اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی جاری کردی ، شرح سود 15فیصد برقرار
شیئر کریں
مہنگائی کی شرح 24 اعشاریہ 93 فیصد ریکارڈ ،تجارتی خسارہ جون میں نمایاں اضافے کے بعد گزشتہ ماہ نصف ہو کر 2.7 ارب ڈالر رہ گیا
جولائی کے مہینے میںسیمنٹ،پیٹرولیم مصنوعات ،کھادوں اورگاڑیوں کی فروخت کم ہوگئی،سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوارمیں بھی کمی کاامکان ہے
کراچی(اسٹاف رپورٹر)اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی)نے آئندہ ڈیڑھ ماہ کیلیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ایس بی پی اعلامیے کے مطابق نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 15 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔اعلامیے کے مطابق ملک میں جاری مہنگائی کی صورت حال توقعات کے مطابق ہے۔ گزشتہ جولائی میں مہنگائی کی شرح 24 اعشاریہ 93 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔تجارتی خسارہ جون میں نمایاں اضافے کے بعد گزشتہ ماہ نصف ہو کر 2.7 ارب ڈالر رہ گیا، درآمدات کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں کچھ عارضی انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی)نے پیر کو ہونے والے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 15 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے ۔ اوورہیٹنگ معیشت کو ٹھنڈا کرنے اور جاری کھاتے کے خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے پالیسی ریٹ کو گذشتہ ستمبر سے اب تک مجموعی طور پر 800 بیسس پوائنٹس بڑھایا گیا ہے، درآمدات کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں کچھ عارضی انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں اور مالی سال 23 کے لیے مضبوط مالیاتی یکجائی کی منصوبہ بندی ہے۔ توقع ہے کہ یہ اقدامات آنے والے مہینوں کے دوران نظام پر اثر انداز ہوں گے۔توقعات کے مطابق مہنگائی کی حالیہ صورت حال ، ملکی طلب میں اعتدال اور بیرونی پوزیشن میں کچھ بہتری کے آغازکی بنا پر ایم پی سی کی رائے تھی کہ اس مرحلے پر کچھ توقف کرنا دانشمندی ہوگی۔ آگے چل کر ایم پی سی اعدادوشمار پر انحصار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ماہ بماہ مہنگائی ، مہنگائی کی توقعات، مالیاتی اور بیرونی محاذوں کی صورت حال نیز اجناس کی عالمی قیمتوں اور اہم مرکزی بینکوں کی جانب سے شرح سود کے فیصلوں پر بھرپور توجہ رکھے گی۔ پچھلے اجلاس کے بعد ایم پی سی نیتین اہم ملکی پیش رفتیں نوٹ کیں۔ اول،عمومی مہنگائی (headline inflation)جولائی میں مزید بڑھ کر 24.9 فیصد ہوگئی اور قوزی مہنگائی (core inflation) بھی بڑھی۔ توانائی کی سبسڈی کے پیکیج جس کے اثرات مالی سال کے بقیہ حصے کے دوران مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہوتے رہیں گے ضروری خاتمے نیز پچھلے مہینے ضروری غذائی اشیا کی قیمت میں تیزی اور ایکسچینج ریٹ کی کمزوری کے پیش نظر اس کی توقع تھی۔ دوم ، جولائی میں تجارتی توازن تیزی سے گر گیا ، اگست کے دوران روپے میں گراوٹ کا رجحان تبدیل ہوا اور بہتر مبادیات اور احساسات کی بنا پر اس کی قدر میں 10 فیصد کے لگ بھگ بہتری آئی۔ سوم، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جاری جائزے پر بورڈ کا اجلاس 29 اگست کو ہوگا اور توقع ہے کہ اس میں 1.2 ارب ڈالر کی مزید ایک قسط جاری کی جائے گی اور کثیر فریقی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی جانب سے رقوم کی آمد کو بھی تحریک ملے گی۔ علاوہ ازیں پاکستان کو مالی سال 23 میں اپنی بیرونی مالکاری ضروریات سے بڑھ کر دوست ممالک سے اضافی 4 ارب ڈالر کامیابی سے مل چکے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر سال کے دوران زر مبادلہ کے ذخائر مزید بڑھیں گے جس سے بیرونی لحاظ سے کمزوری کم کرنے میں مدد ملے گی۔بین الاقوامی پیش رفتوں کے حوالے سے زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں عالمی اجناس کی قیمتوں اور امریکی ڈالر دونوں میں کمی آئی ہے، ایسا عالمی نمو میں توقع سے زیادہ تیزی کے ساتھ سست رفتاری کی علامات اور مارکیٹ کی ان ابھرتی ہوئی توقعات کے ردعمل میں ہوا کہ امریکی فیڈرل ریزرو کی سختی کا چکر پچھلے اندازے کے مقابلے میں کم جارحانہ رہے گا۔ گذشتہ موسم گرما سے جاری رجحان کے مقابلے میں ابھرتی منڈیوں کے مرکزی بینکوں نے اپنے حالیہ اجلاسوں میں پالیسی ریٹ کو روکنا شروع کردیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر خطرات ممکنہ طور پر مہنگائی سے نمو کی طرف منتقل رہے ہیں، اگرچہ اس مرحلے پر ابھی صورت حال میں بہت بے یقینی پائی جاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ معیشت میں برآمدات اور بیرونی نجی رقوم کی آمد کے قدرے چھوٹے حصے کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی نمو میں کچھ بڑی سست رفتاری دیگر ابھرتی معیشتوں کی نسبت پاکستان کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں ہو گی۔ نتیجتا، اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے ساتھ مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے کو کم ہونا چاہیے، جبکہ نمو اتنی بری طرح متاثر نہیں ہو گی۔ جیسا کہ توقع تھی، گذشتہ زری پالیسی اجلاس کے بعد سے سرگرمی معتدل ہوئی ہے۔ طلب کے بیشتر اظہاریے نرم ہوئے ہیں ، جیسے جولائی میں سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات، کھادوں اور گاڑیوں کی فروخت ماہ بہ ماہ بنیاد پر کم ہو گئی اور جون کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں ہونے والی سال بسال نمو تقریبا نصف رہ گئی۔ مون سون کی غیرمعمولی طور پر موسلادھار اور طویل بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی حالیہ صورت حال نے زرعی پیداوار میں کمی کے خطرات پیدا کیے ہیں، خصوصا کپاس اور موسمی فصلوں کے حوالے سے ، جس کے اس سال نمو پر اثرات پڑسکتے ہیں۔ مستقبل میں ، مالیاتی اور زری پالیسیوں کی سختی کے باعث ایم پی سی کو مالی سال 23 کے دوران نمو کے 3 تا 4 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ اس سے مہنگائی اور جاری کھاتے پر طلب کے لحاظ سے دبا کم ہوگا اور مستقبل میں بلند نمو کے لیے زیادہ پائیدار بنیادوں پر حالات سازگار ہوں گے۔ وسط مدت میں بلند اور پائیدار ترقی کے لیے پاکستان کے نمو کے ماڈل کو کھپت سے ہٹا کر قطعی طور پر برآمدات اور سرمایہ کاری کی طرف لے جانے کے لیے ساختی اصلاحات کی بھی ہنگامی ضرورت ہے۔ تجارتی خسارہ جون میں نمایاں اضافے کے بعد گذشتہ ماہ نصف ہوکر 2.7 ارب ڈالر رہ گیا کیونکہ توانائی کی درآمدات میں خاصی کمی واقع ہوئی جبکہ غیر توانائی درآمدات نے اعتدال پر آنے کا سلسلہ جاری رکھا۔