرے ساتھ دیکھو جنگل کتنا خوبصورت ہے۔ چیتا سگریٹ چھوڑ کر اس کے ساتھ چل دیا۔کچھ دور ہاتھی چرس پی رہا تھا۔ چوہے نے اسے بھی کہا، بھائی نشہ چھوڑ دو آؤ میرے ساتھ دیکھو جنگل کتنا خوبصورت ہے۔ ہاتھی بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔۔تھوڑا آگے ایک شیر وہسکی پی رہا تھا ، چوہے نے اسے بھی نشہ چھوڑنے کا کہا۔ شیر نے اسے دو چار تھپڑ مار دیے چیتے اور ہاتھی نے کہا ، بھائی اس بیچارے کو کیوں مار رہے ہو۔ شیر بولا یہ کمینہ ہر رات ایسے ہی بھنگ پی کر دوسروں کو ساری رات گھماتا رہتا ہے۔تین چرسی رکشے میں سوار ہوئے، رکشے والوں کو جو جگہ بتائی جہاں جانا تھا،تینوں چرسی اسی جگہ سے چڑھے تھے۔ رکشے والے نے جب دیکھا کہ یہ نشے میں بری طرح دھت ہے تو جلد ی سے رکشہ اسٹارٹ کیا اور کچھ دیر ریس دینے کے بعد بند کردیا اور کہنے لگا۔ لو صاحب پہنچ گئے۔ایک چرسی نے شکریہ ادا کیا،دوسرے نے جیب سے کرایہ نکال کر دیا۔ تیسرے نے رکشے والے کو زناٹے دار تھپڑ رسیدکیا، رکشہ والا گھبرایا کہ شاید تیسرا نشے میں نہیں تھا اور اسے حقیقت کا پتہ چل گیا ہے۔اس نے سوالیہ نگاہوں سے تیسرے چرسی کو دیکھاتو وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا۔ سالے آج تو مروا ہی دیتا،اتنا تیز رکشہ چلاتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جس لمحہ آپ خود کو اہمیت دینا شروع کریں گے، یہ دنیا بھی آپ کو اہمیت دینا شروع کردے گی۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔